صابر بدر جعفری
23 اگست، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام )
مضمون, کیا نئی فقہ ممکن ؟ میں جو (جولائی 12) کو اسی سائٹ پر شائع ہو تھا ، احمد رضا نے اسلامی فقہ کے ضعیف نصوص کا تذکرہ کیا تھا ۔
چونکہ فقہ قرآن و سنت پر مبنی ہے (اجماع اور قیاس قرآن و سنت کے تابع ثانوی ذرائع ہیں)، ایک نئی فقہ کی خواہش کرنا ، خدا نہ کرے، ایک نئی 'قرآن' اور 'سنت' کو تالیف کرنے کے مترادف ہو گا ۔
لہذا، ضرورت فقہ کی تجدید اور اسے تقویت فراہم کرنے کی ہے، جسے کہ محض کے ذریعے ہی انجام دیا جا سکتا ہے ۔
وہ لوگ جو اسلامی تعلیمات سے آگاہ نہیں ہیں اور جنہیں فقہ اسلامی کا کوئی بنیادی علم حاصل نہیں ہے جو کہ ہو سکتا ہے کہ بصورت دیگر اعلی تعلیم یافتہ ہوں ، وہ اجتہاد کے تعلق سے مجموعی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ ہر "تصوراتی انتشار اور تفکر پسند اضطراب کو " اجتہاد کا نام دے دیتے ہیں اور چالاکی کے ساتھ اسےاسلامی کا نام دے دیتے ۔ اس ذہنیت کے تحت جانفشانی کرتے ہوئے وہ فتوے جاری کرتے ہیں کہ اجتہاد کو جاری رکھا جانا چاہئے ۔
اجتہاد کا جاری رہنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے جو اجتہاد کی پیچیدگیوں کا شعور کئے بغیر یہ سوچتا ہے کہ اسے جاری ہنا چاہئے ۔ اس خود ساختہ فلسفہ سے دوچار لوگ یا تو خود اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ جو وہ سوچتے ہیں وہ اجتہاد ہے یا ہر سرکش تصور کو اجتہاد کا نام دے دیتے ہیں۔
دوسری طرف ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ نہیں چاہتے اس کنگورہ کو کسی اور کے ذریعہ ناپا جائے ۔ ان دونوں انتہا پسند خیالات سے شاید ہی کچھ حاصل ہو تا ہو۔
اجتہاد کے بارے میں سچ یہ ہے کہ یہ نصوص پر انجام نہیں دیا جا سکتا ، یعنی ان معاملات پر جس پر خاص سنت اور قرآن کے واضح احکامات موجود ہیں۔ نصوص کے علاوہ دوسرے معاملات پر اجتہاد کو مسلسل جاری رکھنا چاہئے۔
اس جدید دور میں جب کہ زندگی کے تمام شعبوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں اور تبدیلیوں میں ایک تسلسل قائم ہے ، اسلامی فقہ کی موجودہ گنجائش تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے میں نا کام ہے ۔ لہذا اجتہاد کی ضرورت اور زیادہ شدید ہو گئی ہے۔
انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں سے متعلق، اقتصادی، سیاسی، تجارتی، اور سماجی مسائل کو معلومات کہا جاتا ہے اور اسے اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اسلامی قوانین سے اس کا احاطہ کیا جا نا ضروری ہے جو کہ صرف اجتہاد کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ اسلامی اصول اور اخلاقیات بھی اب تک ایسے پہلو ہیں جنہیں اجتہاد نشانہ بنایا جا نا چاہئے ۔
مضمون نگار نے یہ سوال کیا ہے کہ: "فقہ کی تشریح کون کر سکتا ہے - کسی روایتی مدرسہ کا کوئی مفتی، ایک نامزد کونسل یا عوام کے منتخب نمائندے " حقیقت یہ ہے کہ کام اس کی تشریح کا نہیں ہے ۔ یہ اسی کے پہلو میں تہہ ہونے تک وسیع ہے (مطابقت)، طلب و جستجو (ترغیب اور تحقیق، اور قرآن و سنت کے تابع کے ساتھ اس کی تصدیق و تائید کی کوشش اور جدوجہد)، اور اتباع ۔ یہ تمام تصورات اجتہاد کی اصطلاح کو جنم دیتے ہیں اور یہ ایک مجتہدکا کام ہے نہ کہ کسی نام نہاد مفتی کا ۔
اجتہاد کے کچھ اجزاء ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔ اب میں اس کا فیصلہ قاری پر چھوڑتا ہوں کہ کو ن ان بنیادی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے قابل ہے ۔
معروف فقہاء نے ان کے اپنے انداز میں اجتہاد کی مختلف تعریفیں کی ہیں ۔ تاہم تمام تعریفیں اجتہاد کے درج ذیل بنیادی اجزاء کو شامل ہیں۔
مجتہد یعنی اجتہاد کرنے والا شخص: ایک مجتہد کے لئے اجتہاد کی اہلیت کے شرائط صلبی (اس کی شخصیت کی لازمی خصلت)، اور اکتسابی (حاصل کئے گئے علم) کو شامل ہیں۔ سابق کے مطابق وہ مسلم بالغ، عقل مند ، ذہین، اور زیر غور معاملات کے اندر گہرائی میں جانے کے قابل ہونا چاہئے۔
حاصل شدہ علم کے حوالے سے اسے عربی اور دوسری زبانوں میں انتہائی ماہر ہونا چاہئے۔ اسے اصل ذرائع سے رجوع کرنے کے قابل ہونا چاہئے اور اس کے پاس گہرائی کے ساتھ قرآن مجید کی تعلیمات کا علم اور اسلامی فقہ کا وسیع تر اور کامل علم اور دیگر مذاہب کے ساتھ منسلک الہی احکام اور قابل عمل علم ہونا چاہئے ۔
ہو سکتا ہے کہ ایک مجتہد کسی ایک فقہی مذہب میں ماہر ہو لیکن اسے دیگر فقہی مذاہب کے بارے میں بھی رسمی علم ہو نا چاہئے ۔ اسے اجماع کے نتائج سے بھی پوری طرح واقف ہونا چاہئے۔ اور آخر میں، شریعت کا مقصد اسے اچھی طرح معلوم ہونا چاہئے، اور اس کی کوشش اس مقصد کے مطابق ہونی چاہئے۔
اس ایک شخص کی طرح جو موتیوں کی تلاش میں سمندر کی گہرائی میں غوطہ لگانے کے لئے تیار ہے اسے کامل غوطہ خور ہونا اور مطلوبہ مہارت میں مکمل طور پر ماہر ہونا چاہئے تاکہ وہ کنکریوں کی جگہ موتی اور موتیوں کی جگہ کنکریاں نہ حاصل کر لے ۔
قیاس یا زیر غور مسئلہ: ایسا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے کہ قرآن یا سنت میں اس کی کوئی واضح رہنمائی موجود نہ ہو ۔ وہ مسائل جن پر قرآن و سنت میں بلکل واضح انداز میں تبادلہ خیال کیا گیا ہے انہیں نصوص کہا جا تاہے اور انہیں اجتہاد کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا ۔
شرعی دلائل (شریعت کے لئے قابل قبول دلائل ): نقلی بھی ہو سکتے ہیں (جو کہ براہ راست قرآن و سنت سے اخذ کئے گئے ہوں ) اور عقلی بھی ہو سکتے ہیں جو (اجماع قیاس یا استحسان ) پر مبنی ہوں ۔
ظاہر ہے، جو روایتی مدارس کے ذریعہ تیار کیا جاتا وہ اس سطح کا نہیں ہوتا ۔ اور اکثر جو لوگ اس طرح کے اداروں سے وابستہ ہیں وہ نہ ہی اس سے مختلف تصور کرسکتے ہیں اور نہ ہی قبول کر سکتے ہیں جو اس موضوع پر ان کے دماغ میں ‘آخری لفظ’ کے طور پر بیٹھا دیا گیا ہے ۔
ان لوگوں نے کسی بھی جوہر سے خالی اپنی تقریروں اور اپنی موجودگی کے ساتھ، بڑے پیمانے پر اسلام کا ایک انتہائی مسخ شدہ پیغام دنیا کو دیا ہے۔ یہ لوگ کسی بھی سنگین یا جدید ترین ذمہ داری کو نبھانے کے قابل نہیں ہیں ۔ لہذا، میں انتہائی عاجزی کے ساتھ یہ مشورہ پیش کروں گا کہ وہ جدید علماء جو تحقیق کے اس مشکل کام کو سنبھالنے کی خواہش رکھتے ہیں اور سچائی کا انکشاف کرنے کے جذبہ کے حامل ہیں وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں قدم آگے بڑھانا چاہئے اور اجتہاد کا مشکل ترین بیڑا اٹھانا چاہئے ۔
مسلمانوں کی آنے والی نسلیں دل کی گہرائیوں سے ان کی احسان مند ہوں گی ۔
صابر بدر جعفری ایک آزاد کالم نگار ہیں۔
ماخذ: http://dawn.com/news/1037780/rejuvenation-of-fiqh
URL for English article
https://newageislam.com/islamic-ideology/rejuvenation-fiqh/d/13197
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/rejuvenation-fiqh-/d/13211