سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
کریم شاہ باوَل فرقے کے بنیادگزار اور لالن فقیر کے پیش رو تھے ۔ وہ پٹھان نسل سے تعلق رکھتے تھے اور ایک بڑے صوفی تھے ۔ وہ 1776ء میں مشرقی بنگال کے سوسنگ پرگنہ میں آکر مقیم ہوئے ۔ وہ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے اس سے متعلق تاریخ کی کتابوں میں کچھ نہیں ملتا ۔ اتنا ضرور کہاجاتاہے کہ وہ ناتھ پنتھ کی ایک شاخ پاگل پنتھی کے ایک صوفی تھے اور غالبا ً شمالی ہند سے آکر مشرقی بنگال کے مظلوم و بے سہارا قبائلیوں اور جاہل مسلمانوں میں سماجی اور مذہبی اصلاح کا کام کیا ۔ انہوں نے یہاں کے ہاجونگ اور گارو قبایلیوں کو منظم و متحد کیا اور ہندووَں او رمسلمانوں کے نچلے طبقے میں مساوات کی بنیاد پر اتحاد قائم کیا اور انہیں انگریزوں اورجاگیرداروں کے استحصال کے خلاف بغاوت کے لئے بیدار کیا ۔ وہ ایک صوفی تھے مگرانگریز مخالف تھے ۔ وہ جب مشرقی بنگال کے میمن سنگھ علاقے میں آئے اس وقت یہاں کے مسلمانوں میں بھی اسلامی شریعت سے ناواقفیت عام تھی اور وہ مختلف قسم کے رسوم اور عقائد میں گرفتار تھے ۔ اس کے علاوہ انگریزوں اور زمینداروں کے استحصال کے تلے وہ معاشی طور پر بہت پریشان تھے ۔
کریم شاہ مشرقی بنگال میں جب آئے اس وقت یہاں انگریزوں نے قدم جمالئے تھے ۔ سراج الدولہ کی نوابی کا خاتمہ ہوچکاتھا اور کمپنی کو بنگال پر قبضہ حاصل ہوچکاتھا ۔ کمپنی نے ہندوستانی زمینداروں کو اجارہ داری دے دی تھی اور ان سے بڑی رقم خراج کے طور پر وصولتے تھے اور اس کے بدلے انہوں نے اجارہ داروں کو یہ اجازت دے دی تھی کہ وہ کسانوں سے من مانا ٹیکس وصول کریں ۔ نتیجے میں اجارہ داروں نے ایک سو روپئے میں دس روپئے ٹیکس لگادیاتھا جس کی وجہ سے کسانوں کو فاقہ کشی کی نوبت آگئی تھی ۔ وہ دن میں صرف ایک وقت کا کھانا کھاتے تھے ۔ اس پر ستم یہ کہ اگر ایک سال قحط ہوتاتھا تو دوسر ے سال بقایا ٹیکس بھی دینا پڑتاتھا ۔
انگریزوں اور اجارہ داروں کے اس ظلم و ستم سے مشرقی بنگال کے کسانون میں غم و غصہ اور بغاوت کے جذبات پرورش پارہے تھے ۔ اور انہوں نے وقتا فوقتا اس ظلم کے خلاف بغاوت بھی کی ۔ 1770ء میں بنگال میں جو بھیانک قحط ہواتھا اس کی وجہ یہی استحصال اور ظلم تھا ۔ اس سے قبل 1763ء میں اس علاقے کے سنیاسیوں اور فقیروں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کردی تھی ۔ سنیاسیوں اور فقیروں نے ڈھاکہ میں واقع انگریزوں کے قلعہ پر حملہ کردیاتھا ۔ یہ واقعہ ہندوستان کی تاریخ میں بے نظیر تھا ۔ سنیاسیوں اور فقیروں کی یہ جنگ سو سال تک جاری رہی ۔ اور اس جنگ میں کریم شاہ اور اس کے بیٹوں نے اہم رول ادا کیا ۔
لہذا، جب کریم شاہ مشرقی بنگال کے سوسنگ پرگنہ (میمن سنگھ ) علاقے میں آکر سکونت پذیر ہوئے تو انہوں نے دبے کچلے ہوئے عوام کو متحد اور منظم کیا ۔ انگریزون کے خلاف انہیں متحد کرنے کے لئے ا انہوں یہاں کے باشندوں میں مذہبی طور پر اتحاد قائم کیا اور اس کے لئے انہوں نے ہندووَں اور مسلمانوں میں مساوات کے پیغام کو عام کیا ۔ انہوں نے یہ پیغام دیا کہ ہندو ہو یا مسلمان سبھی ایک خدا کی تخلیق ہیں اس لئے انسانوں میں کسی بھی قسم کا بھید بھاوَ روا نہیں اور انہیں یکساں مواقع حاصل ہونے چاہئیں ۔ انہوں نے اس مقصد کے تحت اپنے پاگل پنتھی مذہب کو ترک کردیا اور ایک نئے مذہبی فرقے کی بنیاد ڈالی جس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے ۔ انہوں اس مذہب کو باوَ ل کا نام دیا ۔ اس مذہب میں اسلام کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھا گیا جیسے روزہ ، ذکروغیرہ ۔ اس کے علاوہ اس مذہب میں چھتری ، عورتوں کے لئے سیندور، عیب جوئی ، کھڑاؤں اور پالکی کا استعمال ممنوع تھا ۔ تمام فرقے کے لوگ ایک ساتھ کاکھانا کھاتے تھے اور سبھوں کو یکساں حقوق حاصل تھے ۔ کریم شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ زمین خدا کی ملکیت ہے اس لئے اس پر کسی کا مالکانہ حق نہیں ہوسکتا ۔ اس لئے زمینداروں کا زمین پر حق نہیں ہے ۔ انہیں اس کا ٹیکس بھی واجب نہیں ہے ۔ زمینداروں کے ظلم سے بے حال کسانوں اور قبائلیوں کو کریم شاہ کے فرقے کے یہ اصول دل کو چھوگئے کیونکہ یہ اصول انہیں صدیوں کے ظلم اور استحصال سے نجات دلانے والے تھے اس لئے جوق در جوق ہاجونگ اور گارو قبائلی ان کی مریدی اختیار کرکے ان کے فرقے میں شامل ہوگئے اور ایک بڑی طاقت بن گئے ۔ کریم شاہ نے ان قبائلیوں کو لیکر ایک فوج بھی قائم کی ۔ اس فوج کی مدد سے انہوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت بھی کی ۔ انگریزوں نے اس بغاوت کو پاگل پنتھی بغاوت کا نام دیا ۔
کریم شاہ شاعر بھی تھے اور انہوں نے اپنے گیتوں کے ذریعہ مساوات اور مذہبی رواداری کے پیغام کو عام کیا ۔ وہ صوفی بھی تھے اور ان سے کئی کرامات بھی منسوب ہیں ۔ ان کے متعلق کہاجاتاہے کہ وہ کھڑاؤں پہن کر دریا پارکرجاتے تھے اور آگ میں ان کا بدن نہیں جلتاتھا ۔ وہ بیماریوں کا علاج بھی اپنی روحانی قوت سے کرتے تھے اور ان کے مکان پر ہاجونگ ، گارو اور مسلمان مریضوں کا تانتا بندھا رہتاتھا ۔
کریم شاہ کی ماتحتی میں 1802ء سے ہاجونگ ا ور گارو قبائل میں سماجی اور سیاسی بیداری کی لہر اٹھی اور اس نے اس علاقے میں انگریزی حکومت کی چولیں ہلادیں ۔ کریم شاہ نے ان قبائلیوں اور مسلمانوں کو باوَل فرقے کے تحت مساوات اور بھائی چارگی کے پیغام کے ذریعہ متحد کیا اور لاکھوں کی تعداد میں دبے کچلے عوام انکے ہاتھوں پر بیعت ہوکر سماجی اور مذہبی عدم مساوات اور استحصال کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ۔
کریم شاہ 17775ء میں مشرقی بنگال کے سوسنگ پرگنہ میں آئے اور کئی علاقوں کا دورہ کیا اور سالکونا نام کی جگہ پر اپنا آستانہ بنایا ۔ یہیں انہوں نے معرفت حاصل کی یہ جگہ شیر پور میں تھی ۔ یہاں انہین 1807ء میں شیر پور کے زمیندار نے کچھ زمین عطیہ کی جس پر انھوں نے آستانہ تعمیر کیا اور یہیں وہ اپنے بیٹے ٹیپو گارو کو اپنے نئے مذہب کی اشاعت کے لئے مختلف مقامات پر بھیجا ۔
کچھ روایتوں کے مطابق کریم شاہ باہر سے نہیں آئے تھے بلکہ شیر پور کے پٹھا ن زمیندار شیر علی شاہ گازی کے بیٹے تھے ۔ شیر پور کے ہندو زمیندار وں اور اپنے ہندو ملازموں کی سازش میں شیر علی شاہ گازی معزول ہوگئے اور مارے گئے اور کریم شاہ نے اپی والدہ کے ساتھ بھاگ کر سوسنگ میں پناہ لی ۔
مگر یہ روایت مستند نہیں معلوم ہوتی اور کریم شاہ کو مقامی ثابت کرنے کی ایک کوشش کا حصہ معلوم ہوتی ہے ۔ دفتری دستاویز ات کے مطابق کریم شاہ شیر پور اور سات سکہ کے علاقے کے عوام میں غلط رسوم و رواج اور جاہلانہ طور طریقے دیکھ کر یہان آستانہ بنایا اور خود سماجی مصلح اور نجومی کی حیثیت سے یہاں مشہور ہوئے ۔ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ انہوں نے اپنے پچھلے مذہب کو ترک کرکے وحد ت الوجودی ہوگئے ہیں اور اس علاقے کے لوگوں کی فلاح کے لئے ایک مفید مذہب کی تشکیل کی ۔ کریم شاہ کے مطابق خد ا کے سوائے اور کسی کے آگے سرجھکانا اور خدا کی سلطنت میں کسی کو بھی مساوی حقوق سے محروم نہ کرنا ہی اصل مذہب ہے ۔ اس طرح و ہ ایک ذات نسل اور رنگ کے امتیاز سے بالاتر ایک مثالی سماج کی تشکیل کرنا چاہتے تھے ۔
پاگل پنتھی درویش دراصل اسلامی طریقہ ریاضت یعنی ذکر وغیرہ کے ساتھ ہندو یوگ سادھنا پر مبنی جسمانی ریاضت بھی کرتے تھے اس لئے انہیں ہٹھ یوگی کہاجاتاہے ۔ ناتھ پنتھ کی ایک شاخ پاگل پنتھی سے مسلم درویش بھی وابستہ ہوتے تھے اور اسی پاگل پنتھی فرقے سے کریم شاہ یا کرم شاہ وابستہ تھے ۔ اور شمالی ہند سے ہجرت کرکے کسی وجہ سے وہ مشرقی بنگال کے میمن سنگھ آئے اور یہاں کے مسلمانون اور ہندووَں میں اصلاحی تحریک شروع کی اور انہیں متحد کرنے کے لئے انہوں نے پاگل پنتھی فرقے کو ترک کرکے باوَل فرقے کو جنم دیا ۔
اس فرقے کے لئے کریم شاہ نے جو قوانین مرتب کئے ان میں جہیز نہ لینا ، جھوٹ نہ بولنا ، عیب جوئی نہ کرنا اوعر خدا کے سوا کسی کے وَگے سر نہ جھکانا اور تمام لوگوں کے مساوی حقوق اہم تھے ۔
کریم شاہ نے مشرقی بنگال میں جاہل اور مظلوم اور فرقوں میں بٹے ہوئے عوام میں سماجی ، مذہبی اور سیاسی بیداری کی تحریک شروع کی انہوں نے اس علاقے کے عوام کو استحصال ، سرمایہ داروں اور زمینداروں اور اونچے طبقے کے ظلم کے خلاف نچلے طبقے کو بغاوت کے لئے تیار کیا ۔ اور مساوات اور رواداری پر مبنی ایک نئے سماج کی تشکیل کے لئے فضا ہموار کی جس کی بنیاد پر وَگے چلکر لالن فقیر نے باوَل فرقے کو ایک منظم اور متحد فرقے کی صورت میں استحکام بخشا اور اسے فلفیانہ اور نظریاتی اساس عطاکی ۔
انہوں نے ناتھ پنتھ کی ایک شاخ پاگل پنتھی کو ایک بڑے کاز کے لئے ترک کرکے اس میں کچھ نئے اصول و ضوابط کا اضافہ کیا اور اور اسے نئے دور کے سیاسی و سماجی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا ۔ اور اسے دبے کچلے عوام کے لئے قابل قبول بنادیا ۔ انہوں نے ایک سچے مجاہد کی طرح باوَل فرقے کو ایک passive group نہیں بلکہ اسے ایک سماجی طور پر متحرک گروپ بنادیا جو نہ صرف روحانی اور اخلاقی اصلاح پر زور دیتاتھا بلکہ ظلم و استحصال کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے کا پیغام دیتاتھا ۔ اس طرح انہوں نے کمزور عوام کو روحانی اور اخلاقی سطور پر ایک طاقتور طبقہ بنادیا جس نے انگریز سامراج کے ایوانوں میں زلزلہ پیداکردیا ۔ اور فقیروں اور درویشوں کو طالم سامراج کے خلاف صف آرا کردیا ۔
مختصر طور پر یہ کہاجاسکتاہے کہ کریم شاہ نے مشرقی بنگال میں باوَل فرقے کو جنم دیا جس کو آگے چلکر لالن فقیر نے ایک منظم فرقے کی شکل میں فروغ دیا اور اپنے ہزاروں گیتوں کی مدد سے باوَل فرقے کو ایک نظریاتی بناید عطا کی۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/karim-shah-social-reformer-18th/d/118888
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism