سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
26 جون 2021
دل جلوہ الہی کی آماجگاہ گاہ ہے۔
اہم نکات:
1. قرآن کہتا ہے کہ خدا
کا ذکر دل کو سکون بخشتا ہے
2. نبی پاک کا فرمان ہے
کہ معرفت دل کا عمل ہے
3. اپنشد کی تعلیم ہے کہ
جلوہ الہی کا مسکن انسان کا دل ہے۔
-----
دل، جسم اور دماغ انسان
کے وجود کے تین اجزاء ہیں۔ ان تینوں اجزاء کے درمیان ایک متوازن ہم آہنگی انسان کو
فکری اور روحانی علم اور روشن خیالی کی طرف لے جاتی ہے۔ معرفت کے حصول میں دل
مرکزی یا اہم کردار ادا کرتا ہے۔ انسان کو اس کی معرفت حاصل کرنے کے لیے ذات و
صفات الہیہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ کا ذکر یا اس کی یاد معرفت الہی کا سب
سے اہم حصہ ہے۔ اور ذکر قلبی لگاؤ سے ہوتا ہے۔ دل کو کام میں لائے بغیر، ذکر دماغ
کے زیر اثر ایک مشینی سرگرمی بن جاتی ہے اور انسان کو ایسے ذکر سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔لہٰذا دل انسان کی
روحانی معرفت کے عمل کا مرکزی عنوان ہے۔
اپنشدوں کے مطابق، پروش
(ذات الہی) کی معرفت حاصل کرنے کے لیے دل ہی دل میں اس پر غور کرنا چاہیے۔ الینا
ایڈمکووا نے اپنے مضمون بعنوان "رولیشن ایز دی نیچر آف اپنشادک نالج"
میں اس موضوع پر کتھا اپنشد کے اقوال کا خلاصہ درج ذیل الفاظ میں کیا ہے:
"مائیکروکاسمک سطح پر، پروش دل کے لطیف دائرے میں مرتکز ہے
لیکن وہ بصارت کے بس کی چیز نہیں ہے اور کوئی بھی اسے اپنی ان مادی آنکھوں سے نہیں
دیکھ سکتا۔ اسے صرف عقل کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ (جوکہ دل میں واقع دماغ کا
حکمران) جس کا طریقہ گہری غور و فکر یا مراقبہ (منن) ہے۔"
غور و فکر اور گہرے
مراقبہ کے ذریعے ذات الہی کی معرفت دل کو حاصل ہو سکتی ہے۔ اسے صرف علم سے نہیں
پہچانا جا سکتا۔ روشن خیالی کے حصول کے لیے خدا سے گہری محبت اور خدا سے روحانی
لگاؤ ضروری ہے۔ کتھا اپنشد میں ہے:
"پورش (ذات الہی)، ایک انگوٹھے کے سائز کا اندر رہنے والا نفس
انسان کے دلوں میں ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ انسان کو اسے اپنے جسم سے اس طرح جدا کرنا
چاہیے جیسے مونجا گھاس سے ڈنٹھل۔"
حیرت کی بات ہے کہ کتھا
اپنشد کے ہی اس قول کی طرح روحانیت کے حصول میں دل کی مرکزیت پر قرآن کا بھی قول
ہے۔ قرآن کا فرمان ہے:
اور جان لو کہ اللہ کا
حکم آدمی اور اس کے دلی ارادوں میں حائل ہوجا تا ہے (الانفال:24)
خدا انسان (اس کے جسم) کو
اس کے دل سے الگ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں خدا انسان کے دل کو اس کی جسمانی
خواہشات اور مکاریوں سے بچاتا ہے کیونکہ انسان کا دل خدا کا ٹھکانہ ہے۔
لہٰذا چونکہ ذاتِ الہی کا
مسکن انسان کا دل ہے، اس لیے اس کا ادراک انسان اپنے دل میں خدا پر غور کر کے ہی
حاصل کر سکتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا:
"المعرفت فی القلب" (معرفت دل کا عمل ہے۔ صحیح بخاری)
دوسرے الفاظ میں، روحانی
معرفت دل کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہندوستانی فلسفی اور نوبل انعام یافتہ
رابندر ناتھ ٹیگور نے بھی اپنی کتاب برہما منتر، 1901 میں لکھا ہے:
"پرماتما کا ادراک صرف علم سے نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کی معرفت
ہمارے دل کو ہوتی ہے)
قرآن گہرے مراقبہ،
غوروفکر اور ذکر کے ذریعے معرفت حاصل کرنے میں دل کے کردار پر زور دیتا ہے، کیونکہ
یہ کام دل کا ہے۔
"الا بذکر اللہ تطمئن القلوب" (الرعد: 28)
(اللہ کا ذکر دلوں کا سکون ہے)
اس لیے روحانی معرفت کے
حصول میں انسان کا دل مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ روحانی معرفت صرف اور صرف علم کی
بنیاد پر حاصل نہیں کی جا سکتی کیونکہ ذات الہی کا مسکن دماغ نہیں دل ہے۔
English
Article: The Heart Plays a Central Role in Spiritual
Attainment: Learnings from Quran and Upanishads
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism