New Age Islam
Sun Oct 13 2024, 03:35 AM

Urdu Section ( 14 May 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Ozone Hole and the Quran اوزون ہول کا تنازع اور قرآن کا موقف

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

14 مئی،2022

اوزون ہول کا نظریہ 1980 کی دہائی میں سائنسدانوں نے پیش کیا تھا اور اس نظریے نے پوری دنیا میں فکر واندیشہ کی لہر دوڑادی تھی۔ اس کی شروعات 1974 میں ہوئی جب دو سائنسدانوں ماریو مولینا اور شیری رولینڈ نے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ نظریہ پیش کیا کہ کلوروفلوروکاربن سے اسٹریٹو اسفئر کی سطح کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس میں اوزون کی پرت موجود ہے ۔

صدیوں سے سائنسدانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اوزون زمین کی سطح سے 12 سے 18 میل کی بلندی پر سٹریٹو اسفئر میں جمع ہوتا ہے اور اور سورج کی الٹراوایولٹ شعاؤں کو جذب کرکے انسانوں اور حیوانات کو اس کے مضر اثرات سے بچاتا ہے ۔

تین برطانوی سائنسدانوں جوزف فارمین , برائن گارڈنر اور جوناتھن شینکلین نے 1984 میں اپنی تحقیق میں یہ دعوی کیا کہ انٹارک ٹیکا پر موسم بہار میں اوزون میں سوراخ دیکھا گیا اور اس طرح ماریو مولینا اور شیری شینکلین کے دعوے کی تائید کی۔

اس تحقیق پر مولینا اور شیری رولینڈ کو 1985 کا نوبل ایوارڈ بھی دے دیا گیا۔ اس تحقیق کی بنیاد پر دنیا بھر کے اخبارات اور رسائل میں اوزون کی سطح میں ہونے والے مبینہ سوراخ پر مضامین لکھے جانے لگے۔ سیاسی سطح پر اوزون کو بچانے کے لیے اقدامات کئے جانے لگے۔ 1987 میں مونٹریال سمجھوتہ ہوا جس کے مطابق تمام ممالک نے کلورو فلورو کاربن اور دیگر صنعتی کیمیاوی مادوں پر پوری طرح پابندی لگا دی ۔ ان کیمیکلس میں سی ایف سی, ہیلون , کاربن ٹیٹراکلورائڈ اور میتھائل کلوروفارم شامل تھے۔

اسی دوران امپیریل کالج لندن کی سائنسداں جوانا ہیگ اور انکی ریسرچ ٹیم نے بھی اپنی تحقیق میں یہ دعوی کیا کہ کلوروفلورو کاربن کی وجہ سے اوزون کی پرت میں سوراخ ہوگیا ہے اور اس سے زمین پر انسانی زندگی کو بڑے خطرات پیش آ سکتے ہیں

لیکن دوسری طرف سائنسدانوں کا ایک بڑا طبقہ اس اوزون ہول تھیوری پر یقین نہیں کرتا تھا اور اسے ایک فراڈ اور گھپلہ مانتا تھا۔ کچھ سائنسداں تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اوزون ہول کی تھیوری سرکاری ریسرچ گرانٹ کے کروڑوں روپئے پاس کرانے کی غرض سے پیش کی گئی تھی۔ کیونکہ اس مبینہ دریافت کے بعد بڑے پیمانے پر سائنسی ریسرچ میں سرمایہ کاری ہونے لگی اور معاشی ذرائع کو بڑے پیمانے پر اس سمت موڑا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ناسا نے بھی 1992 میں یہ دعوی کیا کہ کرہ باد میں اوزون کے بغیر سورج کی الٹرا وائلٹ شعائیں زمین کی سطح کو بنجر اور بانجھ کردیں گی۔ لیکن ناقدین کا خیال تھا کہ ناسا کا یہ بیان اس وقت آیا تھا جب اس کو اپنے بجٹ میں اضافے کی درخواست کو منظور کرانا تھا۔

دراصل اوزون ہول کی تھیوری امریکہ اور برطانیہ کے سرکاری سائنسدانوں کے لئے ایک آسمانی نعمت سے کم نہیں تھی جس پر ریسرچ کے بہانے انہوں نے اپنی سرکاروں سے کروڑوں کی گرانٹ منظور کرا لی تھی ۔آخر یہ لوگ زمین کو ایک قیامت سے بچانے کی کوشش جو کر رہے تھے۔

اخبارات اور رسائل میں اوزون ہول کی وجہ سے زمین کے انسانوں اور حیوانوں میں مضر اثرات پر رپورٹ بھی شائع ہونے لگیں۔ بھیڑوں کے اندھا ہونے اور ماہی گیروں کے ذریعہ اندھی مچھلیوں کے پکڑنے کی خبریں بھی چھپنے لگیں۔ جان ہوپکنس یونیورسٹی نے اس پر تحقیق کی تو سامنے آیا کہ مچھلیوں اور بھیڑوں میں اندھا پن مقامی طور پر ہونے والے انفیکشن کی وجہ سے ہوا تھا نہ کہ نام نہاد اوزون ہول کی وجہ سے۔

کچھ غیر جانبدار سائنسدانوں کا یہ کہنا تھا کہ اوزون کی پرت میں کمی اور بیشی ایک مستقل قدرتی عمل ہے ۔ مختلف موسموں اور دن کے مختلف اوقات میں اوزون کی پرت پتلی اور گہری ہوتی رہتی ہے ۔ مثال کے طور پر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہر سال موسم بہار میں انٹارک ٹیکا پر اوزون کی پرت پتلی ہو جا تی ہے جسے سوراخ کہا جاتا ہے اور گرمی کے موسم میں یہ پھر بند ہوجاتا ہے ۔ پھر اگلے موسم بہار میں یہ پتلا ہوجاتا ہے جسے اوزون ہول یا اوزون سوراخ کہتے ہیں۔

ان سائنسدانوں میں جو اوزون ہول تھیوری کو ایک گھپلہ مانتے ہیں ٹونی ہیلر بھی ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شمالی قطب میں کبھی بھی کوئی اوزون ہول تھا ہی نہیں۔ اور انٹارک ٹیکا پر جس سوراخ کی بات کی جاتی ہے وہ مونٹریال پروٹوکول کے نفاذ کے بعد بھی بند نہیں ہوا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن گیسوں کو اوزون ہول کا ذمہ دار مانا جاتا تھا ان پر پابندی کے بعد بھی یہ ہول یعنی اوزون کی سطح کے پتلے ہونے کا عمل رکا نہیں ہے ۔ لہذااوزون کی سطح کا پتلا اور گہرا ہونا ایک قدرتی عمل ہے جو قدرت کے نظام کا ایک حصہ ہے ۔

ہندوستان کے ایک معتبر سائنسداں ڈاکٹر پدمانابھا راؤ جو ہمالین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسیز کے سابق پروفیسر آف میڈیکل فیزکس ہیں کے مطابق اوزون ہول تھیوری بھی گلوبل وارمنگ کی تھیوری کی طرح ہی ایک ماحولیاتی گھپلہ ہے ۔ ان کے علم کے مطابق اوزون ہول کا وجود ہی نہیں ہے ۔۔ان کی قبیل کے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اوزون کی سطح کا کوئی وجود نہیں ہے ۔

جان او سلیون اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں

۔"سائنسدانوں نے اس بات کے کافی شواہد پائے ہیں جس سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ مختلف ادوار میں فطرت میں اس طرح کی تبدیلیاں معمول کے مطابق ہیں ۔آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جس اوزون کی پرت کے موجود ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے اس کی پرت بہت پتلی ہے اور وہ بھی دن کے اوقات اور موسموں کے مطابق اس کی پرت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ گرمی کے موسم میں یہ گہری ہوتی ہے جبکہ جاڑے میں پتلی ہوتی ہے دن کے وقت گہری ہوتی ہے اور رات کے وقت پتلی۔۔"

مندرجہ بالا تمام حقائق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اوزون کی پرت آکسیجن کے تین ایٹموں کے کرہ ہوا کی اوپری سطح اسٹرےٹواسفئر میں جمع ہونے سے بنتی ہے اور اتنی باریک ہوتی ہے کہ یہ تقریبا عدم موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے سائنسدانوں کا ایک بڑا طبقہ اوزون کی پرت کی موجودگی کو ہی نہیں مانتا چہ جائیکہ اس میں سوراخ کو تسلیم کرے۔ سائنسدانوں نے انٹارک ٹیکا پر اوزون کی نسبتا پتلی پرت کا پتہ لگایا اسے وہ حالیہ مظہر سمجھ بیٹھے جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کے لئے کوئی ڈیٹا موجود نہیں تھا کہ وہ پتلی پرت کتنے زمانے سے موجود ہے۔ اگر کوئی چیز انسان آج دریافت کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ وہ چیز آج ہی وجود میں آئی ہے۔ انٹارک ٹیکا پر اوزون کا سردیوں میں پتلا ہونا اور گرمیوں میں گہرا ہونا اور دن کو

گہرا ہونا اور رات کو پتلا ہونا قدرت کے طے شدہ نظام کے تحت ہے۔ تاکہ انٹارک ٹیکا کے برف کو گرمیوں میں زیادہ پگھلنے سے روکا جائے اور سردیوں میں مناسب مقدار میں پگھلنے کی راہ ہموار کی جائے۔

گذشتہ کئی سو برسوں میں دنیا میں ہونے والی سائنسی دریافتوں پر قرآن کے موقف کی تائید ہوئی ہے۔ لہذا اوزون ہول کے مسئلے پر بھی قرآن کے موقف کو جاننا ضروری ہے۔ قرآن کی کم از کم دو آیتیں ایسی ہیں جو اوزون ہول کی تھیوری کو رد کرتی ہیں اور ان سائنسدانوں کے موقف کی ان سے تائید ہوتی ہے کہ اوزون ہول ایک مفروضہ ہے جسے مغربی ممالک کے سرکاری سائنسدانوں نے گڑھا ہے۔قرآن کی سورہ ق کی آیت نمبر 6 ملاحظہ ہو۔

۔۔"کیا نہیں دیکھتے آسمان کو اپنے اوپر کیسا ہم نے اس کو بنایا اور رونق دی اور اس میں نہیں کوئی سوراخ۔"۔

سورہ الملک کی آیت نمبر 3 میں بھی اسی موقف کا اعادہ کیا گیا ہے۔

۔"کیا دیکھتا ہے رحمان کے بنانے میں کوئی تفاوت۔ پھر دوبارہ نگاہ کر کہیں نظر آئی تجھ کو درار۔"۔۔

ان آیتوں سے ڈاکٹر پدمانابھا راؤ اور دیگر غیر جانبدار سائنسدانوں کے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ آسمان میں کوئی سوراخ نہیں اوزون ہول نہیں۔ اور جسے کچھ سائنسدان سوراخ یا اوزون کی پرت یا پتلا اور گہرا ہونا سمجھ رہے ہیں وہ دراصل قدرت کے متوازن نظام کا حصہ ہے۔

URL:  https://www.newageislam.com/urdu-section/ozone-hole-quran/d/127001

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..