By Saeed Naqvi
Egypt is the arena of positive evolution; Saudi Arabia spreading its tentacles deep in Bahrain and Yemen, and Muammar Gaddafi is dancing between minefields.
Arab spring was always a media short hand. After spending some time in the region, I have in my focus three distinct dramas being played out.
From North Africa – Tunis, Egypt – to Jordan and Syria is one theatre. This is the arena of positive evolution.
Then there is the GCC theatre. Saudi Arabia is the spider in this web, its tentacles deep in Bahrain and Yemen, two countries it shares border with.
The third is something of a solo number with Muammar Gaddafi dancing between minefields being inexpertly laid by an Anglo-French pair of plotters. The Americans, having had their fingers burnt in Iraq, are clearly keen not to be seen conferring martyrdom on another Arab despot.
In an excellent interview with a journalist who specialises in Africa, Fareed Zakaria conclusively established Gaddafi’s immense popularity with sub Saharan Africa where people are collecting donations to help Gaddafi. Surely slaughterers of their citizens are made of harsher stuff.
Little wonder African leaders have been jointly pleading with the international community not to apply UNSC resolution 1973, as a means to advance Western interests.
The Anglo-French desire to dress up their designs with altruism, is just not selling. The Arab public is taking the Anglo-French propaganda with large doses of salt. “Foreigners have entered my house in Mesrata”, says Rafiq Hamadi in Baghdad, “and when I shoot them, they run to the media with the story that I am ‘slaughtering’ my people!”
In the short term, it appears Libya will be divided between East and West. The world, including the Arab public and 20 million Muslims in Europe will see the partitioning of the country for what it is: not to stop the “slaughter” of the innocents but for Libya’s light crude for which European refineries are specially geared.
Bahrain, meanwhile, has been an avoidable tragedy. Avoidable, because the Americans very nearly navigated an agreement between the Crown Prince and the opposition. But hardliners in Riyadh and Manama scuttled it.
Events in Bahrain deserve to be understood because they will resonate for a while. A 37 km causeway links Dammam headquarters of Saudi Arabia’s exclusive oil bearing eastern province which also happens to be a Shia majority region. In fact, in one of the districts, Qatif, the Shia population is over 90 percent.
Ever since the Ayatullahs came to power in Teheran in 1979, the Saudi state has been firm in handling Shia restiveness in the province, real or imagined. Since King Abdullah’s benign rule, Moharram processions and other Shia practices have been tolerated. But vigilance is as total as can be in a police state.
Across the causeway, Bahrain is, by comparison, a haven of openness except that political freedoms are cleverly circumscribed. A large segment of Bahrain’s 1.5 million population are expatriate.
Nearly seventy percent of the 8, 00, 000 Bahrainis happen to be Shias. The rulers, however, follow a strict Sunni school. For over 200 years the Khalifa family have been Emirs of Bahrain.
A decade ago Hamad bin Isa Al Khalifa declared himself King. An Emir, he thought, had colonial connotations. Kingship would lend itself to the possibility of a “constitutional monarchy”. Along with Kingship, almost in sequence, comes a Crown Prince – in this case Prince Salman bin Hamad bin Isa Al Khalifa.
King Hamad, ever since he ascended the throne has had his uncle, Khalifa Ibn Salman al Khalifa as Prime Minister under whom, by popular consent, corruption has flourished as it has elsewhere in the Arab world. He was one of the targets of recent demonstrations.
Infection of popular protest from Tunisia and Egypt arrived in Bahrain and youngsters, Shias and Sunnis, began to collect at Pearl Square for peaceful demonstrations. They even mounted Mahatma Gandhi posters.
Police largely Pakistani cracked down hard. In the ranks of the protesters there was some confusion. Did they want freedoms? A free press? Participatory democracy? Constitutional monarchy? or that the Kahlifas must flee?
American special envoy, Jeffery Feltman, the Crown Prince and moderate Shia leader Shaikh Ali Salman secretly met hand hammered out a compromise agreement.
The Prime Minister, seeing his power recede, agreed to Saudi Interior Security chief Prince Naif’s hardline. No quarter should be given to the Shias who will be the staging post for Iran. Brutality on the Shias was unleashed. And now the Crown Prince and the Prime Minister are probably in rival camps. Obviously the story is not yet over.
Source: The Sunday Guardian, New Delhi
URL: https://newageislam.com/urdu-section/three-theaters-arab-world-/d/4540
سعید نقوی
دنیائے عرب کے حالات وواقعات ذرائع ابلاغ بڑی دلچسپی اور عجلت سے کور کرنے کے کوشاں رہتے ہیں ۔خطہ عرب میں اپنے مختصر قیام کے دوران میں نے تین باتیں اہم طور پر محسوس کیں۔ میں نے محسوس کیا کہ یہاں تین ڈرامے چل رہے ہیں ۔شمالی افریقہ میں ، تیونس ،مصر سے لےکر اردن اور شام تک ایک تھیٹر ہے۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جہاں ایک مثبت ارتقا روپہ عمل ہے۔ پھر دوسرا ہے جی سی سی کا ، اس جال کی حکمراں ہے سعودی عرب کی مکڑی جس کی ٹانگیں بحرین اور یمن میں پیوست ہیں۔ ان دونوں ممالک سے سعودی سرحد میں ملتی ہیں۔ تیسرے اسٹیج پر تنہا کرنل قذافی رقصاں ہے جو برطانیہ اور فرانس کی سازشی کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگ پر ناچ رہا ہے۔ ادھر امریکہ چونکہ ایران میں بھڑکائی ہوئی آگ میں اپنی انگلیاں جلا چکا ہے،نہیں چاہتا کہ ایک عرب قربان گاہ پر جام شہادت نوش کرے۔
افریقی امور کے ماہر صحافی فریدزکریا نے ایک بہترین انٹرویوں میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قذافی نے نیم صحار افریقہ کے اندر زبردست مقبولیت حاصل کرلی ہے اور وہاں لوگ قذافی کی مدد کے لئے چند ہ جمع کررہے ہیں ۔یقیناً اپنے شہریوں کے قاتل مضبوط مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔
اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ افریقی رہنما اجتماعی طور پر بین الاقوامی برادری سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ 1973یو این ایس سی قرار داد کا نفاذ نہیں کرے جس کا مقصد مغربی مفادات کو توسیع دینا تھا ۔برطانیہ اور فرانس نے جو ترکیبیں اختیار کی ہیں، کام نہیں کررہی ہیں۔عرب عوام کو برطانوی ،فرانسیسی پر وپیگنڈہ ایک کڑوا گھونٹ محسوس ہونے لگا ہے ۔بغداد کے ایک شخص رفیق حماوی کے مطابق ‘‘غیر ملکی میرے گھر کے اندر مصراتہ میں داخل ہوگئے ہیں اور جب میں ان پر گولیاں چلاتا ہوں تو وہ میڈیا کے پاس بھاگ جاتے ہیں اور کہانی گھڑ کر سناتے ہیں کہ میں اپنے عوام کو ‘قتل’ کررہا ہوں ’’۔
مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ لیبیا بظاہر دوحصوں میں تقسیم ہونے والا ہے ۔ایک حصہ مشرقی لیبیا اور دوسرا مغربی لیبیا ۔نہ صرف دنیا بلکہ عرب عوام اور یورپ میں آباد 2کروڑ مسلمان دیکھیں گے کہ یہ ملک تقسیم ہوگیا اور معصوم شہریوں کو ‘‘تہہ تیغ ہونے سے بچالیا گیا’’ ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ معصوموں کو نہیں بچایا جائے گا بلکہ لیبیا کا خام تیل بچایا جائے گا جس کی ضرورت یورپ کی ریفائنریوں کو ہے۔دریں اثنا بحرین بھی ایک بچایا جانے والا المیہ بن گیا ہے قابل گریز اس لئے ہوگیا کیونکہ امریکیوں نے تقریباً تقریباً ایک معاہدہ بحرین کے ولی عہد اور حزب اختلاف کے درمیان کرانے میں کامیابی پائی ۔لیکن ریاض اور منامہ میں موجود سخت گیروں نے اس مخالفت کی۔دراصل بحرین کے واقعات کو سمجھنا ضروری ہے ۔بحرین اور دمام کے درمیان 37کلو میٹر طویل شاہرہ ایک رابطے کا کام کرتی ہے ۔ دمام سعودی عرب کے اس مشرقی صوبے میں واقع ہے جہاں سب سے زیادہ تیل نکالا جاتا ہے ۔اس صوبے میں شیعہ اکثریت ہے۔ اس کے ایک ضلع قاطف میں شیعوں کی آبادی 90فیصد تک ہے۔
1979کے دوران جب تہران میں آیت اللہ برسر اقتدار آئے تو سعودی مملکت نے عزم کرلیا کہ و ہ شیعہ آبادی کے اضطراب کو مستحکم طریقے پرڈیل کرے گی عملاً باتصوراتی طور پر ۔جب سے شاہ عبداللہ کا رحمت آفریں عہد شروع ہوا ہے محرم پر تعزیوں کے جلوسوں اور مجالس ماتم وغیرہ کے تئیں رواداری کا ثبوت ملنے لگا ہے اور انہیں برداشت کیا جاتا ہے۔
شاہراہ کے اس پار بحرین ،نسبتاً ،کھلی ہواؤں کی جنت ہے جہاں صرف سیاسی آزادی نہ ہونے کی گھٹن ہے، جسے بڑی حکمت سے دبادیا گیا ہے۔ بحرین کی کل آبادی میں سے 15لاکھ لوگ تارکین وطن ہےہیں ۔آٹھ لاکھ بجرینی آبادی کا 70فیصد حصہ شیعہ ہے۔ تاہم حکمراں سنی مسلک پر قائم ہیں۔200سال سے زائد مدت سے خلیفہ خاندان بحرین کے امیر بنتے چلے آرہے ہیں۔
ایک دہائی قبل حماد بن عیسیٰ الخلیفہ نے خود کو بادشاہ قرار دے دیا ۔ اس کا خیال تھا کہ ایک امیر ہونا نو آبادیاتی گھناونے تصور جیسا ہے۔ بادشاہت اختیار کرنے سے وہ ‘‘آئینی بادشاہ’’کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے۔ اس طرح شخصی حکومت قائم ہوئی اور پھر اسی تسلسل میں بادشاہ کا عہد بھی مقرر ہوا اور وہ بنا شہزادہ سلمان بن حماد بن عیسیٰ الخلیفہ۔
شاہ حماد جس وقت سے تخت نشیں ہوا ۔اس وقت سے اس کا چچا اس کا دم چھلا ہوا ہے۔ اسے وزیر اعظم کا عہدہ دیا گیا ہے اور اس کا نام ہے خلیفہ ابن سلمان الخلیفہ ۔باہمی اشتراک سے بدعنوانیوں کا بول بالا ہے جس طرح دنیا ئے عرب ک دیگر ملک میں ہے ۔حکومت کے خلاف جو مظاہرہ ہوئے ان کا زیادہ نشانہ بادشاہ کا چچا تھا۔
تیونس اور مصر سے عوامی احتجاج کی جو بحرین پہنچتی ہے ، اس نے پرل اسکوائر میں نوجوانو ں ۔سنیوں اور شیعوں کو جمع کر کے جنہوں نے پر امن مظاہرے کئے ۔کہ انہوں نے مہاتما گاندھی کے اشتہارات بھی ان مظاہروں میں استعمال کئے۔
پولس نے ان مظاہرین پر کریک ڈاؤن کئے اور کررہی ہے۔یمنی پولس میں زیادہ تر افراد پاکستانی ہیں احتجاجیوں میں کچھ کے ذہن پر اگند ہیں ۔ ان کے دماغ میں یہ تصور واضح نہیں کہ کیا وہ آزادی چاہتے ہیں ؟ کیا آزاد پریس چاہتے ہیں ؟ حصے داری والی جمہوریت چاہتے ہیں؟ آئینی بادشاہت کے خواہاں ہیں یا یہ کہ خلیفہ خاندان بحرین سے رخصت ہوجائے؟
بہر حال امریکہ کے خصو صی ایلچی جنفری ایلٹیمین ،ولی عہد اور اعتدال پسند شیعہ رہنما نے خفیہ ملاقاتوں میں ایک مشرکہ معاہدہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نے جب یہ دیکھ لیا کہ اقتدار کی مدت گھٹتی جارہی ہے ۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/three-theaters-arab-world-/d/4540