صابر صدیقی
فروری، 2013
جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے، اس کے طرز حکومت کے سیکولر ہونے کے متعلق مختلف گوشوں سے بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آرہی ہیں اور جوں جوں وقت گزر رہا ہے ان بولیوں کے آہنگ میں تیزی آتی چلی جارہی ہے۔ کچھ عرصہ ہو اجسٹس محمد منیر مرحوم نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں دعویٰ کیا تھا کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے اور یہ کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کا شوشہ جماعت اسلامی نے یہ کہہ کر چھوڑا تھا کہ پاکستان کامطلب لا الہ الا اللہ ۔شاید جسٹس صاحب کے علم میں یہ بات نہیں تھی کہ جماعت اسلامی کو تحریک پاکستان یا تشکیل پاکستان سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ جسٹس صاحب مرحوم کے ہم خیال اصحاب کے دعوؤں کی تردید کے لئے قائد اعظم کا وہ بیان کافی ہے جس میں انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی کے طلباء کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری آزادی او رپابندی کی حدود کتاب اللہ نے مقرر کردی ہیں ۔ اس کے علاوہ جسٹس قدیر الدین مرحوم کا وہ انٹر ویو توجہ طلب ہے جس میں انہوں نے کہاتھا کہ جب 3 جون 1947 ء کو تقسیم ہند کا فیصلہ ہوگیا تو میری موجودگی میں علامہ شبیر احمد عثمانی مرحوم نے قائد اعظم مرحوم سے پوچھا کہ پاکستان میں کیا قرآنی قانون نافذ ہوگا تو قائد اعظم نے فرمایا۔ And what for have I been fighting for all those years۔
پاکستان کے سوشلسٹ حلقوں کے ترجمان جناب سبط حسن مرحوم نے اپنی کتاب ‘‘نوید فکر’’ میں جسٹس محمد منیر مرحوم کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنانا چاہتے تھے اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ دعویٰ بھی کردیا کہ علامہ اقبال نے بھی پاکستان کا جو منصوبہ پیش کیا تھا تو ان کے ذہن میں بھی ایک سیکولر ریاست کا نقشہ تھا۔ آج کل بہت سے علم بردوش اصحاب پی ٹی وی کی ٹرانسمیشن نیوز نائٹ میں آکر اسی قسم کے دعوے کررہے ہیں۔ جناب سبط حسن صاحب مرحوم ہمارے ملک کے ان ذی علم لوگوں میں سے تھے جنہیں صحیح معنوں میں دانشور کہا جاسکتا ہے ۔ ان کی سوچ کا انداز اشتراکی تھا ۔ وہ لگی لپٹی یاذ و معنی بات نہیں کہتے تھے ۔ بلکہ جو کچھ کہنا چاہتے دو ٹوک کہہ دیتے ۔ ان کی کتابیں پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء یا ماضی کے مزار ، موسیٰ سےمارکس تک اور نوید فکر اہل نظر کی نگاہوں میں بڑی دقعت رکھتی ہیں۔ اپنی کتاب ‘‘نوید فکر’’ میں انہوں نے سیکولر ازم پر ایک مبسوط مقالہ لکھا ہے جو سو سے زائد صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ کتاب مذکور کے صفحہ 174 پر وہ لکھتے ہیں ‘‘ پاکستان کا تصور خواہ سرسید احمد خان کے ذہن کی تخلیق ہو یا علامہ اقبال اور مسٹر محمد علی جناح کی سوچ کا نتیجہ ۔ ان میں سے ہر ایک مقصد بر صغیر کےمسلمانوں کی سیاسی اور ثقافتی خود مختاری تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کی دنیاوی فلاح و بہود کے پیش نظر آزاد پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ اسی بنا پر ہم تحریک پاکستان کو ایک سیکولر تحریک کہتے ہیں۔ علامہ اقبال کا لقب مفکر پاکستان ہے۔ وہ اپنے خطبہ صدارت میں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں الہٰ آباد میں پڑھا گیا تھا فرماتے ہیں۔
‘‘ جہاں تک میں مسلم ذہن پڑھ چکا ہوں مجھ کو یہ اعلان کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ مستقل فرقہ وارانہ سمجھوتے کی خاطر ہندوستانی مسلمان کا اگر یہ حق تسلیم کرلیا جائے کہ وہ اپنی تہذیب اور روایت کی روشنی میں آزاد اور مکمل ترقی کا مجاز ہے تو وہ ہندوستان کی آزادی کے لئے سب کچھ داؤ پر لگادے گا ......... میں چاہوں گا کہ پنجاب ، صوبہ سرحد، سندھ او ربلوچستان ایک ریاست میں ضم کردیئے جائیں خواہ سلطنت برطانیہ کے اندر خود مختاری ہو خواہ سلطنت سے باہر۔ میری نظر میں کم ازکم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کی تقدیر یہی ہے ....... ہندوؤں کو یہ ڈرنہ ہونا چاہئے کہ ان کی خود مختار مسلم ریاستوں کےمعنی ان میں کسی قسم کی مذہبی حکومت کے قیام کے ہوں گے’’ ۔ اس اقتباس کا حوالہ دینے کے بعد جناب سبط حسن صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علامہ اقبال نے پاکستان کو جو تصور دیا تھا ان کے ذہن میں بھی ایک سیکولر ریاست ہی کا تصور تھا کیونکہ انہوں نے مسلم اکثریتی صوبو ں کے لئے حق خودار ادیت مانگا تھا اور خود ارادیت کا حق مانگنا سیکولرازم ہے اس کے بعد پاکستان کے خالق مسٹر محمد علی جناح نے اس خیال پر یہ کہہ کر مہر تصدیق ثبت کردی کہ :
‘‘ ہماری مخصوص تہذیب ہے’’ زبان ادب آرٹ اورفن میں اصطلاحات ہیں۔ قدریں ہیں پہچانیں ہیں۔ قانون و اخلاق کے ضابطے رواج اور جنتری تاریخ و روایات اور مذاق اور آرزوئیں ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی کے بارے میں ہمارا مخصوص نقطہ نظر ہے۔ لہٰذا قانون قوم کے ہر قاعدے سے ہم ایک قوم ہیں ( صفحہ 175) جناب سبط حسن صاحب کو یہ اعتراض تھا کہ زندگی کےمتعلق مخصوص نقطہ نظر رکھنے سے ایک قوم قوم نہیں بن سکتی ۔ یہ نقطہ نظر ہی تو ہے کہ جو مسلمانوں کو دیگر اقوام عالم سے جدا کرتا ہے ۔ ورنہ اقوام یورپ زندگی کے متعلق ایک ہی نقطہ نظر رکھنے کے باوجود مختلف اقوام میں بٹی پڑی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے متعلق یہ کہا جائے گاکہ دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان ہیں اپنے نقطہ نظر کے اتفاق کی وجہ سے ایک قوم کے افراد ہیں جو دوسری قوموں سے جدا ہے۔ اسی لئے اقبال نے کہا تھا ۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ہمارے سامنے محترمہ رضیہ فرحت بانو کامرتبہ خطبات اقبال کانسخہ ہے جسے اردو اکیڈمی سندھ کراچی نے شائع کیا ہے۔ اس محولہ بالا خطبہ الہٰ آباد میں یوں کہا گیا ہے۔ (مسلمانوں ) کا مدعا صرف اس قدر ہے کہ وہ اپنی ترقی کی راہ میں آزادی کے ساتھ قدم بڑھائیں ۔ لیکن یہ اس مرکزی حکومت کے تحت ممکن نہ ہوگا جسے قوم پسند ہندوار باب سیاست محض اس لئے قائم کرنا چاہتے ہیں کہ دوسری ملتوں پر ہمیشہ کے لئے ان کا غلبہ ہوجائے۔ بہر حال ہندوؤں کے دل میں اس قسم کا خدشہ نہیں ہونا چاہئے کہ آزاد اسلامی ریاستوں کے قیام سے ایک طرح کی مذہبی حکومت قائم ہوجائے گی۔ میں ابھی عرض کرچکاہوں کہ اسلام کوئی کلیائی نظام نہیں بلکہ یہ ایک ریاست ہے جس کا اظہار روسو سے بھی کہیں پیشتر ایک ایسے وجود میں ہوا جو عقیدہ اجتماعی کا پابند ہو۔ ریاست اسلامی کا انحصار ایک اخلاقی نصیب العین پر ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان شجر و حجر کی طرح کسی خاص زمین سے وابستہ نہیں ۔ بلکہ وہ ایک روحانی ہستی ہے جو ایک اجتماعی ترکیب سے حصہّ لیتا ہے اور اس کے ایک زندہ جزو کی حیثیت سے چند فرائض اور حقوق کا مالک ہے۔
علامہ اقبال نے اسلام کو ایک ریاست اور اسے اخلاقی نصب العین کہہ کر معاملہ واضح کردیا ہے کہ ان کے ذہن میں کسی ایسی ریاست کا نقشہ نہیں تھا جسے سبط حسن صاحب کے تصور کے مطابق سیکولر کہا جاسکے۔ اسلام اشتراکیت ہی کی طرح ایک نصب العین رکھتا ہے جو اشتراکی نصب العین سے وسیع تر ہے۔ جس طرح غیر اشتراکی ممالک میں بسنے والے اشتراکی حضرات ماسکو کو اپنا مرکز خیال کرتے ہیں اسی طرح مسلمان کعبۃ اللہ کو اپنا مرکز مانتے ہیں۔ جس طرح اشتراکیوں کے لئے کارل مارکس کی شخصیت سند کا درجہ رکھتی ہے اسی طرح مسلمانوں کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی مقدس ہے ۔ جس طرح ‘‘ سرمایہ ’’ اشتراکیوں کےلئے دلیل راہ ہے اسی طرح مسلمان قرآن مجید کو آخری حجت تسلیم کرتے ہیں۔ جس طرح تبدیلی وطن کے بعد اشتراکی ایک اشتراکی ہی رہتا ہے اسی طرح ایک مسلمان جہاں بھی چلا جائےمسلمان ہی رہتاہے۔ جس طرح اشتراکی اپنے مسلک کی تبلیغ میں کوشاں رہتا ہے اسی طرح مسلمان پربھی یہ فرض عائد ہوتاہے کہ دامے درمے قدمے سخنے اسلام کی نشرو اشاعت میں مصروف تگ و تاز رہے۔ اگر کوئی فرق ہے تو اس قدر کہ اشتراکیوں کانقطہ نظر مساوات شکم تک محدود ہے اور اسلام اس سے وسیع تر نقطہ نظر کا عامل ہے۔ دوسرے یہ کہ اشتراکیوں کا مرکز پیرس سے لندن ، لندن سے ماسکو او رماسکو سے پیکنگ تبدیل ہوسکتا ہے لیکن مسلمانوں کی نگاہ ہمیشہ بیت الحرام پر ہی رہی ہے اور رہے گی۔ اس ذراسی بات کو سمجھنا سبط حسن صاحب جیسے دانشور کے لئے چنداں مشکل نہ تھا لیکن انہوں نے اس التباس کی وجہ خود ہی اپنی کتاب ‘‘نوید فکر’’ کے صفحہ 79 پر بات واضح کردی ہے جہاں سقراط اپنے شاکرد کریٹو سے کہتا ہے ‘‘ لفظوں کو ان کے صحیح معنوں میں استعمال کیا کرو۔ کریٹو یاد رکھو لفظوں کا غلط استعمال سب سے بڑا گنا ہ ہے ’’
سبط حسن صاحب مرحوم نے سیکولرازم کی جو تاریخ بیان کی ہے اس سے ہم انکار نہیں کرتے۔ انسائیکلو پیڈیا امریکا نا اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب مرحوم کی انگلش اردو ڈکشنری میں بیان کردہ سیکولرازم کی تعریف بجا اور درست ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ریاستیں جو اپنے آپ کو سیکرلر کہتی ہیں ان کےقول اور فعل میں کوئی مناسبت ہے یا نہیں ۔ کیا آپ امریکہ میں کھلے بندوں اشتراکیت کا پرچار کرسکتے ہیں۔ کیا روس اور چین میں دوبارہ نظام سرمایہ داری رائج کرنے کے لئے تقاریر کرسکتے ہیں ۔ کیا ہندوستان میں مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ کھلم کھلا اسلام کی تبلیغ کرسکیں۔ اور اگر ایسا نہیں تو سیکولر ریاستوں کا آزادی تحریر و تقریر کا دعویٰ منافقت پر مبنی ہے ۔ اگر آپ کہیں کہ سیکولرازم کے نزدیک انسان کی سچی راہنما سائنس ہے تو اسلام کو اس سے کب انکار ہے۔ اگر علم اور ادراک کی واحد کسوٹی اور سند عقل ہے تو اسلام اس سوچ کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ اگر آپ کہیں کہ ہمیں بہر حال اس دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تو قرآن مجید آخرت سے پہلے اسی دنیا کو سنوارنے کی تاکید کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ دعا کرنے کا حکم دیتا ہے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدَّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاَ خِرَۃِ حَسَنَۃً بلکہ قرآن تو کہتا ہے کہ جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا۔ وَمَنْ کَانَ فِیْ ھُذِہ اَعْمٰی فَھْوَ فِی الْاٰ خِرَۃِ اَعْمٰی اگر سیکولرازم ایک ایسا فلسفہ حیات ہے جو خرد مندی اور شخصی آزادی کی تعلیم دیتا ہے اور تقلید اور روایت پرستی کی بجائے عقل و علم کی اجتہادی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تو اسلام اس سوچ پرکب قدغن لگاتا ہے بلکہ قرآن مجید تو مومنوں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ لوگ اور تو اور آیات خداوندی کو بھی عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّھمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيھَا صُمًّا وَعُمْيَانًا (25:73) دراصل بات یہ ہے کہ سبط حسن صاحب نے سیکولر ازم کی جو بھی خصوصیات بیان کی ہیں وہ سب اسلام کی خصو صیات ہیں۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ قرآن مجید افراد او رمعاشرہ کی ترقی کے نام پر کسی کو اس قدر مادر پدر آزاد نہیں چھوڑ تا کہ اس کےدل میں جو آئے کر گذرے۔ وہ اقوام کی بہبود، خوشنودی اور خوشحالی کے لئے کسی کو اپنے اصول و اقدار یا قوانین وضع کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ قرآن مجید کا اصرار ہےکہ خدا تعالیٰ کے دیئے گئے اصول و اقدار کی محکمیت اسی طرح عالمگیر ہے جس طرح طبعیات ، نباتات یا ریاضی کے قوانین کی محکمیت ۔ جیسے کوئی شخص طبعیات کے قوانین کی خلاف ورزی کر کے نقصان اٹھاتا ہے اسی طرح قرآن مجید کے اصول و اقدار کی خلاف ورزی تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے۔اور سیکولرازم کے حامی جب مستقل اقدار حیات کے خلاف معاشرتی یا معیشتی رویہ اختیار کرتے ہیں تو سیکولرازم کے ڈانڈے شرک سےجاملتے ہیں جو کبھی معاف نہیں ہوتا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں سبط حسن صاحب نے ٹھوکر کھائی ہے۔ مغربی فلسفہ مدن میں سیکولر ازم ایک مخصوص معنی رکھتا ہے لیکن جب ہم یہ لفظ فلسفہ اقبال اور قائد اعظم کے تصورات یا نظر یہ پاکستان کے سلسلے میں استعمال کرتے ہیں تو اس کے معنی کچھ اور ہوجاتے ہیں۔ فلسفہ اقبال کی روسے ایک انسان انسانوں کا گروہ یا پورے کا پورا عالم انسانیت اقتدار اعلیٰ کا اس طرح مالک نہیں ہوسکتا کہ جو اس کے جی میں آئے کرتا چلا جائے کیونکہ اس کی آزادی او رپابندی کی حدود خدا تعالیٰ نے انبیاء کرام کی وساطت سے بذریعہ وحی مقرر کردی ہیں اقبال نے کہا تھا ۔
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزادی
انسان کے اعمال کی بنیاد ہمیشہ مفاد خویش پرہوتی ہے۔ کچھ چالاک لوگ اپنے اس قسم کے اعمال کو مبنی براخلاق مذہب یا روا ج کہہ دیتے ہیں اور آہستہ آہستہ یہی چیز معاشرے کے ضمیر کی آواز بن جاتی ہے۔ لیکن جس چیز کو ہم رواج یا معاشرے کاضمیر کہتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ درست بھی ہو۔ اسی لئے تجربہ ہوجانے پر باشعور عوام میں بعض رواجات معدوم ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ زیادہ درست اور صحت مندر سوم ورواج جاری ہوجاتے ہیں ۔ یعنی اعمال کی بنیاد ڈھونڈ نے کے لئے عقل اور تجربہ ہی انسان کی رہنمائی کرسکتا ہے۔لیکن ہمارے بعض اعمال و افعال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے نتیجہ خیز ہونے کےلئے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ بعض اوقات تو صدیاں گزرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے کافلاں عمل یا دستور غلط تھا ۔ اس لیے ایسے اعمال کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی انسان کی ہدایت فرمادی ہے۔ اس وحی پر یقین کرنے اور اسے اپنے اعمال کی بنیاد بنانے کا نام دین اسلام ہے کسی صورت میں بھی عقل و فکر سے متصادم نہیں ہوتا اور وحی ہدایت کو پس پشت ڈال کر صرف عقل و علم کو جو محدود ماحول میں محدود تجربہ سے حاصل ہوتاہے اپنے اعمال کی بنیاد بنانے کا نام سیکولرازم ہے۔ اسلام اسی سیکولرازم کے خلاف ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ فرض کیا کہ کسی قبیلہ میں دستور ہے کہ ہر فرد روزانہ ایک چاول کے برابر سنکھیا کھاتا ہے جس سے وہ اپنے اندر توانائی محسوس کرتا ہے ۔ اگر کوئی ماہر طبیب ان سےیہ کہے کہ تو روزانہ سنکھیا کھاناچھوڑ دو کیونکہ یہ تمہارے جسم میں اکھٹا ہورہا ہے اور جب اس کی ایک مخصوص مقدار تمہارے جسم میں اکٹھی ہوجائے گی تو ہلاکت آفریں ثابت ہوگی ۔لیکن قبیلے والے سنکھیے کے توانائی بخش اور خوشگوار اثرات محسوس کرتے ہیں اور دیکھنے میں بھی صحت مند توانا اور سرخ و سفید نظر آتے ہیں ۔ اور ان میں سے چند افراد جو سنکھیا نہیں کھاتے ان کے چہروں پر وہ رونق نظر نہیں آتی جو سنکھیا نوش چہروں پر دکھائی دیتی ہے۔ اگر قبیلہ والوں کو سنکھیے کی ہلاکت آفرینی کا پہلے سے کوئی تجربہ نہیں تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے محدود تجربے کی روشنی میں طبیب کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے سنکھیا کھانے کا عمل بدستور جاری رکھیں گے جو آخر کار ان کی ہلاکت کا سبب بن جائے گا۔
احکام وحی اس طبیب کے مشورہ کی طرح نہیں لیکن بعض اوقات انسان کا محدود علم اور تجربہ اسے احکام وحی کے خلاف عمل کرنے کی طرف راغب کرتا رہتا ہے اور وہ مستقبل کے مفاد کو قریبی اور فوری مفاد پر قربان کردیتا ہے۔
فلسفہ قرآن جسے ہم فلسفہ اقبال بھی کہتے ہیں کہ روسے انسان جسم اور نفس کا مجموعہ ہے نفس کو ہم انسانی ذات بھی کہتے ہیں ۔ وحی الہٰی کامقصد یہ ہے کہ انسان ایسی طرز زندگی اختیار کرے جس سے انسانی جسم اور ذات دونوں کی نشو و نما ہو۔ جس طرح انسانی جسم کی نشو و نما کے لئے کچھ قوانین ہیں اسی طرح انسانی ذات کی نشو ونما کے لئے بھی کچھ قوانین ہیں جنہیں مستقل اقدار حیات کہا جاتا ہے ۔ حفظان صحت اور تغذیہ کےاصولوں کی خلاف ورزی سے جس طرح انسانی جسم بیمار ہوجاتا ہے اسی طرح مستقل اقدار حیات کی خلاف ورزی سے انسانی ذات کی نشو ونما رک جاتی ہے اور وہ بیمار ہوکر اس قدر کمزور ہوجاتی ہے کہ زندگی کی اگلی منزل تک پہنچنا اس کے لئے دشوار ہوجاتا ہے۔ زندگی کی اگلی منزل یعنی حیات آخرت پر یقین رکھنا اسلام ہے اور اس سے انکار سیکولرازم اور سیکولرازم کے نظریہ حیات کے ماتحت زندگی گزرانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسرے حیوانوں کی طرح ایک حیوان تصور کر کے اپنی حیوانی زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت او رہمہ تن مصروف تگ و تاز رہتا ہے۔ مستقل اصول و اقدار اس کے لیے کچھ معنی نہیں رکھتیں ۔ اور صرف حیوانی تقاضوں کی تسکین خواہ کسی بھونڈے طریقے کے کی جائے اور خواہ عقل و فکر اور تد بر سے کی جائے سیکولر زندگی کہلائے گی۔
فلسفہ اقبال کے نزدیک سیکولرازم خداوحی انسانی ذات اور حیات آخرت پر یقین نہیں رکھتا یا زیادہ سے زیادہ اس کے متعلق یہ کہا جاسکتاہے کہ وہ ان کے متعلق اپنی لا علمی کا اظہار کرتا ہے لیکن دین خداوندی ان تمام پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ مستقل اصول و اقدار حیات پر بھی پورا پورا یقین رکھتا ہے جو انسانی ذات کی نشو و نما کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ملتے رہے ہیں اور جو اب قرآن مجید میں موجود ہیں لیکن سیکولرازم ان اقدار حیات کو درخوراعتنا نہیں سمجھتا ۔ انسانی جسم اور دنیاوی زندگی اور انسانی ذات کے متعلق قوانین میں آپس کاگہرا تعلق ہے اس لیے جو معاشرہ انسانی ذات اور آخرت کی زندگی بھی اگر کسی معاشرے کی زندگی خوش حال اور باعزت نہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس نے مستقل اصول و اقدار حیات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
گذشتہ بحث سے واضح ہوجاتا ہے کہ علامہ اقبال اسلام کو ایک ریاست سمجھتے تھے لہٰذا اسلام کے اخلاقی تصورات کو ریاست سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے او ر نہ ہی سیاست سےالگ کیا جا سکتا ہے ۔ اس نقطہ ٔ نگاہ سے اگر فلسفہ اقبال کو معیار بنایا جائے تو سیکولرازم کامطلب لاد ینیت ہوگا اور سیکولر ریاست کو لادین ریاست کہا جائے گا اور سیکولر قسم کی سیاست لادین سیاست ٹھہرے گی یعنی ایسی سیاست جو کسی ضابطہ اخلاق کی پابند نہ ہو بلکہ اس کے لیے ریاست کا مفاد ہی معیار اخلاق بن جائے۔ ظاہر ہے کہ سیاست کا یہ راستہ سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے جہاں بربریت کا راج ہوتا ہے ۔ ایسی سیاست کے متعلق اقبال نے کہا تھا ۔
جلال بادشا ہی ہوکہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
یہاں چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے یہ جو کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتےتھے اور اس سلسلہ میں ان کی 11 اگست کی تقریر کا حوالہ دیا جاتا ہے تو یہ بات اسلام کےمتعلق غلط فہمی پر مبنی ہے اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیتوں کو وہ تمام حقوق دینا جو مسلمانوں کو دیئے جاتےہیں عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ غیر مسلموں کو ان کے بنیادی حقوق دینے سے ایک اسلامی ریاست سیکولر نہیں ہوجاتی ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ علامہ اقبال اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں رائج اسلام قرآنی اسلام سے مختلف ہے کیونکہ خلفاء راشدہ کے بعد خلافت امیہ کے وقت ہی میں موضوع احادیث کا ملمع اسلام پر چڑھنا شروع ہوگیا تھا اور خلفائے عباسیہ کے وقت جب اسلام ایرانی آتشکدوں کا طواف کرتا ہوا اطراف عالم میں پھیلا تو اس کی صورت مسخ ہوچکی تھی اور جب وہ خیبر کےراستے ہندو سماج کی شمشان بھومی میں داخل ہوا تو اس کے رہے سہے جو ہر بھی خاکستر ہوگئے اسی طرح اسلام جس ملک میں بھی پہنچا وہ وہاں کے مقامی حالات او ررسم و رواج سے اتنا مثاثر ہوا کہ اس کی اصل شکل نظر سے غائب ہوگئی ۔ علامہ اقبال نے ترکی کے وزیر اعظم سعید حلیم پاشا کےحوالہ سے بتایا کہ جب تک اسلام کے مجلّا آئینے سے دوسری تہذیبوں اور دوسری اقوام کےمشرکانہ رسم ورواج کی تہہ کو کھرچ کھرچ کر صاف نہ کردیا جائے اسلام کی نشاۃ ثانیہ ممکن نہیں ۔ اس لیے یہ کہنا غلط ہے کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا منصوبہ پیش کرتے وقت ان کے سامنے ہندوستان کےمسلمانوں کی صرف اقتصادی اور معاشی نظر تھی۔ وہ دراصل ایک ایسی آزاد اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے جسے معمل بنا کر وہاں خالص قرآنی اصول و احکام کی حاکمیت کا تجربہ کیا جائے اور جس کے خوشگوار نتائج کو دیکھ کر باقی اسلامی دنیا بھی اس کی تقلید کر کے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی داغ بیل ڈال دے۔ ان کا قول فیصل ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہئے ۔
فروری، 2013 ماہنامہ صوت الحق، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/jinnah-iqbal-want-pakistan-be/d/10536