سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
خالق کائنات کا ذکر دنیا کے تمام مذاہب میں ہے اورزبور، توریت ، انجیل اور دنیا کی سب سے پرانی آسمانی کتابیں ۔۔وید وں میں بھی خالق کائنات کی حمد و ثنا کی گئی ہے اور بھکتوں یا بندوں کو کثرت سے خدا کی حمد و ثنا ء کی ہدایت دی گئی ہے ۔ خدا کے نام کو جپنے کی روایت اور بھی دوسرے مذاہب میں ہے جیسے منی چین مذہب جو قدیم ایران میں رائج تھا اور جس کے پیغمبر منی تھے اسی لحاظ سے اس مذہب کو منوی کہاجاتاتھا ۔بہت سے جدید مذاہب جیسے سکھ مذہب ، ناتھ پنتھ ، کبیر پنتھ ویشنو دھرم وغیرہ میں خدا کے ذکر کو بہت اہمیت دی جاتی ہے بلکہ ان مذاہب میں ذکر ہی مذہب کا بنیادی عمل ہے ۔ ان مذاہب میں دیوی دیوتاؤں کی نہیں بلکہ خدائے واحد کے ذکر کو نجات کا وسیلہ تسلیم کیا جاتاہے ۔ گویا ذکر ہی خدا سے قربت کا اصل ذریعہ ہے۔
قرآن میں بھی ذکر کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ کبھی کبھی لگتاہے کہ اسلام میں بھی ذکرایک بنیادی فریضہ ہے حالانکہ اس کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں گیاہے اور نہ ہی اسے اسلام کے پانچ بنیادی ستون میں رکھا گیاہے مگر قرآن میں ذکر پر اتنا زور دیاگیاہے کہ اسے ایک فرض کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے ۔ قرآن میں ذکر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ قرآن کو کئی جگہ ذکر کہاگیاہے اور قرآن کی تلاوت فرض کردی گئی ہے ۔
’’اے ایمان والو اللہ کا ذکر کثرت سے کیاکرو۔ او ر صبح و شام اس کی تسبیح کیاکرو۔‘‘ (االاحزاب : 41.42)
ایک آیت میں تو قرآن کے ذکر سے اعراض کرنے والے کو سخت تنبیہ بھی کی گئی ہے ۔
’’اور جو کوئی آنکھیں چرائے رحمن کی یاد سے ہم اس پر مقرر کردیں ایک شیطان پھر وہ رہے اس کا ساتھی بن کر۔‘‘ (الزخرف: 46)
یہ کائنات خدا کی تخلیق ہے اور تمام کائنات خدا کی حمد وثنا کرتی ہے ۔ چاہے وہ پہاڑ ہوں ، پیڑپودے ہوں یا چرند پرند۔یہ سبھی اپنے طور پر اللہ کی حمد وثنا کرتے ہیں اور اسے سجدے کرتے ہیں ۔
’’اس کی پاکی بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی ان میں ہے اور کوئی چیز نہیں جو نہیں پڑھتی خوبیاں اس کی لیکن تم نہیں سمجھتے ان کا پڑھنا ۔‘‘(بنی اسرائیل :۴۴)
داؤد علیہ السلا کے ساتھ پہاڑ اور پرندے اللہ کی حمد وثنا کرتے تھے
’’اور ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو داؤد کے ساتھ پابند کردیا تھا اور وہ تسبیح پڑھتے تھے ۔‘‘
ایک دوسری آیت میں بھی یہی مضمون آیاہے
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ ( اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے ، ہر ایک اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتاہے ۔‘‘ (النور :41)
خدا نے چونکہ یہ کائنات تخلیق کی ہے اور وہی قادر مطلق ہے اس لئے وہ چاہتاہے کہ تمام کائنات ہر وقت اس کی حمد وثنا کرتے رہیں اور ا س کی عظمت اور اس کی طاقت کا اعتراف کرتے رہیں ۔ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں اور اپنے دل میں شیطان کا گزر نہ ہونے دیں ۔ اس لیے وہ چاہتاہے کہ انسان ہروقت اس کی یاد کو اپنے دل میں جگہ دے ۔ خدا کی یاد سے انسان کے دل میں شیطان کا گزر نہیں ہوتااور وہ برائیوں سے بچارہتاہے ۔ اس لئے ایک آیت میں وہ تنبیہ بھی کرتاہے ۔ خدا کا ذکر انسان کو اپنے وجود کی حقیقت کا ادراک کراتارہتاہے اور وہ تکبرسے محفوط رہتاہے ۔
اسی لئے ذکر کو اولیاء اللہ نے خصوصا اپنایا اور تصوف ذکر ہی سے عبارت ہوگیا۔تصوف کا اہم جز ذکر ہے ۔اور ذکر کے کئی درجے ہیں ۔ ذکر کا سے بلند درجہ وہ ہے جسے سلطان الاذکار کہتے ہیں ۔ اس ذکر میں ذاکر کا دل خود ہی ذکر کرتارہتاہے اور اکثر اس کے ہاتھوں اور پیروں کے روئیں کھڑے ہوجاتے ہیں اور ان کے دل رقیق ہوجاتے ہیں ۔ اس درجے کے ذکر سے متعلق بھی قرآن میں اشارہ موجود ہے :
’’اللہ ہی نے بہتریں کلام نازل فرمایاہے جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں ، بار بار دہرائی گئی ہیں جن سے ان لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی جلدیں اور دل نرم ہوجاتے ہیں( اور رقت کے ساتھ ) اللہ کے ذکر ( کی طرف محو ہوجاتے ہیں ۔)
یہ آیت بھی اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے کی ہدایت کرتاہے
’’فی الحقیت تمہارے لئے رسول اللہ میں نہایت حسین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی اور یوم آخرت کی امید رکھتاہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرتاہے ۔‘‘(الاحزاب : 21)
اولیاء اللہ نے قرآن کی اس آیت کو اپنے طرز عبادت یعنی تصوف کے لئے جواز نکالا
’’اور چھوٹ کر چلا آ اس کی طرف سب سے الگ ہوکر‘‘ ( المزمل :۸)
اسلام راہبانہ زندگی کا حکم نہیں دیتامگر دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے اور ا س میں بالکل الجھ جانے سے بھی منع کرتاہے ۔ دنیا کی ساری چیزوں سے خدا کی طرف چھوٹ کر چلے آنے کا مطلب ہے کہ دنیاوں لذتوں اور معاملات کو اللہ کے ذکر پر ترجیح دینے اور اس کی یاد کو ہروقت سینے سے لگائے رکھنا ہے ۔ اولیاء اللہ نے مخلوق سے خدمت اور اللہ سے محبت کو ہی اپنی زندگی کا شعار بنیا۔
ذکر کا ایک فائدہ یہ بتایا گیا کہ اس سے دل نرم ہوتاہے جس پر اللہ کی باتوں ، اس کے احکام اور اس کی نشانیوں کا گہرا اثر ہوتاہے ۔ وہ اللہ کی نافرمانی سے ڈرتاہے وہ ہر وقت اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے اور وہ دنیا کی محبت سے آزاد ہوجاتاہے ۔ اس کے دل میں شیطا ن کا گزر نہیں ہوتا جو انسان کو برائیوں اور شیطانی طرز زندگی اپنانے کی ترغیب دیتاہے ۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism