New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 11:14 AM

Urdu Section ( 2 Jul 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Why Is Corruption Rampant In Religious Societies? مذہبی معاشروں میں بد عنوانی زیادہ کیوں؟


سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

ہندوستان اور پاکستان کا معاشرہ حد سے زیادہ مذہبی ہے۔ ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت ہے جب کہ پاکستان میں مسلم اکثریت میں ہیں۔ دونوں ممالک کے افرادبہت زیادہ مذہبی ہیں  اور اسی لئے دونوں ہی ممالک میں مذہب تشدد اور تصادم کی وجہ بنتاہے۔دونوں ممالک میں  اکثریتی طبقہ کے ذریعہ اقلیتی طبقہ کو ہراساں کئے جانے اور ان پر ظلم و ستم کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ان دونوں ممالک میں مذہبی طرز فکر فسائنسی طرز فکر پر حاوی ہے اور اس کا مشاہدہ کورونا وباء اور لاک ڈاؤن کے دوران دونوں میں ملکوں میں کیاگیا جب مذہبی عقیدہ  اور آستھا کی بنا پر کورونا سے لڑنے کو ترجیح دی گئی اور سائنسی طرز عمل  اور ڈاکٹری ہدایات کو درکنا کردیاگیا۔ لاک ڈاؤن کے باوجود دونوں ملکو ں میں قانونی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مذہبی اور دھارمک اجتماعات منعقد ہوئے  اور نتیجے میں دونوں ملکوں میں کورونا بھیانک صورت حال اختیار کرچکاہے۔

لیکن یہ بات باعث فکرمندی اور تحقیق طلب ہے کہ انتہائی مذہبی معاشرہ ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے افراد میں  بدعنوانی اتنی زیادہ کیوں ہے جبکہ مذہب چاہے اسلام ہو یا ہندو مذہب بدعنوانی، بے ایمانی  اور لو ٹ کھسوٹ کی تعلیم نہیں دیتابلکہ انہیں بہت بڑی برائی تصور کرتا۔ حرص وہوس، خود غرضی اور اپنے مالی فائدے کی فکر بدعنوانی کو فروغ دیتی ہے  اور یہ برائیاں ہندوستان اور پاکستان کے عوام میں شرمناک حد تک بڑھی ہوئی ہیں۔ اور یہ بدعنوانی لاک ڈاؤن کے دوران اور بھی زیادہ نمایاں طور پر مشاہدے میں آئی جب  ایک انسان کو دوسرے کی تکلیف، پریشانیوں اور مصیتوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے تھا ا س وقت لوگ اپنے فائدے کے لئے دوسروؓں کو لوٹ رہے ہیں اور پریشانی میں ڈال رہے ہیں۔

دراصل، یہ باتیں اس لیے سامنے آئی ہیں کہ پاکستان کی ایک کالم نگار نے لکھا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران پاکستان کے تاجر حضرات چیزوں کے دام بڑھاکر لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔ 70 روپئے کی دوا  220  روپئے میں بیچ رہے ہیں۔ڈیٹول اور دیگر معمولی دواءٰیں میں بھی آؤٹ آف اسٹاک ہیں۔ اس سے قبل پاکستان میں چینی گھپلہ سامنے آچکاہے جس میں بڑے بڑے تاجر اور برسراقتدار پارٹی کے کچھ لیڈران ملوث ہیں۔ پٹرول کی بھی زخیرہ اندوزی  کی وجہ سے صارفین کو شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے اور یہ سب  لاک ڈاؤن کے دوران زیادہ سے زیادہ روپئے کمانے کے منفی جذبے کی وجہ سے ہورہاہے۔اور حکومت ان تاجروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کچھ نہیں کرپارہی ہے کیونکہ خود اس کے لیدران اس بدعنوانی میں ملوث ہیں۔

ایک پاکستانی خاتون نے ایک پاکستانی صحافی کو ای میل سے خط لکھا ہے اور بجلی کے بڑھتے ہوئے بلوں پر اپنی پریشانیوں کا ذکر کیاہے۔ اس نے لکھا ہے کہ جب سے بجلی کے نئے میٹر لگائے گئے ہیں  تب سے بجلی کے بل میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیاہے۔ نئے میٹر بہت تیزی سے چلتے ہیں  جس کی وجہ سے  جہاں پہلے سات سو یونٹ بجلی خرچ ہوتی تھی وہیں اب گیارہ سو یونٹ بجلی خرچ ہوتی ہے۔ اس لئے میں خرچ کم کرنے کے لئے اپنا ڈیپ فریزر بند کردیا ہے۔ پھر بھی کوئی زیادہ راحت نہیں ہے۔ اس نے سوال کیاہے کہ کیا بجلی کے بل بڑھا کر حکومت  عوام کو بجلی چوری کرنے کی ہمت افزائی نہیں کررہی ہے۔ اس نے یہ بھی لکھاہے کہ ایک طرف  ایوان کے ارکان کو موٹی تنحواہ ملتی ہے اور اس پر سے ساری سہولیات مفت ملتی ہیں اور دوسری طرف حکومت عوام پر سارا بوجھ ڈال کر انہیں مصیبت مٰیں ڈال دیتی ہے اور اسے عوام کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔پاکستانی عوام میں بے تحاشہ بدعنوانی کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے اور پاکستان کی اکثریت مسلم ہے اور قرآن اور حدیث کی ہدایات پر زندگی گزارنے کا دعوی کرتی ہے  اور قرآن اور حدیث میں ذخیرہ اندوزی کرنے، بدعنوانی کرنے اور ملاوٹ کرنے والے رشوت لینے اور دینے والے کو جہنم کی بشارت دی گئی ہے۔

دوسری طرف ایک دوسری کالم نگار نے پاکستان میں جعلی دودھ، مکھن اور دیگر خوردنی اشیاء کی کھلے عام تیاری اور خرید و فروخت کا ذکر کیاہے۔ حکومت کو اس کا علم ہے مگر وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کرتی۔

یہی حال ہندو اکثریت والے ملک ہندوستان میں بھی ہے۔ یہاں بھی جعلی دودھ اور دیگر خوردنی اشیاء میں ملاوٹ ایک عام بات ہے ۔ کچھ ماہ قبل اترپردیش میں ھکومت نے کئی تاجروں کے یہاں چھاپے مار کر جعلی دودھ اور اشیاء برآمد کی مگر اس کے بعد کوئی خبر نہیں آئی کہ کیاہوا۔ غالبا معاملے کو نپٹالیاگیا۔

ہندوستان میں بھی بجلی کے اونچے بل سے عوام پریشان رہتے ہیں۔ چند برس قبل نئے بجلی کے میٹر لگائے گئے جس کے بعد سے بجلی کے بلوں میں کافی اضافہ ہوا۔ لوگ اونچے بجلی کے بلوں کی وجہ دے ذہنی اور مالی طور پر پریشان رہتے ہیں۔ اور کبھی کبھی خودکشی کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ایک دن قبل مرادآباد کے قادر نام کے ایک شخص نے بجلی کے غلط بل اور بجلی محکمے کے افسران کی سردمہری سے تنگ آکر چاقو سے اپنا گلا کاٹ لیا۔ وہ ابھی ہسپتال میں تشویشنا ک حالت میں ہے۔

دونوں ممالک میں عوام بدعنوانی سے پریشان ہیں جبکہ دونوں ہی ممالک کے عوام مذہب اور عقیدے کو ہر چیز پر مقدم چانتے ہیں پھر بھی عملی زندگی میں وہ عقیدہ اور مذہب کو طاق پر رکھ دیتے ہیں اوردنیاوی فائدے کے لئے دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بھی باز نہیں آتے۔ دونوں ہی ممالک میں حکومتیں  عوام کو بنیادی سہولیات مہیا کرانے کی بجائے انہیں مذہبی معاملات میں پھنساکر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت میں جب مہاجر مزدور پیدل سفر کررہے تھے اور بھوک سے جان دے رہے تھے  اس وقت حکومت رامائن اور مہابھارت جیسے سیریل ٹی وی پر چلاکر عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش کررہی تھی۔ دوسری طرف جب پاکستان کے عوم لاک ڈاؤن کی پریشانیوں اور تاجروں کی زخیرہ اندوزی  اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے بدحال ہیں وہاں کی حکومت نے خاتم النبین بل پاس کرکے عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی اور کچھ حد تک اس میں کامیاب بھی ہوگئی کیونکہ علماء کے ایک طبقے نے اس اقدام پر حکومت پاکستان کی پیٹھ تھپتھپاکر عوام کو یہ جتلادیا کہ حکومت پاکستان سراط مستقیم  پر چل رہی ہے۔

یوروپی ممالک جہاں کے لوگ کم مذہبی ہوتے ہیں وہاں بدعنوانی کم ہے اور اخلاقی اقدار کی اہمیت ہے۔دوسری طرف امیر مسلم ممالک  جیسے سعودی عرب، قطر، اوردیگر خلیجی ممالک میں عوام میں اخلاقی جرائم اور بدعنوانی کم ہے کیونکہ وہاں دولت کی فراوانی کی وجہ سے لوگ بدعنوانی اور بے ایمانی پر مائل نہیں ہوتے۔ اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ مذیہب نہیں بلکہ  معاشی بدحالی  یا خوش حالی انسان کے اخلاق پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔

URLhttps://www.newageislam.com/urdu-section/corruption-rampant-religious-societies-/d/122266


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..