سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
راجہ رام ہوہن رائے (1772-1833) بنگال کے ایک عظیم فلسفی اور سماجی مصلح تھے۔وہ عربی، فارسی، سنسکرت، بنگلہ اور انگریزی کے عالم تھے۔ انہوں نے اسلام اور ہندومذہب کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور تقابلی مذہب پر کئی کتابیں تصنیف کیں اور ہندو مذہب میں پھیلی ہوئی بدعتوں اور غلط عقائد کو دور کرنے کی کوشش کی۔
راجہ رام ہوہن رائے کے مطالعے کا خاص موضوع ویدانت یا اپنشد تھا۔ ویدانت کے گہرے مطالعے کے نیتجے میں انہیں یہ اداراک ہوا کہ ویدانت یا اپنشدوں کا مرکزی پیغام توحید پرستی یا وحدانیت ہے جسے اپنشدوں میں ایکمیو ادویتیم کہاگیا ہے جس کا معنی (وہ ایک ہے اور اس کا کوئی ثانی نہیں)۔ اسی کو عربی میں کہیں گے لاالہ الااللہ۔ اپنشد یا وید بت پرستی کی تلقین نہیں کرتے۔ مگر انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ویدوں اور اپنشدوں کو ماننے والی ہندو قوم بت پرست ہوچکی ہے اور وحدانیت پر یقین رکھنے کی بجائے بہت سے دیوی دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگی ہے۔ انہوں نے بہت ساری رسوم اور عقائد گھڑ لی ہیں جن کا ہندو مذہب کی بنیادی تعلیمات سے دور کا بھی وابستہ نہیں ہے اور جن کا اپنشدوں یا ویدانت میں کہیں ذکر نہیں ہے۔
لہذا، انہوں نے ہندو مذہب لو؛غویات سے پاک کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے نظریاتی اور عملی دونوں سطح پر اقدامات کئے۔۳۹۷۱ ء میں امریکا میں اپنے قیام کے دوران انہوں نے وہاں ویدانت سنیٹر نام کا ادارہ قائم کیاتھا جہاں ویدانت پر تحقیق کی جاتی تھی۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد انہوں نے کلکتہ میں ویدانت کالج قائم کیا۔ اس کالج میں ویدوں اور اپنشدوں کی تعلیم دی جاتی تھی اور یہاں سے فارغ ہوکر نکلنے والے طلبہ مکمل طور پر ویدانتی ہوتے تھے۔اس زمانے میں بنگال میں اپنشدمقامی زبانوں میں دستیاب نہیں تھے اس لئے اس کی توحید پرستانہ تعلیمات اور اس کے فلسفے سے بنگالی عوام واقف نہیں تھے۔ انہیں اپنشدوں کی صحیح تعلیمات سے واقف کرانے کے لئے راجہ رام موہن رائے نے پنشدوں کا بنگلہ میں ترجمہ کیا جو بعد میں انگریزی میں بھی ترجمہ ہوئے۔ چونکہ اس زمانے میں دفتری اور عوامی راطبے کی زبان فارسی تھی اس لئے انہوں نے پہلے فارسی میں ایک کتاب بعنوان تحفتہ الموحدین تصنیف کی جس کا دیباچہ عربی میں لکھا۔ بعد میں اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ A Gift to Monotheists کے نام سے کیاگیا۔ اس کتاب میں راجہ رام مہوہن رائے نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہندو مذیب کی بنیادی کتاب ویداور اپنشد بت پرستی کی حمایت یا تائید نہیں کرتی۔ اس وقت ہندؤں کے عالموں نے اس کتاب کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ راجہ رام موہن رائے اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر بت پرستی کی مخالفت کررہے ہیں۔ جبکہ حقیت یہ تھی کہ رام موہن مسلمان نہیں ہندو تھے ااور ویدوں کی تعلیمات اور اس کے فلسفے کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے تھے۔ اس زمانے میں ایسا نہیں ہے کہ اس دور میں بنگال میں لوگ سنسکرت نہیں جانتے تھے۔ بنگال میں سینکڑوں سمنسکرت پاٹھ شالائیں تھیں مگر ان میں ویدوں یا اپنشدوں کی تعلہیم نہیں دی جاتی تھی بلکہ نیائے، ویاکرن اور کاویہ کی ہی تعلیم دی جاتی تھی۔ ایسے میں بنگالی عوام ویدوں کی تعلیمات سے لا علم تھے۔راجہ رام موہن رائے نے کینا اپنشد، کٹھ اپنشد، ایش اپنشد اور منڈک اپنشد کا ترجمہ بنگلہ میں کیا۔ اور ان ترجموں کی مدد سے پہلی بار بنگال کے ہندو ویدوں اور اپنشدوں کی اصل تعلیمات سے واقف ہوئے۔
۷۱۸۱ء میں رام موہن نے A Defence of Hindu Theism نامی کتاب لکھی۔اسی سال انہوں نے ایک اور کتاب A Defence of the Monotheistic system of the Vedas نامی کتاب لکھی۔ان کتابوں کی مدد سے انہوں نے ہندوؤں میں اس حقیقت کی اشاعت کی کہ ویدوں میں خدا پرستی اور توحید پرستی کی تعلیم دی گئی ہے شرک کی نہیں۔انہوں نے ہندوؤں میں بت پرستی اور شرک کے رواج کے پیچھے وجوہات کو بھی سمجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایش اپنشد کے دیباچے میں اس پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:
”برہموں کا ایک بڑا طبقہ بت پرستی کی لغویات سے اچھی طرح واقف ہے۔ اور ایک خدا کی عبادت کے صحیح طریقے سے بھی آگاہ ہے۔ لیکن چونکہ رسوم اور رواجوں اور پت پرستی پر مبنی تہواروں میں ان کے اپنے مفادات پوشیدہ ہیں اور انکا عیش و آرام ٹکا ہواہے، نہ صرف یہ کہ وہ بت پرستی کو ہر طرح کے حملے سے بچانے سے کبھی نہیں چوکتے بلکہ اپنی پوری طاقت سے اسے فروغ بھی دیتے ہیں اور اس طرح اپنے صحیفوں علم کو اپنے عوام سے چھپاتے ہیں۔“
لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف برہمن پجاریوں کے ایک محدود طبقے ہی نے ہندوؤں میں بت پرستی کو فروغ یدا بلکہ انکے مشہور اور عظیم پنڈتوں نے بھی بت پرستی کی حمایت میں دلائل دئیے اور اسے درست ٹھہرایا۔ مثال کے طور پر عظیم ہندو روحانی رہنما شری رام کرشن نے ایک گفتگو کے دوران فرمایاتھا:
”بت پرستی میں غلط کیاہے؟ خود ویدانت میں کہاگیاہے کہ جہاں بھی وجود، روشنی اور عشق ہوگا وہیں برہما موجود ہوگا۔ لہذا، برہمن کے سوا آفاق میں کچھ بھی نہیں ہے۔“
اس طرح شری رام کرشن کو ویدانت میں ہی بت پرستی کا جواز نظر آیا۔ ہندوؤں کے دیگر بڑے مذہبی عالموں اور روحانی پیشواؤں نے بھی بت پرستی کو درست ٹھہرایا۔ اس لئے بت پرستی ہندوؤں میں رواج پاگئی۔ان کا یقین تھا کہ بتوں پر ارتکاز کے ذریعے نئے مرتاض کو نرگن برہمن کی معرفت حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ آگے چل کر صفات سے عاری معبود حقیقی کی معرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
ویدانت کے عالم اور پنڈت دو فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک فرقے کا عقیدہ ہے کہ ویدانت کا فلسفہ یہ ہے کہ وجود حقیقی صرف ایک ہے اور یہ کائنات صرف ایک وہم (مایا) ہے۔ کائنات اسی وجود حقیقی کا ایک حصہ ہے۔ اسی لئے انسان مراقبے اور ریاضت کے ذریعے سے اس وجود حقیقی میں ٰ ضم ہوکر نجات حاصل کرسکتاہے۔ اس فرقے کو ادویت وادی (وحدت الوجود ی) کہتے ہیں۔ جبکہ دوسرا فرقہ اس بات میں یقین رکھتاہے کہ ویدانت کے مطابق یہ کائنات وجود حقیقی کی تخلیق ہے اور خدا سے الگ اس کی بھی ٹھو س حقیقت یا وجود ہے۔ انسان بھی خدا کی تخلیق ہے اور وہ عبادت و ریاضت کی مدد سے خدا کی معرفت حاصل کرسکتاہے مگر انسان کی حیثیت سے اپنے وجود کو بھی برقرار کھ سکتاہے۔اس فرقے کے افراد یہ کہتے ہیں کہ انسان کی معراج خدا کی عبادت و ریاضت کے بلند مقام کو پالینے میں ہے خدا میں ضم ہوکر خود خدا بن جانے میں نہیں ہے۔ اسی فلسفے کو بنگلہ کے بکھتی وادی شاعر رام پرساد نے اپنے ایک گیت میں ان الفاظ میں بڑی سادگی سے پیش کردیاہے:
چینی ہوتے چائی نا ماں، چینی کھیتے بھالو باشی (ماں میں چینی بننا نہیں چاہتا، چینی کھانا پسند کرتاہوں)
ایک تیسر ا فرقہ ویدانتیوں کا وہ ہے جو فلسفہ وحدت الوجود یعنی ادویت واد میں تو یقین رکھتاہے اور عبادت و ریاضت اور مراقبے کے ذریعے خود کو وجود حقیقی میں ضم کرنے میں یقین رکھتاہے مگر خدا سے اپنے عشق کے ا اظہار کے لئے باوصف خدا ۰سگن برہمن) کے تصور کی حمایت کرتاہے کیونکہ عشق کے اظہار کے لئے اسے اپنے ہی جیسے معشوق کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس لئے وہ معشوق حقیقی کو کرشن، کالی وغیرہ کی شکل میں پرستش کرتاہے۔ اس ا عتقاد کو وشسٹ ادویت واد یا Qualified Monism کہتے ہیں۔
بہرحال، راجہ رام موہن رائے نے ادویت وادی فکر کو مسترد کردیا کیونکہ وہ وحدت الوجود یا ادویت واد کے فلسفے میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ خدا اور مخلوق کو جن میں انسان بھی شامل ہے الگ الگ وجود مانتے تھے اور خدا کے لئے کسی دیوی یا دیوتا کی شکل دینا ویدانت کی روح کے نمافی خیال کرتے تھے ۔ اس لحاظ سے وہ دویت اودی تھے۔ ان کا عقید ہ تھا کہ خدا نے اس کائنات کی تخلیق کی ہے اور اس کائنات کا اپنا ٹھوس وجود ہے۔ ادویت وادی ہندو یہ مانتے تھے کہ کائنات ایک وہم ہے جس کا کوئی ٹھو وجود نہیں ہے۔ اس عقیدے سے رام موہن رائے اختلاف رکھتے تھے۔ قرآن بھی اس عقیدے کی تردید کرتاہے۔قرآن میں خدا کہتاہے کہ ہم نے اس کائنات کو وہم یا غیر غقیقی نہیں بنایا بلکہ اس کا ٹھوس وجود ہے۔ اس لحاظ سے رام موہن رائے اس موضوع پر قرآن میں یقین رکھتے ہیں۔
باالآخر، راجہ رام موہن رائے نے اپنے نظریات کو ٹھو س شکل دینے اور بت پرستی کو ہندو مذہب سے ختم کرنے کے مقصد سے برہمو سماج کی تشکیل کی اور اس کی مذہبی کتاب لکھی۔ برہمو سماج کے مندر میں کوئی بت نہیں ہوتا بلکہ یہاں خدائے واحد کی حمد وثنا گائی جاتی ہے۔اس مذہب میں خدائے واحد کی عبادت و ریاضت کو ہی نجات کا وسیلہ سمجھا جاتاہے۔
اس طرح راجہ رام موہن رائے نے اپنی نظریاتی تحریروں اور عملی اقدامات سے ہندو مذہب میں اصلاح کی کوشش کی اور ہندوؤں میں اپنشدوں کی تعلیمات کی اشاعت کے لئے کئی کتابیں تصنیف کیں۔ انہوں نے بنگال میں ہندو نشاۃ ثانیہ کا آغاز کیا۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/raja-rammohan-roy-brougth-reform/d/119096
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism