Sahafat (Mumbai)
(Translated from Urdu by Arman Neyazi, NewAgeIslam.com)
“Abusing parents is one of the greatest sins”, says Hazrat Abdullah bin Umar (RA) citing Prophet Muhammad (pbuh). One Sahaba (RA) asked, “O’ Prophet Muhammad (pbuh) can one abuse ones parents?” Prophet (pbuh) replied, yes, if one abuses someone’s father he abuses his own father, if one abuses someone’s mother he abuses his own mother.
This curse has become common in a form of persecution in our society today. Resultantly, hate is spreading in the society, states, and regions and in every house. It has become difficult to differentiate between the right and the wrong because of different kinds of statements against each other.
Allah says in Ayat 108, Sura Al-Ina’am, “And insults not those whom they (disbelievers) worship besides Allah, lest they insult Allah wrongfully without knowledge. Thus we have made fair-seeming to each people its own doings; then to their Lord is their return and He shall then inform them of all that they used to do.”
Allah has bestowed upon us a very important lesson of ‘principle’ through this Ayat. And this principle is the foundation of Islamic civilisation and culture. This principle is that’ the thing which you do not take better for you should not be taken for others as well. This teaches us the lesson of ‘tolerance’.
If we, the human being understand the situation in which this Ayat was descended on Prophet Muhammad (pbuh) we will understand the value of patience and tolerance.
According to Ibn e Jareer, a non Muslim Head (General) of Quraish (a tribe) and an enemy of Prophet Muhammad (pbuh) always used to search for opportunities to create problems for him. Once when he came to know of Abu Talib’s (uncle of Prophet (pbuh) fatal disease he decided to meet him with a delegation comprising Abu Sufiyan, Abu Jehal and Umru bin Aas with an aim to assassinate Prophet Muhammad (pbuh). The Head of Quraish thought that if he kills Prophet (pbuh) after the death of Abu Ta’alib people will make fun of him. Therefore, Muttalib was asked to make an appointment with Abu Ta’alib. After they got the appointment they reached to meet Abu Ta’alib on the appointed time.
They told Abu Ta’alib that his nephew castigates their gods and has become a cause of trouble for them. They requested Abu Tal’alib to call Muhammad (pbuh) and make him understand to not to do this. Abu Ta’alib called Muhammad (pbuh) to him and said, “The Head of your tribe have come with a complaint that you make fun of their deity. I request you not to make fun of them and their gods. Abu Ta’alib said, if you agree to their proposal they will also not create problems for you and thus their personal enmity and opposition will end.
Prophet Muhammad (pbuh) said, “If I agree to you, will you agree to repeat the word (Kalima) which will make you the master of the whole Arab? Abu Jehal said “We are ready to repeat not one but ten such Kalimas which makes us master of the Arab world. Tell us “What is that”
Prophet Muhammad (pbuh) said, “La Ilallha Illah”. Hearing this, all members of the delegation got furiousto hear this. Abu Ta’alib said, O’ my nephew; tell some other words (Kalima) as by hearing this Kalima people of your tribe get disturbed and worried. Prophet Muhammad (pbuh) said, my dear uncle I cannot sayany other Kalima even if they give me the wealth of the whole world. This made them all the more irritated. They said they will also make fun of his God. It was here that this Ayat no. 108 of Sura al Enam was revealed’ “And insult not those whom they (disbelievers) worship besides Allah, lest they insult Allah wrongfully without knowledge.”
This presents a brilliant example of patience and tolerance. On various occasions idols have been described in bad taste, such as, “these idols and their worshippers both are weak” and “You and the idols you worship are the fuel of hell”. So what does tolerance mean if idols are called evil in these Ayats. This has been answered in Rooh ul Ma’ani in detail. These Ayats do not talk of castigating the gods (idols); rather, it says, evil begets evil. So it does not go against the values of tolerance.
There is one more example of ‘tolerance’ in Hadith. Prophet Muhammad (pbuh) said, ‘do not abuse your parents’. Sahaba Keram (RA) said, O’ Prophet, how one can abuse one’s parents. Prophet (pbuh) said, “One does not abuse one’s parents directly but if one abuses others’ patents, others abuse their parents. And this is as if you yourself abused your parents.”
One reaps what one sows, in the society. Abusing and hating others opens the door of conflict, mistrust and intolerance. In such a scenario even father and son start opposing each other.
Source: Urdu daily Sahafat, New Delhi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/tolerance-patience-fundamental-teachings-islam/d/5498
رواداری و برداشت دین اسلام
کا بنیادی سبق
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی للہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا آدمی کو اپنے والدین
کو گالی دینا گناہ کبیرہ میں سے ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ کیا آدمی اپنے
والدین کو گالی دےسکتا ہے؟ فرمایا ،ہاں ہو کسی کے باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے
باپ کو گالی دیتا ہے ، وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتا
ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں یہی
چیز ایک فتنا اور ایک وبال کی صورت میں عام ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں ہر گھر ،خاندان
،معاشرہ ،صوبوں اور علاقوں میں نفرت پھیلتی جارہی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی
اس قدر عام ہوچکی ہے کہ حق اور باطل میں فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے ،حالانکہ اللہ تعالیٰ
نے قرآن مجید میں سورہ انعام کی آیت نمبر 108میں ارشاد فرمایا : اور تم لوگ ان کو
برانہ کہو جن کی یہ پرستش کرتے ہیں اور اللہ کے سوا پس وہ برا کہنے لگیں گے اللہ کو
بے ادبی سے بغیر سمجھے ،اسی طرح ہم نے ہر طریقے والوں کے لئے ان کا عمل آراستہ کررکھا
ہے پھر ان سب کو اپنے رب کے پاس پہنچنا ہے تب وہ جتلا دے گا ان کو جو کچھ وہ کرتے ہیں۔
اس میں اللہ تعالیٰ نے ایک
اہم اصول کی ہدایت فرمائی ہے اور یہ اصول اسلامی تہذیب وتمدن کا ایک بنیادی اصول ہے
اور وہ یہ کہ جو کام خود کونا جائز نہیں اس کا سبب اور ذریعہ بننا بھی جائز نہیں ،
اگر ایک کام کرنا انسان برا سمجھتا ہے تو پھر اس کا م کا محرک بننا بھی درست نہ ہوگا،
اسی سے رواداری کا اصول سمجھ میں آتا ہے۔
یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم پر جن حالات میں نازل ہوئی اگر ان حالات کو پیش نظر رکھا جائے تو خوب اچھی
طرح یہ بات واضح ہوجائے گی کہ انسان کو کس حد تک رواداری کا خیال رکھنا چاہئے۔
ابن جریر کی تفصیلات کے مطابق
جب رسول اکرم صلی للہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب مرض الموت میں تھے تو قریش کے مشرک
سردار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی اور آپ کو تکلیفیں پہنچانے میں لگے
ہوئے تھے، ان کو یہ فکر ہوئی کہ ابوطالب کی وفات ہمارے لئے ایک مشکل مسئلہ بن جائے
گی کیو نکہ اگر ہم ابوطالب کے بعد ان کو قتل
کریں گے تو لوگ کہیں گے کہ ابوطالب کے سامنے تو کچھ نہ کرسکے اب اکیلا پاکر قتل کردیا۔
لہٰذا اب وقت ہے ہم خود ابوطالب سے مل کر فیصلہ کن بات کرلیں، لہٰذا قریش کے چند سرداروں
نے یہ مشورہ کر کے ابوطالب کے پاس جانے کےلئے ایک وفد مرتب کیا، جس میں ابوسفیان ،ابو
جہل، عمر وبن عاص قریش کے سردار تھے۔ ابوطالب سے اس وفد کے لئے وقت لینے کا کام ایک
شخص مطلب کے سپرد ہوا، اس نے ابوطالب سے اجازت لے کر وفد کو وہاں پہنچایا۔ وفد نے ابوطالب
سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بھتیجے نے ہمارے معبودوں کو اور ہمیں سخت تکلیف
پہنچارکھی ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کو بلا کر ان کو سمجھادیں کہ وہ ہمارے معبودوں
کو برا نہ کہیں ۔ ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلایا اور کہا
یہ آپ کی برادری کے سردار آئے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ آپ ہمیں اور ہمارے معبودوں
کو برا کہنا چھوڑ دیں تو پھر ہم بھی آپ کو اور آپ کے معبود کو برانہ کہیں گے اس طرح مخالفت ختم ہوجائےگی۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا ، اچھا یہ بتاؤ اگر میں تمہاری یہ بات مان لو ں تو کیا تم ایک ایسا کلمہ
کہنے کے لئے تیار ہوجاؤگے ،جس کے کہنے سے تم سارے عرب کے مالک ہوجاؤگے ؟ ابوجہل بولا،
ایسا کلمہ ایک نہیں ہم دس کہنے کو تیار ہیں ۔آپ بتائیں وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا لا
الہ الا اللہ یہ سنتے ہی سب برہم ہوگئے ۔ ابوطالب نے کہا کہ اے میرے بھتیجے اس کلمہ
کے سوائے کوئی اور بات کہو کیو نکہ آپ کی قوم اس کلمہ سے گھبراگئی ہے۔آپ نے فرمایا
چچا جان میں تو اس کلمہ کے سوا کوئی دوسرا کلمہ نہیں کہہ سکتا اگر چہ وہ آسمان سے
آفتاب لاکر میرے ہاتھ میں رکھ دیں، اس پر وہ لوگ ناراض ہوکر کہنے لگے کہ پھر ہم بھی
آپ کے معبود کو برا کہیں گے اس پر سورہ انعام کی یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ ان کے بتوں
کو برا نہ کہیں جن کو ان لوگوں نے خدا بنار کھا ہے ،ورنہ وہ اپنی بے راہ روی اور بے
سمجھی سے اللہ تعالیٰ کو برا کہیں گے۔
روادی کا یہ سنہری اصول ذہن
میں آنے کے بعد ایک سوال ابھرتاہے کہ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں بتوں کا تزکرہ
سخت الفاظ میں آیا ہے، جیسے فرمایا: یہ بت بھی کمزور اور ان کے چاہنے والے بھی کمزور
۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : یعنی تم اور جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ سب جہنم
کا ایندھن ۔ تو ان آیات میں بتوں کو برا کہا گیا ہے پھر رواداری کا مطلب کیا ہوا؟اسی
بات کا جواب روح المعانی میں تفصیل سے دیا گیا ہے کہ ان آیات میں کسی کو برا بھلا
کہنا مقصود نہیں بلکہ غلط کام کا برا انجام بتانا مقصود ہے، لہٰذا یہ رواداری کے خلاف
نہیں ۔
رواداری کی ایک مثال حدیث
میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے مخاطب ہوکر فرمایا کوئی شخص
اپنے ماں باپ کو برا بھلا نہ کہے، صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیسے ممکن
ہے کہ کوئی شخص اپنے ماں باپ کو برا بھلا کہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ہاں
،انسان خود تو اپنے ماں باپ کو برا نہیں کہتا لیکن جب وہ کسی دوسرے شخص کے والدین کو
براکہے گا تو اس کے نتیجہ میں وہ دوسرا اس کے ماں باپ کو برا کہے گا اس کا سبب یہ بیتا
بنا تو یہ ایسا ہی ہے جیسے خود اس نے اپنے ماں باپ کو برا کہا ۔ جب معاشرے میں کسی
بھی مرحلے میں دوسرے کو بر ا کہا جائےگا تو جواب میں برا ہی سننے کو ملے گا۔ یہاں سے فساد کا دروازہ کھل جائے گا، جس
سے ایک گھر کے افراد میں پھوٹ پڑجاتی ہے ،باپ بیٹا ایک ساتھ کھانا چھوڑ دیتے ہیں صرف
اس لئے کہ باپ نے اسے برا کہا جسے بیٹا اچھا سمجھتا تھا او ربیٹے نے اسے برا کہا جسے
باپ اچھا سمجھتا تھا۔
بشکریہ ۔روز نامہ صحافت ،
نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/tolerance-patience-fundamental-teachings-islam/d/5498