سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
23 جولائی 2021
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرقہ
واریت کو فروغ دینے والے علماء کو جہنمی قرار دیا ہے
اہم نکات:
1. قرآن اسلامی مبلغین
کو حق کے ساتھ باطل کی آمیزش سے منع کرتا ہے۔
2. احادیث کی پیشن
گوئی ہے کہ بعد کے زمانوں میں متعصب علماء اسلام کی غلط تشریح پیش کریں گے
3. قرآن پاک کا فرمان
ہے کہ فرقہ واریت کو فروغ دینے والے علماء جہنمی ہیں
-----
فرقہ واریت آج کی دنیا
میں مسلم معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ آج مسلمانوں کے اندر درجنوں فرقے اور ذیلی
فرقے موجود ہیں۔ یہ فرقے قرآن وسنت کی مختلف تعبیر وتشریح کے نتیجے میں وجود میں
آئے ہیں۔ دینی پہلوؤں کی ان متضاد تعبیرات وتشریحات کے نتیجے میں مختلف نظریات نے
جنم لیا اور یہی مختلف نظریات اسلام میں فرقوں اور ذیلی فرقوں کی بنیاد بن گئے۔ اب
مسئلہ محض نظریاتی اختلافات تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ یہ اس سے بھی آگے نکل چکا
ہے۔ ایک فرقے کے پیروکاروں نے یہ ماننا شروع کر دیا ہے کہ دین کی دوسری تمام
تشریحات کفر کی حد تک غلط ہیں لہٰذا دین اسلام کی اس خاص ترجمانی کی پیروی کرنے
والا فرقہ کافر ہے۔
مزید یہ کہ چونکہ قرآن کے
اندر جنگ سے متعلق سیاق وسباق والی آیتوں میں مسلمانوں کو دور نبوت میں کافروں کے
ساتھ لڑنے اور انہیں قتل کرنے کی اجازت دی گئی ہے لہذا وہ جنگ والی ان آیات کو
دوسرے فرقوں کے ان مسلمانوں پر بھی نافذ کرتے ہیں جنہیں وہ کافر سمجھتے ہیں اور
اعلان کرتے ہیں کہ دوسرے فرقوں کے پیروکار کا قتل ہونا چاہئے۔ اسلام کی انہی غلط تشریحات
نے مسلمانوں میں نفرت اور تشدد کا ایک تسلسل پیدا کر دیا ہے۔
چونکہ تقریبا ایک ہزار
سال تک عرب کے علاوہ زبانوں میں غیر عربی مسلمانوں کو قرآن کے مستند تراجم دستیاب
نہیں تھے اسی لئے عام مسلمان قرآن وحدیث کی تشریح کے لئے اپنے زمانے کے دینی
اساتذہ اور علمائے کرام پر انحصار کرتے تھے۔ لہٰذا، ان کا قد اتنا بلند ہوا کہ
قرآن وسنت کے بارے میں ان کی آرا اور ان کی تعبیرات وتشریحات کو مقدس اور ناقابل
تردید سمجھ لیا گیا۔ چونکہ مسلمانوں کے بڑے طبقے کو قرآنی تعلیمات براہ راست
دستیاب نہیں تھیں اس لئے انہوں نے اپنے اساتذہ اور علماء کی رائے کو قرآن کی صحیح
تشریح مان لیا حالانکہ بعض اوقات کسی خاص استاذ یا عالم کی رائے اس کے فرقہ وارانہ
نظریات یا غلط فہمی پر مبنی تھی۔ .
بعد کے زمانوں میں مختلف
اسلامی اساتذہ اور علماء کے مختلف نظریات و آراء نے مختلف فرقوں اور ذیلی فرقوں کی
بنیاد رکھی۔ ان کی رائے اور تشریحات نے شریعت کا درجہ حاصل کرلیا حالانکہ ان کی
کچھ رائے قرآن یا حدیث کی دلیل سے بھی مزین نہیں تھی۔
اب یہ بات واضح ہو چکی کہ
مسلمانوں کے مابین جتنے بھی فرقے اور ذیلی فرقے پائے جاتے ہیں وہ عام مسلمانوں کے
نہیں بلکہ علمائے اسلام کے انتہا پسندانہ یا متعصبانہ افکار و نظریات کا نتیجہ
ہیں۔ اور جب قرآن ان فرقوں کی تشکیل کرنے والوں کی مذمت کرتا ہے اور ان پر لعنت
بھیجتا ہے تو خطاب اسلامی اساتذہ، مفکرین اور متعصب علماء سے ہوتا ہے۔ آج بھی عام
مسلمان فرقہ وارانہ منافرت کو پسند نہیں کرتے اور نہ ہی اسے کو فروغ دیتے ہیں،
تشدد اور خونریزی کی تو بات ہی جدا ہے۔
ایک حدیث ایسی بھی ہے کہ
جس میں ایسے اسلامی ترجمانوں کی پیدائش کی پیشن گوئی کی گئی ہے جو دین کی غلط اور
گمراہ کن تشریح پیش کریں گے اور لوگوں کو جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عہدِ اخیر میں علمائے اسلام حق کے ساتھ باطل کی
آمیزش کریں گے۔ وہ غیر اسلامی عقائد پھیلائیں گے اگرچہ وہ مسلمان ہوں گے اور ہماری
زبان بولیں گے (یعنی وہ قرآن اور حدیث کا حوالہ پیش کریں گے)۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ دوسرے صحابہ کرام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے
متعلق سوال کیا کرتے تھے لیکن میں آپ ﷺ سے شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ
کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں۔ تو میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے زمانے میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ
نے ہمیں یہ خیر و برکت (اسلام کی) عطا فرمائی، اب کیا اس کے بعد پھر شر کا کوئی
زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، میں نے سوال کیا، اور اس
شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں،
لیکن اس خیر پر کچھ دھواں ہو گا۔ میں نے عرض کیا وہ دھواں کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ
دوسرے طریقے اختیار کریں گے۔ ان میں کوئی بات اچھی ہو گی کوئی بری۔ میں نے سوال
کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا کہ ہاں، جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کی بات قبول
کرے گا اسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کے اوصاف
بھی بیان فرما دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ہماری ہی قوم و
مذہب کے ہوں گے۔ ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے عرض کیا، پھر اگر میں ان لوگوں کا
زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کا حکم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا، میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی
کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
پھر ان تمام فرقوں سے اپنے کو الگ رکھنا۔ اگرچہ تجھے اس کے لیے کسی درخت کی جڑ
چبانی پڑے، یہاں تک کہ تیری موت آ جائے اور تو اسی حالت پر ہو (تو یہ تیرے حق میں
ان کی صحبت میں رہنے سے بہتر ہو گا)۔۔ '' (صحیح بخاری، کتاب المناقب؛812)
یہ حدیث بہت معنی خیز ہے
اور آج کل جو کچھ ہو رہا ہے اس کی واضح تصویر پیش کرتی ہے۔ دین کے معاملات میں ہر
ایک مفسر یا اسلامی اسکالر کی اپنی ایک الگ تعبیر و تشریح ہوتی ہے جسے وہ دوسروں
پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سے سنگین اور بعض اوقات پرتشدد اختلافات پیدا
ہوجاتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے جڑنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس حدیث میں
یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعد کے زمانوں میں دین کی تشریح پر کچھ دھواں ہوگا۔ یعنی
مختلف نظریات اور تشریحات کی وجہ سے لوگوں کے درمیان دین کی صحیح تصویر مشکوک ہو
جائیگی اور لوگ الجھنوں کا شکار ہو جائیں گے۔ حدیث میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا
ہے کہ کچھ اسلامی اساتذہ اور اسکالر دین کی ایک بالکل غلط تشریح پیش کریں گے اور
مسلمانوں کو جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ وہ اپنے فرقہ وارانہ تعصب سے مجبور ہو کر حق
کے ساتھ باطل کی آمیزش کریں گے اور اسلام کے پیغام کو مسخ کریں گے۔ لیکن افسوس کی
بات یہ ہے کہ تقریبا ہر اسلامی اسکالر یا استاذ کا یہ یقین کامل ہے کہ اس سے کوئی
غلطی ہو ہی نہیں سکتی کیوں کہ اس کے پاس کسی مدرسے یا اسلامی ادارے کی سند ہے۔
قرآن مجید ان اسلامی
اسکالروں کو مندرجہ ذیل آیت میں واضح طور پر مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔
لا تلبسوا الحق بالباطل و
تکتموا الحق و انتم تعلمون (البقر:42)
"اور حق سے باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ
چھپاؤ۔"
ایک اور آیت میں قرآن
مجید نے ایسے مفسرین اور علمائے اسلام کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے کیونکہ
انہوں نے اسلام کے اندر ایک نیا فرقہ پیدا کر کے مسلمانوں کو تقسیم کردیا ہے۔
"وہ جنہوں نے اپنے دین میں جُدا جُدا راہیں نکالیں او رکئی
گروہ ہوگئے اے محبوب! تمہیں ان سے کچھ علا قہ نہیں ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے
ہے پھر وہ انہیں بتادے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔ (الانعام:159)
خلاصہ کلام یہ کہ آج فرقہ
واریت کی جس لعنت سے مسلم معاشرہ دوچار ہے وہ اسلام کی متعصبانہ اور انتہا پسندانہ
تشریحات کا نتیجہ ہے، لہذا ہمارے علماء کے دیانتدارانہ اقدامات سے ہی مسلم معاشرے
کو فرقہ وارانہ تشدد اور تفرقے کی ہولناکیوں سے نجات مل سکتی ہے۔
English
Article: Sectarianism Is Severely Condemned by God and Prophet
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism