میجر (ر) سردار خان
جس میں اسلام کو ناکام اور بے بس ظاہر کیا گیا ہے
قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور یہ زبان عربی مبین ہے۔ جس کامطلب یہ ہے کہ اس کے حروف اور الفاظ اپنا مدعا خود بیان کرتے ہیں۔ لہٰذا قرآن مجید کا عربی ترجمہ کرنا تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ کسی بھی واقعہ کو بیان کرنے کے لئے اس سے زیادہ واضح اور فصیح و بلیغ الفاظ نہیں ہوسکتے۔ البتہ عجمی زبانوں میں تراجم کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ بشرطیکہ ترجمہ قرآنی الفاظ اور آیات مبارکہ کا صحیح حق ادا کرسکے۔ جو اس لئے بھی مشکل ہے کیونکہ ضروری نہیں ہے کہ ترجمہ کرنے والا عربی زبان پر عبور رکھنے والا ترجمے کے لئے عجمی الفاظ کا درست چناؤ کرسکے۔ یا عجمی زبان کا ماہر قرآنی الفاظ کاکماحقہ درست مفہوم سمجھ سکے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن کے بنیادی مفہوم اور تعلیمات یعنی وحدانیت اور رسالت کے منصب کو اجاگر کیا جاسکے۔ عجمی مترجمین نے بس یہی کام انجام دیا ہے۔ حالانکہ اس میں بھی وہ جاء بجا ء غوطہ کھا گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے الا سماء الحسنیٰ میں کجی اختیار کرگئے ہیں۔ شریعت سے متعلق آیات ربانی کی دوراز کا رتاویلات کر گئے ہیں، اور ماضی یا مستقبل کے واقعات کے متعلق قرآن کی خبروں کا غلط مفہوم بیان کرگئے ہیں مثلاً ماضی کے واقعات میں فتح حدیبیہ اور فتح خیبر سے متعلقہ معلومات میں ملاوٹ اور خلیفہ اوّل کے چناؤ میں تفرقہ کی آمیزش قابل ذکر ہیں۔ جبکہ مستقبل کی خبروں سے متعلق دابۃ الارض کا ظہور ۔ یا جو ج و ماجوج کا خروج اور حضرت مسیح کے نزول سےمتعلق عقائد میں قرآن کی تعلیمات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں تو ان سب موضوعات پر گفتگو ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا راقم صرف عمرۃ الحدیبیہ تک اپنا کلام محدود رکھے گا جسے مفسرین نے الٹا اور افراط و تفریط کے ساتھ بیان کیا ہے۔
روایتی کہانی ۔ عمرۃ الحدیبیہ سےمتعلقہ احوال کو سمجھنے کے لئے روایتی کہانی کابھی جاننا ضروری ہے تاکہ اسے متعلقہ آیات ربانی پر پرکھا جاسکے اور اس کے غیر صحیح ہونے کےثبوت مہیا ہوسکیں ۔ چنانچہ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ہجری 5 میں خواب میں دکھایا کہ مسلمان مسجد الحرام میں امن کےساتھ داخل ہونگے۔ اپنے سروں کو منڈوائیں گے اور بالکل بے خوف ہوں گےاس خواب کی مسلمانوں نے مختلف تعبیریں کیں، بعض کا خیال تھا کہ یہ فتح مکہ کی بشارت ہے ، جب کہ بعض نے اسے مشر کین مکہ کےساتھ کوئی معاہدہ امن کے معنوں میں لیا۔ اسی لئے قرآن کریم نے اسے لوگوں کےلئے آزمائش ( فتنہ) قرار دیا ہے۔ لہٰذا (6) ہجری میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کاارادہ فرمایا ، تو تقریباً ایک ہزار پانچ سو سرفرو شان اسلام نے آپ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ان کو خانہ کعبہ سےبے حد و حساب محبت تھی، اور وہ غالباً یہ بھی جانتے تھے کہ مشرکین مکہ شاید ان کو مکہ مکرمہ میں داخل ہو نے سے روکنے کی کوشش کریں اور نوبت جنگ تک پہنچ جائے ۔ کیونکہ اب تک مشرکین مکہ تین مرتبہ لشکر کثیر کے ساتھ مدینہ منورہ پر چڑھائی کرچکے تھے ۔ لہٰذا ساتھ دینے والے مسلمان اپنے اسلحہ سےلیس تھے۔ ان میں اکثریت مہاجرین کی تھی پیچھے رہنے والوں (مخلفون) میں منافقین اور اعراب شامل تھے۔ جنہوں نے مختلف حیلے او ربہانے بنائے۔
قرآن کریم نے اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رویاء کو فتنہ قرار دیا ہے۔ تاکہ لوگوں کی جانچ ہوجائے۔ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ ( 17:60)اور ہم نے اس خواب کو لوگوں کے لئے آزمائش بنایا جو ہم نے آپ کو دکھایا۔ بہر کیف عمرہ کےلئے جانے والا یہ قافلہ جب حدیبیہ کے نزدیک پہنچا تو روایات کے مطابق مشرکین مکہ کو اس کی خبر ہوچکی تھی اور انہوں نے حضرت خالد بن ولید کی سربراہی میں دو سو سواروں کو اس قافلے کا راستہ روکنے کے لئے بھیجا تھا ۔ لیکن مسلمانوں کو بھی اس کی خبر پہنچ چکی تھی اس لئے اس قافلے نے مکہ مکرمہ کےلئے اپنا راستہ تبدیل کردیا تھا ۔
یہ روایات اس لئے بھی غلط ہیں کہ مدینہ سےمکہ کےلئے حدیبیہ کا راستہ سب سےچھوٹا اور آسان تھا، لہٰذا خالد بن ولید کے رسالے اور مسلمانوں کے راستہ بدلنے کی باتیں سراسر من گھڑت ہیں۔ زیب داستاں کےلئے ان روایات میں یہ بات بھی داخل کی گئی ہے، کہ حدیبیہ کے قریب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی اور وہاں سے رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قریش کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجنا چاہا کہ ہم جنگ کرنے نہیں آئے ہیں بلکہ عمرہ کرنے اور خانہ کعبہ کی زیارت اور طواف کرنے آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ عذر پیش کیا کہ ان کے قبیلے کاکوئی آدمی مکہ میں نہیں ہے جس کی پناہ میں وہ روساء قریش کے ساتھ مذاکرات کرسکیں ۔ اس لئے انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام پیش کیا، لہٰذا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا گیا ۔ اس اثنا میں مکہ سے بھی مشرکین کا ایک وفد سہیل بن عمر کی سربراہی میں گفت و شنید کے لئے حدیبیہ پہنچا اور پھر ایک اور وفد عروہ بن مسعود کے ساتھ پہنچا یہ عروہ قبیلہ بنو خزاعہ سے تھے اور بہت معقول انسان تھے ۔ قریش ان کی بہت عزت کرتے تھے موضوع روایات کہتی ہیں کہ عروہ نے مسلمانوں کا جوش جذبہ دیکھ کر ان کے سامنے ایک معقول صلح نامہ کی تجویز یوں رکھی کہ مسلمان اس بار خانہ کعبہ جائیں اور دوسرے سال محدود ہتھیاروں کے ساتھ آکر عمرہ کرلیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تجویز قبول کرلی او راس کے بارے میں ایک عہد نامہ لکھنے کےلئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کہا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بادل ناخواستہ لکھتے ہوئے یہ الفاظ رقم کئے کہ عہد نامہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے قریش مکہ کےلئے ہے۔اس پر قریش مکہ معترض ہوئے کہ رسول اللہ کے الفاظ نہ لکھے جائیں کہ وہ رسالتمآب کو رسول نہیں مانتے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کی جگہ بن عبداللہ لکھنے کو کہا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قدر تامل کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان الفاظ کو کاٹ دیا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی لکھی گئی کہ قریش سے اگر کوئی شخص مسلمانوں کے پاس آئے تو وہ اسے واپس کریں گے۔ جب کہ ان کی طرف سے کوئی آدمی قریش کی طرف جائے گا تو وہ واپس نہیں کریں گے۔ روایات یہ بھی کہتی ہیں کہ معاہدہ ابھی لکھا جارہاتھا کہ سہیل کا بیٹا ابو جندل جسے قریش نے قید کر رکھا تھا اپنی بیڑیاں اتڑوا کر حدیبیہ پہنچا۔ تو سہیل نے اسے دوبارہ لینے کا مطالبہ کیا تو ابو جندل کو لوٹا دیا گیا۔
روایات کی یہ کہانی بڑی چابک دستی سے گھڑی گئی ہے اور موجودہ دور کے کسی ملا اور فقیہ کو اس میں کوئی خامی نظر نہیں آتی۔لیکن قرآن کریم اس کی سرتاپا تردید کرتاہے قرآن کے مطابق پیغمبر اسلام نے 6 ہجری میں تقریباً 1500 مومن کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہوکر امن و سکون کے ساتھ عمرہ ادا کیا، سروں کو منڈوایا اور طواف کعبہ کیا صفا اور مروہ کی سعی کی اور غالباً قربانی بھی کی ۔ حدیبیہ میں کوئی صلح اور معاہدہ نہیں کیا گیا۔ یہ ہوسکتا ہے قریش اور مشرکین مکہ کے وفود کو مکہ میں داخل ہونے سے منع کرنے حدیبیہ آئے ہوں لیکن مومنین کے تیور دیکھ کر خاموشی اختیار کی ہو یا زیادہ سے زیادہ پر امن رہنے کی اپیل کی ہو۔ راقم کایہ موقف آیات ربانی پر مبنی ہے۔ کیونکہ عجمی مفسرین اور مترجمین نے تو ہمارے لئے قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر موضوع روایات کی مطابقت میں کرتے ہوئے اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور قارئین کرام عمرہ حدیبیہ سے متعلق صحیح صورت احوال آیات ربانی کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں۔
صورۃ فتح کی پہلی آیت مبارکہ ببانگ دہل اعلان فرمارہی ہے کہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے واضح فتح ( فتحؑا مبینًا) کا دروازہ کھول دیا گیا۔ تاکہ جنگ بدر ،احد اور خندق میں ہلاک ہونے والے مشرکین کے دعویٰ ہائے خون ( جور سالتمآب پر کئے جارہے تھے) ختم ہوجائیں او راللہ تعالیٰ ان پر اپنی نعمتیں پوری کردے اور ان کو آگے بھی صراط مستقیم پر رواں دواں رکھے ۔ عجمی مترجمین نے ان آیاتِ کریمہ کا یوں ترجمہ کیا ہے۔ اے محمود ہم نے تم کو فتح دی فتح بھی صریح و صاف (2) تاکہ اللہ تمہارے پچھلے اور اگلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کردے اور تم کو سیدھے راستے پر چلائے ( ترجمہ فتح الحمید)
راقم کا اس ترجمے پر اعتراض گر ائمر او رلغت کے حوالے سے یہ ہے کہ انا فتحنالک کا ترجمہ تو کسی بھی قرینے سے یہ نہیں ہوسکتا کہ ‘‘ ہم نے تم کو فتح دی ’’ کیونکہ فتحنا میں فتح فعل کا صیغہ ہے مصدر کا نہیں ۔ لہٰذا اس کا ترجمہ کھول دیا ماضی کے صیغے میں اور ‘‘نا’’ ضمیر جمع متکلم ہے۔ لہٰذا ترجمہ یہ بنتا ہے کہ ، ہم نے کھول دیا ہے لک آپ کے لئے فتحًا مبینًا صریح فتح کا دروازہ یا راستہ راقم اس بات پر بھی حیران ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سے گناہ کئے جنکو معاف کرنے کےلئے یہ فتح ضروری تھی اور اس کے ذریعے مستقبل کے گناہ بھی معاف ہوں ۔ اور فتح کے ساتھ گناہوں کی معافی کاکیا تعلق ہے؟ بات یہ ہے کہ مترجمین کو ذنب کا ایک ہی معنیٰ گناہ معلوم تھا ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ ذنب کا عربی مبین میں ایک معنیٰ ‘‘خون کا بدلہ’’ بھی ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ۔وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ ( 26:14) اور ان کا مجھ پر ایک خون کا دعویٰ یا بدلہ بھی ہے پس میں خائف ہوں کہ مجھے قتل کر دینگے۔
مشرکین مکہ کا بھی رسالتمآب پر ان مقتولین کے قتل کا دعویٰ تھا ۔ جو جنگ بدر، احد، اور خندق میں ڈھیر کردیئے گئے تھے ، اور اس کے ساتھ ہی آئندہ قتل ہونے والے مشرکین کے قتل بھی معاف کردیئے گئے ۔ اب کون عقلمند کہہ سکتا ہے کہ یہ صورت حال حدیبیہ سےعمرہ کئے بغیر واپس ہونے اور مشرکین کی شرائط تسلیم کرنے سے متعلق ہوسکتی ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ روایات ہی نے مشرکین مکہ کی طرف سے شرائط اختراع کی ہیں اور پھر ان کو مسلمانوں کے لئے سود مند بھی قرار دیا ہے۔
راقم صلح حدیبیہ کا اپنے اس استدلال کو ایک طرف رکھتے ہوئے روایتی مولوی سے یہ پوچھنا چاہتا ہے کہ اس کے پاس سورۃ فتح کی آیت نمبر 27 کی کیا تعبیر ہے؟ جس میں فرمایا گیا ہے کہ لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ (48:27) تحقیق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے خواب کو سچ کر دکھایا کہ تم مسجد الحرام میں جب اللہ چاہے تو امن کے ساتھ داخل ہوگے سروں کو منڈواؤگے او ربال کترواؤگے او ربے خوف ہوگے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کو وہ معلوم تھا جو تم کو معلوم نہ تھا۔ پس اس نے اس کے علاوہ بھی ایک فتح اور نزدیک کر دی سورۃ فتح 27 کے اس خواب کی تصدیق و تعبیر حدیبیہ کا عمرہ امن کے ساتھ ادا کرنے کے علاوہ او رکیا ہوسکتی ہے؟ اور سورۃ فتح کی آیت 24 مکہ کے بطن میں امن و امان کا ذکر کس وقت اور زمانے کے حوالے سے کررہی ہے؟ اگر 6 ہجری کا عمرہ امن او رسکون کے ساتھ نہیں ادا کیا گیا ہوتا تو یہ آیات نازل نہ ہوتیں ۔ سورہ فتح بیت رضوان کا بھی ذکر کرتی ہے جس کے وقوع کی بھی ضرورت واضح ہے۔ کہ شاید حدیبیہ میں مشرکین کے وفود نے کچھ بڑائی اور شیخی کا مظاہرہ کیا ہوگا۔ بیت رضوان کے مومنین سے اللہ تعالیٰ راضی ہوا کہ وہ جو بیعت کررہے تھے وہ صدق دل سے تھا ۔ لہٰذا وفود مشرکین سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ گئے ہوں اور قریش مکہ کو مسلمانوں کے عزم صمیم سےآگاہ کیا ہوگا کہ مسلمانوں نے مکمل امن اور سکون کے ساتھ عمرہ ادا کیا ہے۔
من گھڑت صلح حدیبیہ سے متعلقہ روایات یہود و نصاریٰ کی موضوع کردہ ہیں۔ گو ان کو جزیرہ نما عرب سے عہد رسالت ہی میں نکال دیا گیا تھا۔ لیکن یہ روایات ان کے اخراج سے پہلے مسلمانوں میں پھیل چکی تھیں ۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعض روایات پر گرفت فرماتے تھے او راس پر مسلمان صحابی یا تابعی کو گواہی طلب فرماتے تھے ۔ اس ضمن میں متعہ کی حلت او رحرمت سے متعلقہ روایات اپنی مثال آپ ہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے تک متنازع رہیں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ متعہ کی حلت بیان کرنے والی روایات بھی جعلی تھیں ورنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی خبر کیوں نہ ہوتی۔ حدیبیہ کے معاملے ہی کو لیجئے کہ مسلمانوں نے تو بڑے دھڑلے کے ساتھ عمرہ ادا کیا، خانہ کعبہ کی زیارت کی، طواف کیا صفا مروہ کی سعی بھی کی، لیکن یہ سب جعلی او رموضوعی روایات کہتی ہیں کہ مسلمان عمرہ کئے بغیر قریش مکہ کی تمام شرائط تسلیم کرتے ہوئے مدینہ واپس لوٹ گئے۔
مزید براں موجودہ دور کے روایتی مصنفین و مفسرین نے جو تشریح فتحًا مبینًا کی کی ہے وہ صرف غلط ہی نہیں بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔نہ جانے وہ سورۃ فتح کی آیت نمبر بارہ پر غور کیوں نہیں کرتے جو بڑی وضاحت کے ساتھ یہ حقیقت بیان کررہی ہے کہ اعراب مدینہ کا خیال تھا کہ مسلمان مکہ سےواپس اپنے گھروں کو نہ آسکیں گے۔ اسی لئے وہ ان کےساتھ عمرہ کےلئے نہیں گئے تھے ۔ بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا ( 48:12) تو قارئین کرام حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیچ مکہ کے قریش کے ہاتھ مسلمانوں سے اور مسلمانوں کے ہاتھ مشرکین سے روک دئیے، کیونکہ مکہ مکرمہ بلدا مین ہے او ررہے گا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائے گئے خواب کو سچ کر دکھایا کہ وہ امن کےساتھ مسجد الحرام میں داخل ہوئے سروں کو منڈوایا اور بے خوف کےساتھ عمرہ ادا کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سابقہ اور موجودہ مفسرین اور محدثین سورۃ فتح آیت نمبر 11،12،22 اور 27 کو فتح مکہ سے منسوب کرر ہے ہیں ۔ حالانکہ ان آیات مبارکہ کا فتح مکہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسی لئے راقم کا موقف یہ ہے کہ یہ ہے کہ دو تہائی آیات کے فارسی اردو اور انگریزی ترجمے صرف غلط نہیں ہیں بلکہ گمراہ کن ہیں۔ میرے ایک دوست نے سوال کیا کہ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ حدیبیہ کے متعلق یہ غلط تأثر ان روایات کی وجہ سے ہے جو یہود و نصاریٰ نے وضع کی ہیں تو سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ اس سےکیا فائدہ ہوسکتا تھا یا اگر اس تأثر کو درست قرار دیں تو اس سے مسلمانوں کو کیا نقصان پہنچ سکتا تھا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غلط تأثر 1400 سال سےقرآن کی حقانیت اور اسلام کی ترقی کی راہ میں حائل رہاہے اور اب بھی اسلام قبول کرنے والے قاریوں کےلئے ایک معمہ ہے۔ رسالتمآب کے خواب کی سچائی سے متعلق شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ عمرۃ الحدیبیہ کا صحیح نقشہ یہی ہے کہ مسلمانوں نے قریش کی کوئی پرو ا کئے بغیر مکہ مکرمہ میں داخل ہوکر عمرہ ادا کیا اور پھر امن و سکون سے مدینہ منورہ کو لوٹ گئے ۔ تو اس سے نہ صرف قریش مکہ بلکہ یہود خیبر بھی متزلزل ہوگئے، لہٰذا خیبر 7 ہجری او رمکہ 8 ہجری میں مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ اس طرح اللہ نے دین اسلام کو پورا کیا اور دوسرے تمام مذاہب پر غالب کیا۔ آیات ربانی اس پر یوں گواہی دیتی ہیں۔
(1) الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (5:3) (2) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ( 48:28) (3) وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ( 3:85) ان آیات کریمات پر غور و فکر کرنے سے بحیثیت مجموعی یہ مفہوم ابھر کر سامنے آتاہے کہ ہم نےتمہارے لئے دین اسلام کو پورا کردیا یعنی رب واحد کا بندگی اور عبارت والا دین ۔ کیونکہ خانہ کعبہ کے تمام بت اوندھے منہ گرا دیئے گئے لہٰذا عبادت اب صرف اللہ کے لئے رہ گئی ہے ۔ دین کے پورے ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ شریعت محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات مکمل ہوگئے ۔ اور دین کے غالب ہونے کا جو وعدہ اللہ نے فرمایا تھا وہ یہ وعدہ فتح مکہ کے ساتھ پورا ہوگیا اور کم از کم ایک سال تک مشرکین کو بھی مسجد الحرام سےنہیں روکا گیا۔ اس کے بعد ان کو با قاعدہ اعلان کےساتھ منع کیا گیا ۔ جس سے اسلام کو امن دوستی کا ثبوت ملتا ہے۔
اس کے بعد سورۃ آل عمران میں فرمایا گیا کہ ( اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین تو صرف اسلام ہے) جو شروع سے ایک ہے لیکن اہل کتاب نے اس حقیقت میں اختلاف علم کے آجانے کے بعد آپس کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے کیا ۔ بہر حال جو کوئی دین اسلام یعنی ایک اللہ کی عبادت کے علاوہ دوسرا نظریہ اپنائے گا تو وہ قبول نہیں ہوگا اور دوسری زندگی میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہو گا۔ ( آل عمران 19)
درج بالا اور متعدد دوسری آیات مبارکہ سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دین اسلام ہر محاذ پر کامیاب او رکامران رہا ہے خواہ یہ محاذ مقاتلے اور مجادلے کا تھا، یہ معاہدے اور مذاکرے کا تھا ۔ وہاں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے لفظ دین کامطلب فقہ اور شریعت ہر گز نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد عبادت اور بندگی ہے، خواہ یہ رب واحد کی ہو یا بتوں اور اصنام کی ہو۔ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ یہی مطلب ہے مُخلصین لُہ الدین کا بھی یہی مطلب ہے۔الاللہ الدین الخالص کا بھی یہی مطلب ہے ۔ اور وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا سے بھی یہی مراد ہے۔ لفظ دین کاایک مطلب ملکی قوانین بھی ہے (مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ ) ۔ بادشاہ کے قانون کےمطابق وہ اپنے بھائی کو روک نہیں سکتے ۔ الدین کاایک مطلب فیصلہ انصاف و عدالت بھی ہے ۔ جو مالک یوم الدین سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ انصاف اور عدالت کے دن کا مالک ہے اور یہ عدالت واقع ہوکر رہے گی ۔ وان الدین لواقع ( زاریات 60)
عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ جب سے اسلام ملوکیت اور عجمی ملا کے ہاتھوں میں آیا ہے تو اس کا کوئی پہلو اپنی اصل شکل میں محفوظ نہیں رہا ہے۔ عباداتی، سماجی اور معاشی پہلوؤں میں آیات ربانی کے روایتی ترجموں اور تعبیروں کی معنوی تحریف کردی گئی ہیں ۔ اور اسلام کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا ہے۔ و ما علینا الا البلاغ۔
نومبر 2014، بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/peace-treaty-hudaibiya-/d/101092