New Age Islam
Thu Jan 23 2025, 12:47 AM

Urdu Section ( 4 Jun 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is Saudi Arab Just A Country? کیا سعودی عرب صرف ایک ملک ہے؟

   

سعد اللہ جان برق

2 جون ، 2015

ہم چونکہ کچھ زیادہ دانا بینا اور ہوشیار سمجھدار نہیں ہیں بلکہ کم یا زیادہ کیا تھوڑے بہت بھی نہیں ہیں اور یہ کوئی خاص بات بھی نہیں ہے، اکثر گھروں کے کچھ افراد ہوشیار سمجھدار اور دانا دانشور ہوتےہیں لیکن کچھ ہماری طرح بھولے بھالے اور اللہ لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو گھروں کے بڑے بڑے معاملات میں دخل در معقولات نہیں کرنے دیا جاتا، ان کا کام صرف بڑوں کی بات ماننا سود اسلف لانا ، ہٹی بھٹنا کرنا اور ادھر ادھر کے رسل و رسائل تک محدود رکھا جاتا ہے، صحافت کوبھی ایک ایسا ہی گھر سمجھ لیجئے جس میں دانا بینا پڑھے لکھے اور سب کچھ شناس کے ساتھ ساتھ ہمارے جیسے ایویں کالم نگار بھی پائے جاتےہیں ، اسی لیے ہم اکثر خود کو چھوٹے چھوٹے معاملات تک محدود رکھتے ہیں جیسے سبزی ترکاری   کے بھاؤ کا پتہ ہونا، گاؤں محلے میں شادی غمی یا لڑائی تکرار کی خبر رکھنا ، چھوٹی موٹی لڑائیوں کی خبریں سنانا اور تبصرے کرنا یا رشتوں ناطوں ( جائز و ناجائز) پر ادھر ادھر کی ہانکنا،اس لیے جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوتاہے ہم کونے میں بیٹھ کر بڑوں کی طرف کان لگا دیتے ہیں اور کچھ نہ کچھ باخبری حاصل کرلیتےہیں جسے بعد میں باہر جاکر اپنے حلقہ ہائے اثر میں سنا کر داد حاصل کرتےہیں، چنانچہ پچھلے کچھ عرصہ سے یہ جو سعو دی عرب کے ارد گرد کھٹ پٹ ہورہی ہے اس کےبارےمیں انتظار کرتے رہے کہ کچھ کام کی بات پلے پڑ جائے گی نہ صرف کالم نگاروں کے کالم، تجزیہ نگاروں کے تجزیئے اور ماہرین کے ماہر پڑھتے رہےبلکہ وہ جو دیکھنے کی چیز ہے اور بار بار دیکھی جاتی ہے جوبیک وقت ٹوان ون یعنی ۔

موج خرام ساقی و ذوق صدائے چنگ

بہ جنت نگاہ وہ فردوسی گوش ہے

امید ہے کہ آپ جان گئے ہوں کہ جس سے فیض یاب و لذت یا ب ہونے کے لیے کانوں اور آنکھوں دونوں کی ضرورت ہوتی ہے جہاں دنیا بلکہ عالم کے چنے ہوئے ‘‘ دانے ’’ کھل کر دانائیاں بکھیرتے ہیں ، ایسی دانائیا ں کہ وہ کہے اور سنا کرے کوئی ، جس کےبارے میں مرشد نے کہا ہے کہ ۔

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشہ بساط

دامان باغبان و کف گل فروش ہے

مطلب یہ کہ ہر جگہ دیکھا، ہر کہیں جھانکا ، ادھر ادھر کی بے فضول باتیں توبہت ہوئیں لیکن کام کی بات کہیں بھی سننے میں نہیں آئی نہ ہی دیکھنے کو ملی، ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں اب ہمیں ہی کچھ نہ کچھ تو بولنا ہی ہوگا کیونکہ یہ معاملہ جتنا سیدھا نظر آتا ہے یا جتنا سادہ دکھایا جاتا ہے، یہ اس سے کہیں زیادہ سیریس اور سنجیدہ ہے بظاہر تو لگتاہے جیسے سعودی عرب ایک ملک ہے جس کےبارے میں ہمارے ہاں اکثر اختلاف رائے پایا جاتاہے بلکہ زیادہ لوگ دبی زبان ہی سے سہی اس کے خلاف بولتے ہوئے پائے جاتے ہیں، اس انداز میں کہ

منہ سےہم آپ براتو نہیں کہتے کہ فراق

ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں ہے

لیکن یہاں بات صرف ‘‘آدمی ’’ تک محدود نہیں رہی بلکہ جب سے مساجد میں دھماکے ہونے لگے ہیں ، بات درحقیقت سوچنے والی ہوگئی بلکہ بہت زیادہ اور بہت دور تک سوچنے والی ہوگئی ہے، مساجد میں دھماکے اپنے یہاں بھی ہوتے رہتے ہیں کیونکہ کچھ لوگ خدا سے بھی زیادہ آگے نکل کر بندوں کو سیدھا کرنا چاہتے ہیں ، لیکن سعودی عرب میں مساجد جنہیں خدا کا گھر کہا جاتاہے میں اس قسم کی چیزوں کی ابتداء ہونا نہایت ہی گہری سوچنے والی بات ہے کیونکہ وہاں پر تو خدا کا وہ گھر بھی ہے جس کے بارے میں ایسا کچھ سوچ کر بھی جھر جھری آجاتی ہے اور یہ ضمانت کون دے سکتا ہے کہ خدا کے چھوٹے گھر میں خیر ہے لیکن بڑے گھر میں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ یہ دنیا نہایت ہی بھیانک اور تلخ ‘‘ممکنات’’ کی دنیا ہے، ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہواتھا   اور دنیا میں ابھی ایسے ہزاروں کام ہیں جو ‘‘پہلی بار’’ ہوسکتے ہیں ، آپ سے کیا پردہ وہ اپنی تمام تر رجائیت اور خوش فہمیوں کے باوجود ہمارے پورے جسم بلکہ روح تک پر لرزہ طاری ہوجاتاہے کہ خدانخواستہ ۔۔۔۔۔ہونے کو کیا نہیں ہوسکتا کسی نے کبھی سوچا تھا کہ افغانستان پر امریکہ حکومت کرے گا یا عراق میں تمام مقدسات اس طرح گرجائیں گی یا اتنا سا اسرائیل اتنےسارے مسلمانوں سے کان پکڑوائے گا اور ناک رگڑوائے گا، ہمارے خیال میں تو تمام تر سیاستوں مصلحتوں ، منافقتوں اور مفادات کی ایک حد ہونی چاہئے، لالچ بزدلی اور سوکال ‘‘عقلمندی ’’ کی بھی کوئی انتہا ہونی چاہئے اور انسان کی ایک دن وہ مقام بھی آجاتا ہے جہاں سب کچھ حتیٰ کہ اپنی جان تک پس پشت چلی جاتی ہے اور اسے ایک قطعی فیصلہ کرنا ہوتاہے، نفع و نقصان پر دھیان دیئےبغیر ایسا نہ ہوجائے یا ویسا نہ ہوجائے ۔۔۔۔سوچے بغیر ، ہماری پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ۔

دولت زار شہ دسرنہ

اوسر زار د عزت نہ

یعنی دولت قربان ہوجائے سر پر ، اور سرقربان ہوجائے عزت پر، ہمیں الفاظ نہیں مل رہے کیونکہ الفاظ کے لیے پہلے تصور کرنا لازم ہوتاہے لیکن یہ تصور ہی اتنا سوہان روح اور جان لیوا ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کیا آپ کسی دن کسی ایسی خبر سننے کے لیے تیار ہیں جس کے بعد کسی بھی خبر کی خبر نہیں رہ جاتی کیونکہ اگر کوئی خبر کے بعد بھی زندہ رہے تو اس سے بڑا بے شرم اور بے درد کون ہوگا حالانکہ ہوتےہیں دنیا میں ایسےبھی ۔

ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں

ہم سا بے درد کوئی کیا ہوگا

اس سے زیادہ ہم کہہ بھی نہیں سکتے اور تصور بھی نہیں کرسکتے لیکن اس سے پیشتر تو سوچ سکتے ہیں کرسکتے ہیں یا کم از کم کرنے کی کوشش تو کرسکتے ہیں کہ بہت دیر ہوجائے نہ تو گزر ا ہوا پانی واپس آتا ہے او رنہ رونے سے کبھی مردہ زندہ ہوتےہیں ۔

خیرے کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر

زاں پیش تر کہ بانگ بر آئد فلاں غاند

اب کیا کرنا ہے، کیا ہونا چاہئے، یہ ہمارے جی سیعام لوگوں کاکام نہیں بلکہ ان کا ہے جو بڑے بڑے دعوے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جو خود کو خود ہی ذمہ دار بنا کر ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے ہیں، ہمیں نہ سعودی حکومت سے کوئی سروکار ہے نہ کسی طرز حکومت سےلینا دینا ہے نہ سیاسی مفادات اور مفاداتی سیاست جانتےہیں اگر جانتے ہیں تو صرف اتنا کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں ہے، اس مسلم دنیا اور پھر خاص طور پر اسلام کے سب سےبڑے مدعی پاکستان اور اس کے بڑے بڑے باتدبیر وں کو کیا کرنا چاہئے یہ ہمیں نہیں معلوم بھلے ہی سیاسی سطح پر سعودی عرب کی مدد کریں یا نہ کریں لیکن وہاں ہمارے ‘‘ جو دل ’’ ہیں ان کو بچانے کا اپائے تو کرنا ضروری ہے اور یہ بالکل بکواس ہے کہ ایسا ہوگا یا نہیں ہوگا اگر نہیں ہوا تو شکر ہے لیکن اگر ہوا تو ۔۔۔ کیونکہ نہ ہونے کی ضمانت تو کسی کے پاس بھی نہیں ہے اگر محبوب مرجائے تو پھر کب کیوں کب کیسے سے کیا فائدہ ۔۔۔۔ کوئی ہمیں بالکل بھی دانا و بینانہ سمجھے لیکن بات کو تو سمجھے ۔

2 جون ، 2015 بشکریہ : روز نامہ ایکسپریس ، پاکستان

URL: https://newageislam.com/urdu-section/is-saudi-arab-just-country/d/103318

 

Loading..

Loading..