ایس مبشر نور ، نیو ایج اسلام
02 جنوری 2018
اسرائیل کا مذہبی و تاریخی دعویٰ متعدد وجوہات کی بنا پر پریشان کن ہے۔ ایک واضح مسئلہ وسیع پیمانے پر یہ تسلیم شدہ مقولہ ہے کہ جغرافیائی سرحدیں انسانوں کی بنائی ہوئی ہیں۔ خاص طور پر مشرق وسطی حکومتوں کی توسیع کے لئے ایک شاہراہ کی حیثیت سے گزشتہ چند صدیوں کے درمیان متعدد دفعہ حکومتوں کی پھیر بدل کا شکا ہو چکا ہے۔
لہذا اگر اسرائیل تاریخی حقوق کی فوقیت کا سہارا لینا چاہتا ہے تو پھر یروشلم کے صحیح حقدار لبنانی ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں امریکی جرنل برائے انسانی جینیاتی مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید لبنان قدیم کنعانیوں کی براہ راست اولاد ہیں جنہوں نے سب سے پہلے فلسطین کو اپنا وطن بنایا تھا۔ بعد میں ان پر اسرائیلیوں نے فتح حاصل کی تھی جیسا کہ عہد نامہ میں اس کا ذکر ہے۔
اسرائیل کے لئے امریکی سفارت خانہ کو یروشلیم منتقل کرنے کے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے حالیہ فیصلے سے اسلامی دنیا میں احتجاجی مظاہروں کا ایک تسلسل شروع ہو چکا ہے۔ اب اس عنوان پر بھی بحث و مباحثے کا دور دوبارہ شروع ہو چکا ہے کہ مابعد ویسٹفالیہ کے دور میں کس طرح مذہبی و تاریخی دعوں کا تعین کیا جانا چاہئے جبکہ چرچ اور ریاست کی علیحدگی مطلقاً واقع ہونے والی ہے۔
اسرائیل کے دعوی کے ساتھ میرا مسئلہ دو جہتی ہے۔ اولاً، اصولی طور پر اگر ہم یروشلم کے بارے میں صیہونی مذہبی و تاریخی دلیل کو تسلیم کر لیں تو کیا اس سے داعش اور ہندوستان کے راشٹریہ سیوا سنگھ جیسے انتہا پسند فرقوں کے تاریخی انتقامی نظریہ کا جواز نہیں پیدا ہوتا؟ داعش کا مقصد آخر کار خلافت ہی کو بحال کرنا ہے جو کہ صدیوں سنی اسلام کی مشعل راہ رہ چکی ہے، جبکہ آر ایس ایس ہندوستان سے تمام "غیر ملکی مذاہب" کو ختم کرنے کے لئے "ہندوتوا" کی علم برداری کر رہی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ داعش نے مشرق وسطی کے اندر ایک مسخ شدہ اسلام کے قیام میں ہزاروں افراد کو قتل کیا ہے اور ہندوستان میں قدامت پرست ہندو مسلمانوں اور عیسائیوں کو پوری بےباکی کے ساتھ زبردستی ہندوبنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ تاریخ کے ایک مخصوص دور کو بحال کرنے کے لئے ہر کسی کا یقین ہے کہ وہ اپنے نظریات کے سنہرے دور کی نمائندگی کرتا ہے۔
واشنگٹن کی نظروں میں وہ کیوں غنڈے اور یہودی مظلوم ہیں۔ امریکی-اسرائیلی کوآپریٹو انٹرپرائز کے قدامت پسند تخمینوں کے مطابق 1920 کے فسادات کے بعد سے اب تک 1 لاکھ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اور اس کے مقابلے میں یہودیوں کی ہلاکت کی تعداد اسی مدت کے دوران ایک تہائی سے بھی کم ہے۔ اس اعداد و شمار سے کسی کمزور نہیں بلکہ ایک زبردست قابض طاقت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔
اسرائیلی دعوی کے ساتھ میرا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہم اصولی طور پر یروشلم کے بارے میں صیہونی مذہبی و تاریخی دلیل کو قبول کرلیتے ہیں تو یقینا مذہبی معاملات پر حتمی رائے رکھنے والے آرتھوڈوکس یہودی مذہبی رہنما بغیر کسی تحفظ کے ہمیشہ اسرائیل کے دعوے کی حمایت کرتے؟
جبکہ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ آزادی کے بعد سے ہی صیہونی حکومت پادریوں کے اندر اسرائیل مخالف تحریکوں کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل رہی ہے۔ ان کوششوں میں خاص طور پر "ستمار حسيديم" کے پیروکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو یہودیوں کا ایک ایسا فرق ہے جو قیام اسرائیل کی مذمت کرتا ہے۔ ان میں سے " ناطوری كارتا" مذہبی گروہ صیہونی ریاست کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہے اور اسے تورات کی تعلیمات اور تلمودی قوانین کی تضحیک قرار دیتا رہا ہے ۔
دراصل ناطوری كارتا کی ویب سائٹ یہ بتاتی ہے کہ "دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صیہونیوں نے اسرائیل کے نام پر غیر قانونی طریقے سے قبضہ کر لیا ہے اور انہیں یہودیوں کی نمائندگی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے!" لیکن کیوں کسی بھی یہودی مذہبی جماعت کو اسرائیل کے وجود کی مخالفت کرنی چاہئے جو کہ ان کے لیے"موعود زمین" ہے؟ واضح طور پر یہودیوں کے سیاسی رہنما کب غیر قانونی علاقائی توسیع اور فلسطین پر اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کی خلاف ورزی کے لئے مذہب کا استعمال کرتے ہیں ؟
2013 کے ایک انٹرویو میں ناطوری كارتا کے ایک سینئر رہنما ربی موشیہ ہيرش نے وضاحت پیش کی تھی کہ کیوں"حقیقی یہودی" اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے: "ایمان کا ایک اصول ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ خدا اپنے مسیحا کے ذریعہ اس کے اچھے دور میں قوم یہود کو اس کی زمین واپس کرے گا۔ اس مہلت میں ذرہ برابر بھی زیادتی کی کوئی کوشش تباہ کن نتائج کی حامل ہو گی۔"
ہيرش نے کہا کہ ‘‘لہذا اسرائیل کوئی یہودی ریاست نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسی ریاست ہے جسے یہودی چلاتے ہیں۔ اور اس کی مثال ایسی کسی کمپنی کی طرح ہے جسے یہودی چلاتے ہیں لیکن اس کی پیداوار یہودی نہیں ہے۔" لہٰذا نتیجۃً، فلسطین میں عرب زمین پر غیر قانونی قبضے کے جواز میں صہیونی حکومت کا تورات اور تلمود کو استعمال کرنا مضحکہ خیز ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صیہونی ناطوری كارتا اور دیگر ناقدین پر ہمیشہ الزامات لگاتے رہتے ہیں ، اور انہیں ایک ایسی قدامت پسند اقلیت قرار دیتے ہیں جو یہودی دورِ انتشار کی حصولیابیوں کو ضائع کرنے لئے پر عزم اور نازی ہمدرد ہے۔
اس کے باوجود، صیہونی اسرائیل کی تخلیق کی خبروں کو سننے کے بعد 1947 میں یہودیوں کے مذہبی علماء کی وسیع تر مخالفت کو شکست نہیں دے سکتے۔ اس وقت کے یہودی مذہبی رہنماؤں کے صدر یوسف دوشنسکی نے فلسطین پر اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی کے لئے اپنی تحریری گواہی میں واضح طور پر یہ لکھا تھا کہ "ہم فلسطین کے کسی بھی حصے میں یہودی ریاست کی واضح طور پر مخالفت کا مزید اظہار کرنا چاہتے ہیں۔"
ربي دوشنسکی نے اپنے ان الفاظ کے ساتھ اس بات کی مزید وضاحت کی کہ کیوں یہودی علماء قیام اسرائیل کی مخالفت کرتے ہیں۔ ‘‘سب سے پہلے [برطانوی حکم سے] صیہونیت کے رہنماؤں اور پھر یہودی ایجنسی کو یہودیوں کی سرکاری نمائندگی تسلیم کر کے ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا گیا تھا۔"
دوم، "بادشاہ سلیمان کے زمانے سے ہمارے زمانے تک مقدس زمین یا تو شرق اردن کے ساتھ متحد تھی یا شام یا ترکی سے منسلک تھی۔ مغربی فلسطین کبھی بھی ایک واحد اور آزاد وجود کی حیثیت سے موجود نہیں تھا اور یقیناً اس کا ایک حصہ ممکنہ طور پر ایک آزاد ریاست نہیں بن سکتا"۔آخری بات یہ ہے کہ،"[اسرائیل سے] ہماری مخالفت کا بنیادی سبب یہ ہے کہ موجودہ حالات میں یہودی باشندوں کی سرکاری طور پر تسلیم شدہ نمائندگی یہودیوں کے عوامی معاملات میں مقدس قانونی بالادستی کو واجب التعمیل نہیں مانتی ہے۔ جس کے مطابق ایک یہودی ریاست کی تخلیق خدا کی مرضی کے برعکس ہے۔ "
یروشلم کے معاملے پر دوشنسکی کا موقف ہے کہ "یروشلیم کو کسی بھی ریاست میں شامل نہ کیا جائے اور اسے کوئی علیحدہ حصہ بھی نہ بنایا جائے۔ یروشلیم کے باشندوں پر مقدس شہر کی شہریت کے علاوہ کسی بھی ریاست کی شہریت کو مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس شہر کو ایک آزاد بین الاقوامی شہر قرار دیا جانا چاہئے۔ "اور اقوام متحدہ نے قرارداد 194 کے ذریعہ 1948ء میں اسی منصوبے کا اعلان کیا جسے صیہونیوں نے مسلسل نظر انداز کیا ہے۔
اسرائیل کی خودمختاری کی بطن سے پیدا ہونے والے یہودی بمقابلہ عرب موت کا کھیل دوسری عالمی جنگ میں نازی قتل عام کے بعد بے جا غم و غصے کی ایک شاندار نمونہ معلوم ہوتا ہے جو کہ ٹرمپ کے ذریعہ یکطرفہ طور پر یروشلیم کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کئے جانے کے بعد مزید مہلک شکل اختیار کر چکا ہے۔ جیسا کہ سعودی شاہ عبدالعزیز نے 1945 میں امریکہ کے صدر ایف ڈی روزویلٹ سے کہا تھا کہ "یہودیوں کو اپنا وطن جرمنی کی سب سے بہتر سر زمین پر قائم کرنے دیا جائے نہ کہ عرب کے علاقے پر کہ جن کا اس سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہے جو ان کے ساتھ پیش آ چکا ہے۔"
ایس مبشر نور اسلام آباد کے ایک فری لانس صحافی ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/citing-history-legitimize-israel/d/113786
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism