سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
23 ستمبر،2021
قرآن مجید زبور، تورات اور
انجیل کی طرح ہی الہامی وآسمانی کتاب ہے، اس میں مذہبی احکام بھی ہیں اور اصول تمدن
بھی بتائے گئے ہیں۔ اس میں ایک صحت منداو رمہذب انسانی معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے
لئے رہنما ہدایات بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود قرآن کی زبان خشک اور سپاٹ
نثر کی زبان نہیں ہے۔ قرآن کا اسلوب اسلوب الہٰی ہے۔ قرآن میں خدا نے اپنے احکام بیان
کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو خوبصورت او رمؤثر گفتگو کے آداب سکھائے اور اسے اچھی تقریر
اور تحریر کا سلیقہ بھی سکھایا۔خود سورہ الرحمن میں خدا فرماتا ہے۔
”عَلَّمَهُ
الْبَيَانَ“ (الرحمن:4)
”اسے بیان سکھایا“۔
بیان سے مراد صرف گفتگو نہیں
بلکہ اس میں تقریر اور تحریر کے تمام اصول شامل ہیں۔
قرآن میں اللہ نے اپنے احکام
اور پیغامات کو موثر اور بلیغ طریقے سے انسانوں تک پہنچانے کیلئے تشبیہیں، استعارے،مثالیں
او رمحاورے جا بجا استعمال کئے ہیں۔ اس کے لئے قرآن میں متوازیت(Parallelism) اور تکرار (Repitition) کا بھی استعمال کیا
ہے۔ یہاں ہم قرآن میں استعمال کی گئی تکرار کی تکنیک کا مطالعہ کریں گے۔
عام طور پر تقریر و تحریر
میں کسی جملے یا لفظ کی تکرار ایک عیب یا خامی تصور کی جاتی ہے۔مگر جب کسی فقرے کو
ایک فنی او زار اور تکنیک کے حصے کے طور پر تقریرکو مؤثر او ربلیغ بنانے کے لئے استعمال
کیا جائے تو وہ جملہ یا فقرہ امن نثر و نظم کی ایک خوبی بن جاتاہے۔قرآن میں اسی تکرار
کی تکنیک کا کئی موقعوں پر فنکارانہ استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے اس سورہ کے حسن، بلاغت
اورتاثیر میں اضافہ ہوگیا ہے۔
قرآن میں تکرار کی تکنیک کی
سب سے نمایاں مثال سورہ الرحمن ہے جس میں ایک آیت ”فبای الاء ربکما تکذبٰن(پھر تم اپنے
رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤگے) کا استعمال اکتیس (31) بار ہوا ہے۔ اس سورہ میں یہ
آیت پر ایک یا دو آیتوں کے بعد آتی ہے۔ اس آیت کی تکرار سورہ کے حسن اور تاثیر میں
اضافہ کرتی ہے۔
سورہ الرحمن واحد سورہ نہیں
ہے جس میں تکرار کی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ قرآن میں او ربھی کئی سورتیں ہیں جس میں
تکرار کی تکنیک سے متن کے پیغام کو موثر بنایا گیا ہے۔ ایسی ہی ایک سورہ ہے القمر۔
اس سورہ میں یہ آیت چار بار لائی گئی ہے۔(آیت نمبر 16،22،32 اور 40)
”وَ
لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۠
“
”اور ہم نے آسان کردیا قرآن کو سیکھنے کے لئے پھر ہے کوئی سوچنے والا“
اس کے علاوہ اس سورہ میں
”فَهَلْ
مِنْ مُّدَّكِرٍ۠
“کا فقرہ بھی دوموقعو ں پرلایا گیا ہے۔
(1) وَلَقَد تَّرَكْنَاهَا آيَةً فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (15)
”پھر ہم نے رہنے دی اس کو نشانی،پھر ہے کوئی سوچنے والا“
(2) وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا أَشْيَاعَكُمْ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ (51)
”اور ہم برباد کرچکے ہیں، تمہارے فرقے والوں کو،پھر ہے کوئی سوچنے والا“
اس طرح ”فہل من مدکر“ کی تکرار
سے قرآن انسانوں کو بار بار سوچنے او رعبرت حاصل کرنے کی دعوت و ترغیب دیتاہے۔
سورہ المرسلٰت میں بھی تکرار
سے حسن اور تاثیر میں اضافہ کیا گیا ہے۔
”وَيْلٌ
يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ “
(خرابی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لئے)
اس آیت کا استعمال اس سورہ
میں دس بار ہوا ہے۔(آیت نمبر 15،19،24،28،34،37،40،45،47،49)۔اس آیت کی تکرار سے اللہ
کے پیغام کو جھٹلانے والوں کے لئے قیامت میں عذاب کی خود خبری سنائی گئی ہے اور اس
آیت کے مکرر استعمال سے زور بیان پیدا کیا گیا ہے تاکہ منکرین اپنے عمل کی سنگینی کا
احساس کرلیں۔
سورہئ الشعر اء میں بھی تکرار
کاحسن سورہ کو مزید بلیغ او رپرتاثیر بنا دیتاہے۔ اس سورہ میں خدا کی عظمت اور رحیمی
کو بیان کرنے والی آیت کو آٹھ بار لایا گیا ہے۔(آیت نمبر9، 68،104،120)۔ وہ آیت ہے:
” وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ “
”او ربے شک تیرا رب زبردست رحم والا ہے“۔
اس آیت کے علاوہ یہ آیتیں
بھی تین مقامات پر زور بیان اور تاکید کیلئے دہرائی گئی ہیں۔
”إِنِّي
لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ
مِنْ أَجْرٍ ۖ
إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
”میں تمہارے واسطے رسول ہوں معتبر۔سو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔
اور میں اس پرتم سے کچھ اجر نہیں مانگتا۔کہ میرا اجر پروردگار عالم کے پاس ہے۔“
اس سورہ الشعراء میں ” فَاتَّقُوا
اللَّهَ وَأَطِيعُونِ“ میں تین بار (110،131،150) آیا ہے۔ ان آیتوں کی تکرار کا مقصد
ان میں دیئے گئے پیغام کو قارئین کے ذہن نشین کرانا ہے۔
سورہ النمل میں بھی تکرار
کی تکنیک سے زور بیان اور بلاغت میں اضافہ کیا گیا ہے۔
أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ
”کیا کوئی او رمعبود اللہ کے ساتھ ہے“
یہ سوالیہ جملہ پانچ آیتوں
(60،61،62،63،64) میں دہرایا گیا ہے۔ کبھی کبھی بات پر زور ڈالنے کے لئے سوالیہ جملہ
کہاجاتاہے۔ اس کا مقصد جواب حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک واضح اورنمایاں حقیقت پر تائید
حاصل کرنا ہوتاہے۔ اس سورہ میں ” أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ “ کا مقصد یہ پوچھنانہیں
کہ اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود ہے کہ نہیں بلکہ یہ باور کرانا ہے کہ اللہ کے ساتھ
کوئی اور معبود ہے ہی نہیں۔ قرآن کے اسلوب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کسی چیز کے بارے
میں بتانے سے پہلے وہ قاری سے پہلے اس کے بارے میں پوچھتا ہے۔ اس طرح کے طرز بیان کے
استعمال سے وہ قاری کی توجہ پوری طرح اپنی جانب یا موضوع کی جانب مبذول کرلیتاہے۔
مثال کے طور پر:
(1وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ
(القدر:2)
”تو نے کیا سمجھا لیلۃ القدر کیا ہے“
(2)وَمَآ
اَدْرَاكَ مَا الْحَآقَّةُ (الحاقہ:3)
”اور تونے کیا سمجھا کیا ہے الحاقہ“
(3) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ (المدثر:27)
”اور تو نے کیا سمجھا کیاہے وہ آگ“
(4) وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ (انفطار:17)
(5) وَمَا أَدْرَاكَ مَا سِجِّينٌ (المطففین:8)
(6) وَمَا أَدْرَاكَ مَا عِلِّيُّونَ (المطففین:19)
”اور تونے کیا سمجھا کیاہے سجین“
او رتونے کیا سجھا کیا ہے
علّین“
اس طرح کی آیتوں کی تکرار
چند اور سورتوں میں ہیں جیسے:
(1) إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (الصّٰفت:110)
”ہم یوں جزا دیتے ہیں نیکی کرنے والوں کو“
(2) إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (الصّٰفت:121)
(3) إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (الصّٰف:131)
اس طرح کی آیتوں کی تکرار
چند دوسری سورتوں میں بھی ہے جن سے آیتوں سورتوں کے حسن اور تاثیر میں اضافہ ہوجاتاہے
اور قرآن کا پیغام قاری کے ذہن نشین ہوجاتا ہے۔ کہیں پر یہ تکرار خوش خبری کو ذہن نشین
کرانے کیلئے او رکہیں خدا کی عظمت اور صفت رحیمی پر ایمان والوں کے یقین کو استحکام
بخشنے کیلئے۔لہٰذا تکرار کی تکنیک کا استعمال قرآن کے پیغام کو موثر بنانے اور ذہن
نشین کرانے کیلئے کیا گیا ہے۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism