سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
21 فروری 2022
جدید روحانی ترقی کے مطابق
لوگ اپنے ماضی یا مستقبل کی زندگی میں جانے کے قابل ہیں۔
اہم نکات:
1. ماضی کی زندگی کا تجربہ
اب ایک حقیقت ہے۔
2. ہزاروں لوگوں نے اپنی
ماضی اور مستقبل کی زندگی دیکھی ہے۔
3. کرما پیدائشی طور پر
انسانوں کو پریشان کرتا ہے۔
4. ہمیں اپنی گزشتہ زندگیوں
سے غیر موروثی خوبیاں یا برائیاں وراثت میں ملتی ہیں۔
5. پچھلے جنم میں ہمارے
کرما کی وجہ سے ہمارے خاندان کے افراد، دوست
یا دشمن ہمارے رابطے میں آتے ہیں۔
-----
انسان نے زمین پر اب تک کے
اپنے پورے سفر میں علم کے ہر شعبے میں بے پناہ ترقی حاصل کی ہے۔ دورِ جدید میں انسان
نے نہ صرف صنعت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی ہے بلکہ روحانی میدان میں
بھی ترقی کی ہے اور روحانیت بھی اب ان باباؤں یا صوفیوں کی اجارہ داری نہیں رہی جو جنگلوں میں زندگی بسر
کرتے تھے یا پہاڑوں یا خانقاہوں میں تنہائی کی زندگی گزارتے تھے۔ روحانی علم کو صدیوں
سے اولیاء صوفیاء کی امانت سمجھا جاتا تھا جن کا دعوی تھا کہ صرف وہی خودی یا وجود
کے راز یا وجود کی حقیقت سے واقف ہیں۔ جیسے جیسے انسانی علم اور تہذیب ترقی کرتی گئی،
روحانیت کا علم بھی ترقی کرتا گیا۔ جدید دور میں روحانیت نے ایک سائنس کی شکل اختیار
کر لی ہے اور اسے روحانی سائنس کہا جا سکتا ہے۔
چونکہ تصوف انسان کی نفسیاتی کام سے متعلق ہے اور ایک روحانی شخصیت اپنے
دماغ اور اپنی نفسیات کی تربیت اس طرح کرتی ہے کہ وہ اپنے شعور کو دنیا سے اوپر اٹھا
کر ابدی نعمتوں سے لطف اندوز ہو سکے، اس لیے
اسے روحانی نفسیات کہا جا سکتا ہے۔ اب جبکہ روحانی نفسیات نے سائنس کی شکل اختیار کر
لی ہے، اس کا مطالعہ اور اس کی مشق ایسے پیشہ ور افراد کر رہے ہیں جن کے اندر روحانیت
کی طرف جھکاؤ ہے اور اب زندگی، روح اور دماغ
کے چھپے ہوئے پہلوؤں کو تلاش اور ان کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔
تقریباً تمام مذاہب نے روح،
زمین پر انسان کی جگہ اور موت کے بعد کی زندگی جیسے مسئلے پر بات کی ہے۔ اگرچہ تمام
مذاہب کا ماننا ہے کہ موت ایک ناگزیر حقیقت ہے، لیکن موت کے بعد کے مرحلے پر ان کے
درمیان قدرے اختلاف ہے۔ تمام مذاہب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ روح کے سفر میں موت صرف
ایک عارضی مرحلہ ہے اور روح نہیں مرتی۔ یہ صرف جسم کو چھوڑ دیتا ہے۔
اگرچہ ہندو مت کا ماننا ہے
کہ انسان کی روح موت کے بعد منتقل ہو جاتی ہے اور دوسرے کسی انسان، جانور یا کیڑے کے
جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ ابراہیمی مذاہب اور خاص طور پر اسلام نقل مکانی یا آواگوان
کے عقیدے کا دعویٰ نہیں کرتا ہے۔ اسلامی نظریہ اور عمل کی بنیادی کتاب قرآن پاک میں
آواگون کا ذکر نہیں ہے۔ اس میں صرف یہ کہا
گیا ہے کہ ایک بار جب انسان مر جاتا ہے تو زمین پر اس کی زندگی میں اس کے اعمال کی
بنیاد پر جہنم یا جنت میں جانا اس کا مقدر ہے۔ قرآن نے متعدد آیات میں یہ بھی کہا ہے
کہ قیامت کے دن دنیا ختم ہو جائے گی اور اس دن انسانوں کا فیصلہ کیا جائے گا اور زمین
پر ان کے اعمال کے مطابق ان کی انجام کا فیصلہ کیا جائے گا۔
لیکن کچھ آیات ایسی بھی ہیں
جو کائنات کی تخلیق اور تحلیل کے ایک نہ ختم ہونے والے تسلسل کی بات کرتی ہیں۔ یہ ہندوؤں
کے عقیدے کے مطابق ہے کہ ہیرانیہ گربھ (ذات باری کا جسمانی مظہر) ایک خاص مدت کے بعد
تخلیق اور تحلیل ہوتا رہتا ہے جسے کلپ کہتے ہیں۔ ہیرانیہ گربھ کا ایک دن تقریباً
4.3 بلین سال ہے اور یہ ایک سو سال تک زندہ رہتا ہے۔ دن بھر کے کام کے بعد جب اسے نیند
آتی ہے تو پرلے (قیامت) ہوتی ہے۔ جب یہ سو سال بعد مرتا ہے تو کائنات کی مکمل تحلیل
ہو جاتی ہے۔ یہ زمین 4.3 بلین سال پرانی بتائی جاتی ہے جو کہ ہیرانگربھ کا ایک دن ہے۔
چونکہ مسلم عقیدہ کا معاملہ صرف قیامت اور جہنم و جنت تک ہی محدود ہے، اس لیے
اس میں قیامت سے آگے کی کوئی بات نہیں ملتی۔ اس میں ان آیات پر بحث نہیں کی جاتی جن میں تخلیق اور تحلیل
کے تسلسل کا ذکر ہے۔
قرآن مجید میں متعدد آیات
ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ تخلیق کا اعادہ کیا گیا ہے۔ چند آیات کا ترجمہ یہاں نقل کیا
جاتا ہے:
’’اور کیا انہوں نے نہ دیکھا اللہ کیونکر خلق کی ابتداء فرماتا ہے پھر
اسے دوبارہ بنائے گا بیشک یہ اللہ کو آسان ہے‘‘ (العنکبوت:19)
" اللہ پہلے بناتا ہے پھر دوبارہ بنائے گا پھر اس کی طرف پھروگے"
(روم:11)
اسی طرح قرآن میں ایسی بھی
آیات ہیں جو کہتی ہیں کہ یہ کائنات ایک معین مدت کے لیے پیدا ہوئی ہے:
" ہم نے نہ بنائے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے مگر
حق کے ساتھ اور ایک مقرر میعاد پر " (الاحقاف: 3)
دونوں آیات ایک مقررہ مدت
کے لیے تخلیق اور تحلیل کی تکرار کی بات کرتی ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ ان کا سیاق و سباق مختلف ہے۔
ایک اور مسئلہ انسان کی موت
کے بعد ارواح کی منتقلی کا ہے۔ ہندو اور بدھ مت کے مذہبی فلسفے میں، روح ایک زندگی
سے دوسری زندگی میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس
عقیدہ کو آواگون کہتے ہیں۔ اس فلسفے کے مطابق پیدائش اور موت یا نقل مکانی کا چکر ہی
تمام مصائب کی جڑ ہے۔ لہٰذا انسان کو نروان یا موکش کے حصول کے لیے آواگوان کے اس چکر
کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ روح پچھلے جنم میں اپنے اعمال کے مطابق اچھے یا برے
جسم میں جنم لیتی ہے۔ قرآن مجید آواگون کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
قرآن مجید کی کم از کم ایک
آیت میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے۔ آیت یہ ہے:
" ہم نے تم میں مرنا ٹھہرایا اور ہم اس سے ہارے نہیں- کہ تم جیسے
اور بدل دیں اور تمہاری صورتیں وہ کردیں جس کی تمہیں خبر نہیں-اور بیشک تم جان چکے
ہو پہلی اٹھان پھر کیوں نہیں سوچتے ۔" (الواقعہ: 62-60)
مختلف مترجمین نے ان آیات
کا ترجمہ قدرے مختلف الفاظ میں کیا ہے لیکن آیات کا مجموعی مفہوم ایک ہی ہے۔ پیکتھال
اور محسن خان لفظ transfigure استعمال کرتے ہیں جو transmigration سے ملتا جلتا ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ
ایک انسان کو خدا کسی دوسرے وجود میں تبدیل کر سکتا ہے۔ اور اس کی روح کسی دوسرے انسان
یا کسی دوسری ہستی کے جسم میں خدا کے منصوبے کے مطابق منتقل ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ
اگر یہ آیت ارواح کی منتقلی کی طرف بھی اشارہ کرے تو بھی یہ قرآن کے اس موقف سے متصادم
نہیں ہے کہ ہر انسان کو اس کی پیدائش میں اس کے اعمال کی بنیاد پر پرکھا جائے گا نہ کہ اس کی تمام پیدائشوں کے جمع
کردہ اعمال کی بنیاد پر۔
اب ہم روحانی سائنس کے میدان
میں ہونے والی جدید ترقیوں کی طرف آتے ہیں۔ اس میدان میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ خاص طور
پر، اب لوگ ماضی کی زندگی کا تجربہ کرنے کے قابل ہو چکے ہیں، اور روحوں کی منتقلی اب
ان کے لیے ایک حقیقت ہے۔ کچھ روحانی تکنیکوں کی مدد سے لوگ اپنے ماضی یا مستقبل کی
زندگی میں بھی جانے کے قابل ہیں جہاں وہ اپنی گزشتہ زندگی میں ہونے والے کچھ واقعات
کا تصور کرتے ہیں: مثلاً ان کا نام کیا تھا، ان کی زندگی میں ان کا شوہر یا ماں یا
بیٹا یا دوست کون تھا؟ اور وہ کیسے مر ے، وہ
اپنی روح کو اپنے جسم سے اٹھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنی آئندہ زندگی میں بھی جا سکتے
ہیں اور دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کہاں اور کس جسم میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے رشتہ دار
کون ہیں۔
یہ ایک حقیقت بن چکی ہے۔ اپنی
ماضی اور مستقبل کی زندگی کے تجربات کے مطابق انسان ایک جنم میں مسلمان ہوا، موجودہ
جنم میں ہندو اور آئندہ جنم میں عیسائی۔ اسی طرح ایک شخص اپنے پچھلے جنم میں عورت تھا
اور اپنے موجودہ جنم میں ایک مرد، یا موجودہ جنم میں ایک مرد اور آئندہ جنم میں ایک
عورت ہے۔ ان ماضی اور مستقبل کی زندگی کے تجربات کے مطابق ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے
کہ عورت کا باپ موجودہ زندگی میں اس کے شوہر کے طور پر جنم لیتا ہے یا اس کا باپ اس
زندگی میں اس کے بیٹے کے طور پر جنم لیتا ہے۔ عورت کا موجودہ شوہر اس کے آنے والے جنم
میں اس کا دوست ہوتا ہے۔
پچھلی زندگی کے تجربات کے
دوران لوگ اپنے مرنے والے رشتہ داروں مثلاً ماں یا باپ یا سسر یا ساس کو دیکھنے اور
ان سے بات چیت کرنے کے قابل بھی ہوتے ہیں اور مرنے والے کی روح یہ بتاتی ہے کہ اس نے
اپنے بیٹے کے طور پر جنم لیا ہےیا بیٹی یا بھتیجے کے طور پر۔
مسٹر این کے شرما ایک ریکی
ماسٹر ہیں جنہوں نے 25000 سے زیادہ لوگوں کو ان کی گزشتہ زندگی اور مستقبل کی زندگی
میں جانے میں مدد کی ہے۔ ہندوستان کے مردوں اور عورتوں کے یہ موجودہ تجربات روحوں کی
منتقلی کے تصور کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ تمام لوگ پڑھے لکھے لوگ ہیں ان پڑھ یا توہم پرست
لوگ نہیں۔
مسٹر این کے شرما جنہوں نے
اپنی پچھلی زندگی دیکھی ہے، کہتے ہیں کہ وہ 3000 سال پہلے تک کی اپنی پیدائش دیکھ سکتے
تھے۔ وہ بدھ راہب تھے۔ پھر انہوں نے جنوب میں ایک ہندو راہب کے طور پر جنم لیا۔ وہ
تین سو سال پہلے مغل دور میں اردو کے ادیب تھے اور ایک جنم میں راجستھان کے ایک مندر
کے پجاری تھے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی کے خاندان یا اس کے آس پاس کے تمام لوگ پچھلے
جنم میں کرما کی وجہ سے موجودہ جنم میں اس کے رابطے میں آتے ہیں۔ وہ اس کی پچھلی زندگی
کے دوران یا تو اس کے خاندان کے رکن، یا دوست یا دشمن یا مخالف کے طور پر اس کے رابطے
میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ جنم میں جن لوگوں کو اس نے دانستہ یا نادانستہ طور
پر دیکھ لیا وہ اس جنم میں اس کے رابطے میں آئے اور کسی نہ کسی طرح اسے تکلیف دی اور
پھر رابطے سے باہر ہو گئے۔ ایک خاتون نے بتایا کہ جس نرس نے اس کے پچھلے جنم میں اس
کی دیکھ بھال کی وہ اس زندگی میں اس کی ماں ہے۔ اپنی ماں سے اکثر جھگڑا کرنے والی ایک
خاتون کا کہنا ہے کہ اس کے پچھلے جنم میں میری
ماں میری پڑوسی تھی جس سے میرا بہت جھگڑا ہوتا تھا۔ اس لیے اس نے اس زندگی میں
ماں کی حیثیت سے جنم لیا ہے تاکہ وہ ایک ماں کے طور پر مجھ پر غلبہ حاصل کر سکے اور
اپنی تذلیل کا بدلہ لے سکے۔ مسٹر شرما کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن لوگوں کو آپ نے پچھلے
جنم میں پیار کیا تھا اور ان کی دیکھ بھال کی تھی وہ پچھلے جنم میں جذباتی بندھن کی
وجہ سے آپ کے خاندان میں یا اس جنم میں آپ کے رابطے میں واپس آتے ہیں۔
اسی طرح کے بہت سارے واقعات
ہیں جن سے ہمیں کرما کے اثرات اور روح کی منتقلی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔
اب کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ
ماضی میں تو جایا جا سکتا ہے لیکن مستقبل میں کیسے جا یا جا سکتا ہے۔ جواب یہ ہے: زمان
و مکان کا احساس مادی دنیا کی ایک خصوصیت ہے۔ آسمانی خلا میں زمان و مکان مٹ جاتے ہیں
اور وجود ایک وحدت کے طور پر نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر، ہم صرف صفحات کو پلٹ کر ہی
کتاب کا آغاز، وسط اور اختتام دیکھ سکتے ہیں یا ہم کسی دھاگے یا اس سے ملتی جلتی چیز
کے دونوں سرے اور بیچ کو دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا، وہ روح جو حاضر و ناظر ہے ماضی، مستقبل
اور حال کو ایک ساتھ دیکھ سکتی ہے۔ قرآن میں خدا کہتا ہے کہ انسان کی زندگی کی تمام
لمحات کی تفصیلات --- اس کا ماضی، حال اور مستقبل کتاب میں درج ہیں۔ اس لیے ایک ہمہ
گیر روح ایک ہی وقت میں ماضی، حال اور مستقبل سب کو دیکھ سکتی ہے۔ بدھ مت کے فلسفے
کے مطابق، ایک انسان کا شعور کئی جنموں سے ہوتا ہوا ایک ندی کی طرح بہتا ہے اس لیے تمام پچھلی زندگیوں
کی یادیں انسان کے تحت الشعور میں محفوظ ہو جاتی ہیں۔ شعور کا یہ دھارا صرف نروان کے
مرحلے پر پہنچ کر رکتا ہے۔ اس لیے انسان کچھ روحانی تکنیکوں کو اپنا کر اپنے شعور کے
دھارے کو بیدار کر سکتا ہے۔
ہزاروں افراد کے ماضی کی زندگی
کا تجربہ بتاتا ہے کہ علم کا یہ شعبہ مزید ترقی کرے گا اور مستقبل میں ایک عام انسان اپنے ماضی اور مستقبل کو دیکھ سکے گا۔ جیسا کہ ہر
آدمی کو اس کی گزشتہ زندگی کا علم ہو جائے گا، اور قرآن کی مذکورہ بالا آیات محکمات
ہو جائیں گی جو ابھی متشابہات معلوم ہوتی ہیں۔ اور انسانوں کی گزشتہ زندگی کا تجربہ
اسے برے کاموں کے خلاف ایک تنبیہ کا کام دے گا۔ وہ یہ جان لے گا کہ اس کی گزشتہ زندگی
میں اس کے برے اعمال اس کے لیے اس زندگی میں دکھ اور تکلیف کا باعث بنے ہیں۔ لہٰذا
اسے چاہیے کہ وہ اپنی روش کو درست کرے اور اپنی اصلاح کرے تاکہ وہ ایک اور پیدائشی
مصائب کا شکار نہ ہو اور قیامت کے آخری دن جنت میں جائے۔
English
Article: What Does the Quran Say About Re-birth or
Re-incarnation
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism