سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
30 دسمبر 2021
خدا نے قرآن میں انسانوں
کا ذکر عام طور پر اچھے الفاظ اور پیرائے میں کیاہے۔ اسے زمین پر اپنا نائب اور
خلیفہ بتایاہے۔ جب خدا نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایاتو تمام فرشتوں کو ان کے
آگے سجدہ کرنے کا حکم دے کر تمام مخلوقات پر ان کی برتری کا اعلان کیا۔ قرآن میٰں
خدا کہتاہے کہ ہم نے انسانوں کو تمام مخلوقات میںٰ بہتیرن صورت دی اور تمام
مخلوقات میں اسے سب سے زیادہ عقل عطاکی اور تمام کائنات کو اس کے لئے مسخر کردیا۔اسے نعمتییں عطا کیں
اور اس کی ہدایت کے لئے نبی اور رسول بھیجے۔ اس کے باوجود انسان نے خدا کی
نافرمانی کی، اس کی ناشکری کی ، اس کی دی ہوئی عقل سے کائنات کے رازوں سے پردہ
اٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ سفللی جذبات اور نفسانی خواہشتا کا غلام ہوکر اپنے
معاشرے کو نقصان پہنچایا۔ اس نے دنیا میں فتنہ فساد پھیلایا، معصوم انسانوں کو
مذہبی منافرت سے مغلوب ہوکر موت کے گھاٹ اتارا۔ نسلی امتیاز سے مغلوب ہوکر کسی کو
برتر اور کسی کو کم تر قراردیا۔ نتیجے میں یہ دنیا جہنم کا نمونہ بن گئی جبکہ خدا
نے انسان کو اس ویران زمین پر اس لئے بھیجا تھا کہ وہ اس ویرانے کو جنت بنائے اور
خدا کی دی ہوئی عقل اور حکمت کو کام میںٰ لیکر انسانوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ بنے
۔ لہذا، قرآن میں خدا انسانوں کی انہیں خامیوں اور تخریبی صفات کا ذکر بھی جا بجا
کیا ہے اور اسے اپنی اصلاح کی ترغیب دی ہے ۔
قرآن میں انسان کی جن
خامیوں کا ذکر کیاہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :
انسان ناشکرا ہے
خدا کو انسان سے یہ شکایت
ہے کہ انسان اس کی دی ہوی نعمتتوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا۔ جب اسے خوشحالی،
کامیابی اور سکھ ملتاہے تو وہ اپنی حکمت اور ہنر فخر کرتاہے اور اپنی دانش مندی پر
شیخی بگھارتا ہے اور جب اسے دکھ ہوتاہے ، اپنے اعمال کی وجہ سے ناکامی اور زلت
ملتی ہے تو وہ اسے؛ قسمت پر تھوپ دیتاہے ۔ وہ نہ سکھ اور کامیابی میں خدا کا شکر
ادا کرتاہے اور نہ دکھ اور نقصان میں صبر کرتاہے ۔ اس لئے قرآن کہتاہے :
’’بے شک انسان ناشکراہے ‘‘(الحج:۶۶)
’’بے شک ّدمی اپنے رب کا ناشکراہے ۔‘‘(عادیات: ۶)
قرآن انسانوں کو یہ تعلیم
دیتاہے کہ وہ نعمتوں پر خدا کا شکر ادا کرے اور دکھوں پر صبر کرے کیوں کہ صبر
خداکو بہت پسند ہے اور صبرپر خدا انسانوں
کو بہت بڑا ثواب دینے کی بشارت دیتاہے ۔
انسان دل کا تنگ ہے
قرآن میں خدا انسانوں کی
جس دوسری خامی کا زکر کرتا ہے وہ ہے دل کی تنگی ہے ۔قرآن میں خدا کہتاہے کہ انسان
دل کا تنگ ہے۔
’‘اور انسان دل کا تنگ ہے ۔‘‘(بنی اسرائیل : ۱۰۰)
انسان بحیثیت مجموعی دل کا
تنگ بناہے۔ وہ صرف اپنی خوشی اور اپنے فائدے کی بات سوچتاہے۔ وہ چاہتاہے کہ تمام
اچھی چیزیں صرف اسے حاصل ہوں ۔ دولت۔ عزت۔ کامیابی ، اور دنیا کی دوسری تمام
آشائشیں صرف اسے؛ حاصل ہوں اور وہ دوسروں پر اپنی بڑائی اور برتری پر فخر کرے اور
اپنے آپ کو خدا کا پسندیدہ ثابت کرے۔ اس لئے جب وہ دوسروں کی کامیبای ، عزت عہدہ
اور ؤسائشیں دیکھتاہے تو ان سے حسد کرتاہے اور ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتاہے
۔
انسان سب مخلوقات میں سب
سے زیادہ جھگڑالو ہے
قرآن یہ بھی کہتاہے کہ
انسان کو اللہ نے دنیا میں اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر بھیجا تاکہ وہ خدا کی پیش
کردہ تعلیمات کو دنیا مین پھیلائے اور دنیا کو انسانوں کے لئے ایک مثالی جگہ
بنائے۔ وہ دنیا میں امن و سکون پھیلائے ، لوگوں کو پرامن طرز زندگی کی تعلیم دے،
انسانوں میں بھائی چارہ ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دے اور ان کے اجتماعی فلاح
کے لئے زندگی بھر کام کرے۔ مگر اس کے برعکس انسان نہ صرف یہ کہ خدا کی تعلیمات کو
نظر انداز کرتاہے بلکہ دنیا میں فتنہ فساد پھیلاتا ہے، نسلی اور فرقہ وارانہ
بنیادوں پر خون خرابہ کرتاہے ، نسل اور ذات کی تفریق پیدا کرتاہے اور آپسی تنازعات
کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی بجائے ہر مسئلے کو طاقت کے بل پر حل کرنا چاہتے ہے
۔ نتیجے میں خوان خرابہ فتنہ فساد یہاں تک کہ قتل عام تک کرتاہے ۔اس لئے قرآن
کہتاہے :
’’بنایا آدمی کو ایک بوند سے پھر جبھی وہ ہوگیا جھگڑنے والا بولنے
والا۔‘‘(النحل : ۴)
’’اور ہے یہ ہر چیز سے
زیادہ جھگڑالو۔‘‘(الکہف: ۵۴)
انسان کی اس خونریر فطرت
کی وجہ سے خدا قرآن کہتاہے کہ اکثر اوقات تو وہ معصوم افراد کے قتل عام کر روکنے
کے لئے اسے اپنی قدرت خاص کا استعمال کرنا پڑتاہے ورنہ انسانوں کے تشدد کی وجہ سے
نہ جانے کتتنی عبادت گاہیں تباہ کردی جاتین جن مین خدا کا ذکر ہوتاہے ۔ یہ بات
انسانوں کے لئے انتہائی شرم اور ذلت کی بات ہے کہ انسان تمام مخلوقات میٰں زیادہ
جھگڑالو اور متشدد ہے۔ انسانوں نے دنیا میں جانوروں سے زیادہ خون ریزی کی ہے۔
جانور تو صرف اپنی ضرورت کے لحاظ سے ہی جانوروں کا شکار کرتاہے جبکہ انسان صرف دوسرے
انسانوں پر اپنی نسلی اور مذہبی برتری ثابت کرنے کے لئے نہ صرف دوسرے انسانوں کو
خون کرتاہے بلکہ معصوم بچوں عورتوں اور ضعیفوں کا قتل عام کرتاہے۔
انسان جلد باز ہے
خدا کہتاہے :
’’اور ہے انسان جلد باز۔‘‘(بنی اسرائیل: ۱۱)
’’انسان بناہے جلد باز ‘‘(الانبیا: ۳۷)
خدا نے انسان کو زندگی
میں نظم و ضبط اختیار کرنے اور منصوبہ بند طریقے سے اپنی اور اپنے معاشرے کی فلاح
کے لئے کام کرنے کی صلاح دی ہے اور اس کے لئے مناسب وقتت پر مناسب اقدام کرنے کا
مشورہ دیاہے اور اس کے ثمرات کے لئے ایک خاص وقت تک انظار کرنے کی تلقین کی ہے۔
مگر عام طور پر یہ دیکھا جاتاہے کہ انسان جلد بازی کا ارتکاب کرتاہے اور چاہتاہے
کہ اسے دنیا کی نعمتیں جلد سے جلد مل جائیں۔ وہ صبر نہیں کرپاتا۔ اس بے صبری کی
وجہ سے وہ اپنے اعمال کی جزا پانے یا دنیاوی کامیابی حاصل کرنے لئے غلط طریقے
استعمال کرتاہے۔ حرص و ہوس میں وہ اتنا اندھاہوجاتاہے کہ اسے حلال و حرام کی بھی
تمیز نہین رہ جاتی۔اس کی اس جلد باز فطرت کی وجہ سے کئی سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں
۔
انسان جی کا کچاہے
قرآن کی ایک اور خامی کی
طرف اشارہ کرتاہے
’’اور انسان جی کا کچا ہے ۔‘‘(المعارج: ۱۹)
انسان جی کا کچا ہے یعنی
بہت مضطرب اور بے چین فطرت کا حامل ہے۔ اسے تھوڑی سی تکلیف پر واویلا مچانے لگتاہے
اور کہنے لگتاہے کہ مجھ سے زیادہ تکلیف کسی کو نہین ملی۔ میں ہی دنیا کا سب سے
دکھی انسان ہوں۔خدا مجھے ہی آزمائش میں ڈالتا رہتاہے جبکہ دوسرے لوگ پر وہ ہروقت
مہربان رہتاہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ساری خوشی اور ساری آسائشیں اسے ہی میسرہوں۔
حالانکہ خدا نے اسے عقل اور شعور جیسی نعمتیں عطا کی ہیں مگر وہ بیشتر دنیاوی
معاملوں میں فکری ناپختگی کا ثبوت دیتاہے۔
مندرجہ بالا خامیوں کی
وجہ سے ہی انسانوں نے دنیا میٰں نفرت، فتنہ فساد، کم تر اور برتر، کالے گورے اور
اشراف اور ارذال کی تفریق پیدا کی ہے ۔ ایسا کرکے وہ خود بھی نااآسودہ اور بے چین
رہتاہے اور دوسروں کے لئے بھی مشکلات پیدا کرتاہے۔ اس لئے قرآن میں خد ا بار بار
انسانوں کو ودیعت کی گئی خوبیوں کا استعمال کرکے اپنی سیرت کو سنوارنے اور معاشرے
کو بہتر بنانے کی تلقین کی ہے ۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism