New Age Islam
Sun Jan 26 2025, 05:58 PM

Urdu Section ( 23 Apr 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Is the prophet light or human being? A study in the light of the Quran پیغمبر نور ہیں یا بشر۔۔۔۔قرآن کی روشنی میں

 سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام 

اللہ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے ۔ وہ سارے ابنیاء اوررسول اللہ کے چنیدہ اور پسندیدہ شخص تھے جو بلند اخلاق و کردار کے مالک تھے ۔ اللہ نے دنیا کے ہر فرقے کی ہدایت کے لئے اسی فرقے میں سے نبی پیدا فرمایا۔ دنیا میں کوئی فرقہ یا علاقہ ایسا نہیں جہاں اللہ نے اسی میں سے ایک نبی یا رسول پیدا نہیں کیا۔ قرآن کی کئی آیتیوں میں اس بات کا اعلان موجود ہے :

(۱) ’’اور ہر فرقہ کے لئے ایک رسول ہے ۔‘‘ ( یونس : 47)

(۲) ’’ اور ہرقوم کے لیے ہواہے راہ بتانے والا۔‘‘ ( الرعد : ۷)

(۳) ا ور کوئی فرقہ نہیں جس میں نہیں ہوچکا ڈر سنانے والا۔‘‘ ( فاطر : 24)

تمام انبیاء کرام نے اپنی قوم و بت پرستی ، شرک اور اخلاقی و سماجی برائیوں سے روکنے کی کوشش کی ۔ نتیجے میں ان کی قوم نے ان کی مخالفت کی کیونکہ وہ اپنے آبا و جداد کے دین بت پرستی اور شرک کو چھوڑنے کو راضی نہیں تھے ۔ انبیا کرام کے دین اور پیغام کی مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ بھی بشر تھے اور اسی سماج کا حصہ تھے ۔ جب بھی کوئی بنی اپنی قوم سے کہتا کہ میں اللہ کا بھیجا ہوا بنی ہوں اور مجھے حکم ہواہے کہ تمہیں توحید کی تعلیم دوں اور بت پرستی و شرک سے روکوں تو ان کی قوم کے لوگ تعجب کرتے کہ انہی کے جیسا ایک بشر اللہ کا نبی یا رسول کیسے ہو سکتاہے جو انہی کی طرح کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں پھرتاہے۔ اگر وہ نبی ہیں تو ان کے ساتھ فرشتے کیوں نہیں چلتے اور وہ وضع قطع اور سماجی رتبے میں ان سے مختلف کیوں نہیں ۔ جبکہ قرآن ان کے متعلق کہتاہے :

’’ یہ وہ لوگ ہیں جن پر انعام کیا اللہ نے پیغمبروں میں آدم کی اولادمیں اور ان میں جن کو سوار کرلیا ہم نے نوح کے ساتھ اور ابراہیم کی اولاد میں اور اسرائیل کی اور ان میں جن کو ہم نے ہدایت کی اور پسند کیا۔‘‘ ( مریم : 58)

بت پرستی اور شرک کو صحیح دین سمجھنے والوں کو یہ سن کر تعجب ہوتاتھا کہ پوری کائنات کا مالک ایک اللہ کی ذات ہے ۔ا ن کا عقیدہ اس بات پر تھا کہ اس کائنات کے مختلف محکمے مختلف دیوی دیوتاؤں کے ماتحت ہیں ۔ بارش کا دیوتا الگ تھا، تو آگ کا دیوتا الگ، بیماری سے شفا کا دیوتا الگ تھا تو مصیبتوں سے نجات کا دیوتا الگ۔ علم دینے والا دیوتا الگ تھا اور جنگ کا دیوتا الگ تھا ۔ لہذا، جب خدا کے بھیجے ہوئے رسول ان سے کہتے کہ کائنات کا خالق و مالک اور قادر مطلق ایک ہے اور اس لئے صرف وہی لائق پرستش ہے اور تمہارے یہ جھوٹے دیوی اور دیوتاکوئی قدرت نہیں رکھتے تو وہ حیر ت و استعجاب میں ڈوب جاتے تھے ۔

’’ اور تعجب کرنے لگے اس بات پر کہ آیا ان کے پاس ایک ڈر سنانے والا انہی میں سے اور کہنے لگے منکر یہ جادوگر ہے جھوٹا۔ کیا اس نے کردی اتنوں کی بندگی کے بدلے ایک ہی کی بندگی ۔ یہ بھی ہے بڑے تعجب کی بات۔ ‘‘ ( ص : ۴۔۵)

ایک دوسری آیت میں بھی اسی موضوع کو اسی طرح بیان کیاگیاہے ۔

’’کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ وحی بھیجی ہم نے ایک مرد پر ان میں سے یہ کہ ڈر سنادے لوگوں کو اور خو ش خبری سنادے ایمان لانے والوں کو کہ ان کے لیے پایہ سچاہے اپنے رب کے یہاں ۔‘‘ (یونس ۔ ۲)

لہذا، جب انبیاء کرام انہیں بت پرستی و شرک سے باز رکھنے کی کوشش کرتے اور اللہ کی پرستش کی تلقین کرتے تو کفار رسولون کی مخلافت پر اتر آتے ۔یہی تمام بنیون کے ساتھ ہو، یہی نوح علیہ السلام کے ساتھ ہوا اور حضرت محمد ﷺ کے ساتھ بھی ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے سرداروں نے کہا۔

’’پھر بولے سردار جو کافر تھے اس کی قوم کے ہم کو تو تو نظر نہیں آتا مگر ایک عام آدمی جیسا ۔‘‘ (ھود : 27)

حضرت نوح علیہ السلام کا جواب تھا ۔

’’ اور میں نہیں کہتا تم کو کہ میرے پاس خزانے ہیں اللہ کے اور نہ می خبر رکھوں غیب کی اور نہ کہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ اور نہ کہوں گا کہ جو لوگ تمہاری آنکھ میں حقیر ہیں نہ دے گا ان کو اللہ بھلائی ۔‘‘ ((ھود : 31)

حضرت شعیب علیہ السلام کے ساتھ بھی ان کی قوم کا سلوک وہی تھا جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی قوم کا تھا۔ جب حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو شرک و بت پرستی سے باز رہنے کی تلقین کی اور انہیں ناپ تول میں بے ایمانی کرنے سے منع کیا تو انکی قوم نے بھی ان سے یہی کہا کہ ہمیں تو تو ایک کمزور شخص نظر آتاہے اور ہماری نگاہ میں تیری کوئی اہمیت نہیں ۔ اگرہمیں تیرے عزیزوں اور رشتہ داروں کا پا س نہ ہوتا تو ہم تجھے سنگسار کردیتے ۔

’’بولے اے شعیب ہم نہیں سمجھتے بہت باتیں جو تو کہتا ہے اور ہم تو دیکھتے ہیں توہم میں کمزور ہے ۔ اور اگر نہ ہوتے تیرے بھائی بند تو ہم تو تجھے سنگسار کردیتے اور ہمارے نگاہ میں تیری کوئی عزت نہیں ۔‘‘ (ھود : 91)

(۱) ’’عالم الغیب ‘‘ (سبا: ۴)

(۲) عالم الغیب و الشہادۃ العزالحکیم ۔ ( التغابن : 18)

(۳) سب خوبی اللہ کی ہے جس کاہے جو کچھ کہ ہے آسمان اور زمین میں اور اسی کی تعریف ہے آخرت میں اور دوہی ہے حکمتوں والا سب کچھ جاننے والا۔ جانتاہے جو کچھ کہ اندر گھستاہے زمین کے اور جو کچھ کہ نکلتاہے اس سے اور جو اترتا ہے آسمان سے اور جو چڑھتا ہے اس میں ۔ اور وہی ہے رحم والا بخشنے والا ۔ ‘‘ (سبا: ۲۔۳)

اللہ اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتاہے اپنے علم سے ایک ادنی سا حصہ عطا کردیتاہے ۔ کفار اور یہودی بھی حضرت محمد ﷺ سے ان کے علم کا امتحان لینے کے لئے ان سے طرح طرح کے سوال کرتے تھے مثلاً وہ سوال کرتے تھے کہ اگر آپ نبی ہیں اور اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں تو بتائیے کہ قیامت کب آئیگی یا یہ کہ روح کیاہے ؟

اللہ نے فرمایا ۔

’’اور تجھ سے پوچھتے ہیں روح کو کہہ دے کہ روح ہے اپنے رب کے حکم سے ۔ا ور تم کو علم دیاہے تھوڑا سا ۔ ‘‘ (بنی اسرائیل : 85)

اسی طرح قیامت کے متعلق سوال پر قرآن میں اللہ کہتاہے ۔

’’ (۱) لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں قیامت کو تو کہہ دے اس کی خبر ہے اللہ ہی کے پاس اور تو کیا جانے وہ گھڑی پاس ہی ہو۔ ‘‘ (الاحزاب ۔63)

(۲) ’’ تو کہہ میں نہیں جانتا کہ نزدیک ہے جس چیز (قیامت ) کا تم سے وعدہ ہواہے یا کردے اس کو میرا رب ایک مدت کے بعد ، جاننے ولا غیب کا سو نہیں دیتا خبر اپنے غیب کی کسی کو مگر جو پسند کرلیا کسی رسول کو تو وہ چلاتاہے اس کے آگے اور پیچھے چوکیدار تاکہ جانے کہ انہوں نے پہنچائے پیغام اپنے رب کے ۔‘‘(الجن : 25.28)

مندرجہ بالا آیتوں سے واضح ہے کہ اللہ نے غیب کا علم اپنے چنیدہ رسولوں کو ہی بقدر ضرورت وحی کے ذریعہ عطا کیا اور پھر رسولوں کے ساتھ فرشتوں کو نگہبان کردیا تاکہ اس وحی میں شیطان دخل نہ دے سکے اور اللہ کا پیغام پوری صحت کے ساتھ عوام تک پہنچ جائے ۔

قرآن میں اللہ حضرت محمد ﷺ سے کہتاہے ۔

’’تو کہہ میں کچھ نیا رسول نہیں آیا اور مجھکو نہیں معلوم کیا ہونا ہے مجھ سے اور تم سے ۔ میں اسی پر چلتاہوں جو حکم آتاہے مجھ کو اور کام یہی ہے ڈر سنا دینا کھول کر۔ ‘‘ (الاحقاف : ۹)

کفار تعجب کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے کھانا کھاتاہے اور ضروریات زندگی کے لئے بازاروں میں پھرتاہے ۔

’’اور کہنے لگے یہ کیسا رسول ہے کھاتا ہے کھان اور پھرتا ہے بازاروں میں ۔‘‘ (الفرقان : ۷)

اللہ ان کے اعتراض کا جواب اس طرح دیتاہے

’’اور جتنے بھیجے ہم نے تجھ سے پہلے رسول سب کھاتے تھے کھانا اور پھرتے تھے بازاروں میں ۔‘‘ (الفرقان ۔ 20)

اسی طرح اللہ نے رسول ﷺ کو پچھلی قوموں کا حال انسان کی عبرت کے لئے بتایا۔ ان قوموں کا حال انسان کو نہیں معلوم تھا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی بد اعمالیوں اور نافرمانیوں کا حال اور حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ان کی شرانگیزیوں اور پھر انکی تباہی کا حال تفصیل سے بتانے کے بعد اللہ حضور پاک ﷺ سے فرماتاہے ۔

’’ یہ باتیں ہیں منجملہ غیب کی خبروں کے ہیں کہ ہم بھیجتے ہیں تیری طرف۔ تجھکو ان کی خبر تھی اور نہ تیری قوم کو اس سے پہلے ۔‘‘ (ھود: 49)

ایک دوسری آیت میں بھی اللہ رسول پاک سے کہتاہے

’’تو کہہ میں بھی ایک بشر ہوں جیسے تم ۔ حکم آتا ہے مجھکو کہ معبود تمہارا ایک معبود ہے ۔‘‘ ( الکہف : 110)

ایک دوسری آیت میں بھی قرآن غیب کے علم کا مالک صرف اللہ کو قراردیتاہے

’’اورکہتے ہیں کیوں نہ اتری اس پر ایک نشانی اسکے رب کی طرف سے تو کہہ دے غیب کی بات اللہ ہی جانے ، سو منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتاہوں ۔‘‘ ( یونس : 20)

حضور پاک ﷺ سے قبل حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ نہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں نہ میرے پاس غیب کا علم ہے اور نہ میں فرشتہ ہوں ۔ا سی طرح حضور پاک ﷺ سے بھی اللہ نے قرآن میں کہا کہ وہ اپنی قوم کے سامنے اعلان کردیں۔

’’تو کہہ میں نہیں کہتا تم سے کہ میرے پاس ہیں خزانے اللہ کے اور نہ میں جانوں غیب کی بات اور نہ میں کہوں کہ میں فرشتہ ہوں ۔ میں تو اسی پر چلتاہوں جو میرے پاس حکم اللہ کا آؔ تاہے ۔‘‘ (الانعام : 50)

قرآن میں بارہا اللہ کو علیم اور حکیم کہاگیاہے جس کا مطلب ہے کہ تمام علم و حکمت کا مالک صرف اللہ ہے ۔

’’اور اسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی کہ ان کو کوئی نہیں جانتا اللہ کے سوا۔ ‘‘ (الانعام : 59)

قرآن میں اللہ کے عالم الغیب ہونے اور نبیوں کے رتبے کے متعلق کئی مقامات پر کھول کر بیان کردیاگیاہے جس کے بعد کسی سبہ یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ۔ اللہ رسول ﷺسے کہتاہے ۔

’’تو کہہ سبحان اللہ میں کون ہوں مگر ایک بشر ہوں بھیجا ہوا ۔‘‘ (بنی اسرائیل : 93)

قرآن اللہ کے عالم الغیب ہونے کی تائید ا س آیت میں بھی کرتاہے ۔

’’اور اللہ نے اتاری تجھ پر کتاب اور حکمت اور تجھکو سکھائیں وہ باتیں جو تو نہ جانتاتھا ۔‘‘(النسا ء: 113)

غیب کا علم اللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی دیا تھا ۔ حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’اور بتادیتاہوں تم کو جو کھا کر آؤ اور جو رکھ آؤ اپنے گھر میں ۔‘‘(آل عمران : 49)

حضرت محمد ﷺ کو خدا نے کتاب اور علم و حکمت عطا کی ۔ حضور پاک ﷺ نے خدا کے عطاکردہ علم کی بدولت نے شمار پیش گوئیاں کیں اور اللہ کے حکم سے پچھلی قوموں کے احوال سنائے تاکہ مسلمان رہتی دنیا تک ان کے حالاست سے عبرت حاصل کرتے رہیں ۔ اللہ کے قادرالمطلق ہونے ایک صفت یہ بھی ہے وہ عالم الغیب ، علیم اور حکیم ہے یعنی تمام علم پر اس کی اجارہ داری ہے اور وہ اپنے علم کا کچھ حصہ رسولوں کو بقدر ظرف عطا کردیتاہے ۔ اس سے رسولوں کے رتبے ، ان کی عظمت و تقدس پر اور ن کے درجہ نبوت پر ذرہ برابر فرق نہیں پرتا۔اللہ کو یہ پسند نہیں کہ مسلمان اس کی قدرت اور علم میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ اس لئے اس نے کئی مقامات پر اپنے رسولوں ہی کی زبان سے کہلوایا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے بنی اور بشر ہیں اور انہیں غیب کا علم نہیں ۔ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے ۔ اور وہ اپنے برے بھلے کے مالک نہیں ہیں ۔

’’تو کہہ میں نہیں مالک اپنے واسطے برے کا نہ بھلے کا مگر جو اللہ چاہے ۔‘‘ ( یونس : 49)

’’تو کہہ میں بھی بشر ہوں جیسے تم ۔ حکم آتاہے مجھکو کہ تم پر بندگی ایک حاکم کی ہے ۔‘‘ (حم السجدہ : ۵۔۶)

ان کھلی ہوئی آیتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ کو ہے اور جتنے ابنیاء کرام آئے وہ بشر تھے جیسا کہ قرآن باربار کہتاہے ۔ نور خدا کی صفت ہے ۔قرآن کہتاہے کہ اللہ زمین اور آسمان کا نور ہے ۔

اللہ نور السموٰات والارض

لہذا، اللہ نے قرآن میں رسولوں کے رتبے کے متعلق واضح آیتیں اتاریں تاکہ ایمان والے انبیاء کرام کے صحیح مرتبے کو پہچانیں اور ان کے رتبے سے متعلق مبالغے سے بچیں ۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-prophet-light-human-being/d/115016


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..