سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
قرآن جو تقریبا آٹھ سو صفحات اور ایک سو چودہ سورتوں پر مشتمل آسمانی کتاب ہے خدا کا ایک معجزہ ہے ۔ اس میں صرف مذہبی احکام اور اخلاقی تعلیمات کا ہی بیان نہیں ہے بلکہ اس میں نو ع انسانی کی ذہنی اور فکری تربیت کے لئے تمام ضروری مواد موجود ہے ۔ نوع انسانی مذہبی امور پرصحیح طور پر کاربند ہوسکتاہے جب اس کی صحیح ذہنی و فکری تربیت ہو۔ لہذا، قرآن نے تمام شعبہ ء انسانی کے معاملات کو بڑی فصاحت اور معنویت کے ساتھ بحث کی ہے ۔ قرآن نے روحانیت پر جس طرح سے بحث کی ہے اسی طرح سائنس اور تاریخ پر بھی اتنی ہی جامعیت کے ساتھ بحث کی ہے ۔
تاریخ کا مطالعہ مفکرین اور دانشوروں کی نگاہ میں ہمیشہ کافی اہمیت کا حامل رہاہے ۔ تاریخ کو نسل انسانی کا حافظہ کہاگیاہے ۔ نوع انسانی تاریخ سے عبرت و دانش حاصل کرتاہے اور اس کی روشنی میں مستقبل کے لئے لائحہ ء عمل مرتب کرتاہے ۔ تاریخ صرف بادشاہوں کے عروج و زوال کی کہانی نہیں ہے بلکہ قوموں کے عروج و زوال کی بھی کہانی ہے اور ان کی کہانی کے وسیلے سے انسانوں کی سیاسی، سماجی اور فکری تربیت کی گئی ہے ۔
قرآن نے بھی انسانی تاریخ کے اہم ابواب اور واقعات کو کافی اہمیت دی ہے ۔ قرآن میں جہاں بادشاہوں کے کارناموں اور ان کی بد اعمالیوں کا ذکر جامعیت کے ساتھ کیاہے وہیں اس نے قوموں کے عروج و زوال اور ان کمزوریوں اور مثبت باتوں کو بھی نشان زد کیاہے تاکہ آنے والی نسلیں ان کی بد اعمالیوں کی پاداش میں ان کی ہلاکت سے عبرت حاصل کریں اور ان کی خوبیوں کو اپناکر نسل انسانی کو خوشحالی اور ترقی کی راہ میں آگے لے جائیں ۔تاریخ کی اہمیت و افادیت پر ڈاکٹر محمد منور مورخ البدر حسین ا لاھدل کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں :
’’یہ (تاریخ ) بڑا مفید علم ہے ۔ اس کے ذریعہ خلف کو سلف کے حالات معلوم ہوتے ہیں اور راست باز لوگ ظالموں سے ممتاز ہوجاتے ہیں ۔ مطالعہ کرنے والوں کو فائدہ ہوتاہے کہ وہ عبرت حاصل کرتاہے اور گزشتہ لوگوں کی عقل و دانش کی قدر پہچانتاہے اور بہت سے دلائل کا پتہ لگالیتاہے ۔ اگر یہ علم نہ ہوتا تو تمام حالات ، مختلف حکومتیں ، حسب و نسب اور سبھی علل و اسباب نامعلوم رہے اور جاہلوں اور عقل مندوں کے مابین تمیز ہی باقی نہ رہی ۔ چنانچہ مشہور ہے کہ اللہ تعالی نے تورات کی ایک پوری کتاب ایسی اتاری ہے کہ جس میں گزشتہ لوگوں کے حالات اور انکی زندگی کی مدت اور نسب کا بیان ہے ۔‘‘(ؓبرہان اقبال از محمد منور ، اقبال اکادمی ، پاکستان)
قرآن نے ماقبل تاریخ کے ایسے کئی اہم واقعات کا ذکر کیاہے جن کا ذکر انسانی تاریخ میں نہیں ملتا۔ قرآن میں خود اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ہم نے تمہیں گزشتہ قوموں کے احوال بتائے ہیں جن کو تم اس سے پہلے نہیں جانتے تھے ۔ ان واقعات کوصرف آسمانی صحیفوں توریت ، انجیل اور قرآن ہی میں بیان کیاہے تاکہ انسان ان سے عبرت اور دانش حاصل کریں ۔ گزشتہ قوموں کا بیان صرف تفریخ کے لئے نہیں بلکہ انسان کی تربیت کے لئے ہواہے ۔
آثار قدیمہ گزشتہ قوموں کے باقیات ہیں جن سے تاریخی واقعات کی تصدیق ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے آثار قدیمہ کی اہمیت بھی اتنی ہی ہے جتنی کہ تاریخ کی ۔ آثار قدیمہ تاریخ کا ہی حصہ ہیں ۔ تاریخ تو گزشتہ قوموں کی زبانی یا تحریری بیان ہے جبکہ آثار قدیمہ گزشتہ قوموں اور افراد کے واقعات کی طبعی طور پر تصدیق کرتے ہیں ۔ لہذا، آثارقدیمہ کی حفاظت اتنی ہی ضروری ہے جتنی کی تاریخ کی صحت کی ۔
قرآن میں گزشتہ قوموں کی باقیات اور آثار قدیمہ کی سیر ، ان پر تحقیق اور ان کے مطالعہ کو دینی فریضہ قرار دیاہے کیونکہ آثار قدیمہ اور تاریخ بھی دینی تعلیمات کا ایک وسیلہ ہیں ۔ قرآن کئی موقعوں پر انسانوں سے آثار قدیمہ اور گزشتہ قوموں کی باقیات کی سیر کرنے اور ان کا مطالعہ کرنے کی ہدایت کرتاہے ۔
’’تو کہہ پھرو ملک میں تو دیکھ کیسا انجام ہوا پہلوں کا بہت ان میں تھے شرک کرنے والے ۔ ‘‘ ( الروم : 42)
’’ہوچکے ہیں تم سے پہلے واقعات سو پھرو زمین مین اور دیکھو کہ کیساہوا انجام جھٹلانے والوں کا۔ ‘‘ (آل عمران : 137)
’’پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو نجات دی اور کشتی کو اہل عالم کے لئے نشانی بنادیا۔ ‘‘ (اعنکبوت : 15)
قرآن میں گزشتہ قوموں کی اور بھی کئی نشانیوں اور باقیات کا ذکر کیاہے اور ان کو دیکھنے اور اان سے عبرت حاصل کرنے کی تلقین کی ہے ۔
خدا نے خود بھی ایسے انتظامات کیے جنکی وجہ سے اہم آثار قدیمہ اور تاریخی باقیات محفوظ رہ سکے جیسے اہرام مصر، قدیم بادشاہوں کے محلوں کھنڈرات، فرعون کی لاش ، نوح علیہ السلام کی کشتی وغیرہ ۔ مگر اسلامی معاشرے میں تاریخ اور آثار قدیمہ کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جتنی کہ قرآن نے دی ہے ۔ آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کے تحفظ کے لئے کوئی واضح پالیسی اسلامی حکومتوں کے پاس نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک نے آثار قدیمہ کی دریافت اور ان کے تحفظ کے لئے مؤثر اقدامات نہیں کئے ۔ مثال کے طور پر نوح علیہ السلام کی کشتی کے متعلق قرآن نے واضح لفظوں میں کہہ دیا کہ اس نے اسے آنے والی نسلوں کی عبرت کے لئے محفوظ کردیاہے ۔ کشتی ء نوح کی تلاش کے لئے غیر مسلموں اور عیسائیوں نے مہم جوئی کی اور ترکی اور چینی ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم نے 2010 کوہ ارارت پر اس کے باقیات کا پتہ لگایا جبکہ یہ کام اسلامی ممالک کا تھا ۔ترکی کو اس کام کے لئے چینی ماہرین کی مدد لینی پڑی۔ برعکس اس کے شرک کے نام پر سعودی حکومت نے گزشتہ نوے برسوں میں سو سے زائد اسلامی آثار قدیمہ کو مسمار کردیا۔ اسی طرز فکر کی وجہ سے 2014 میں داعش نے مشرق وسطی میں کئی پیغمبروں اور صحابہ کرام کے مزاروں کو نیست ونابود کردیا۔ افغانستان کے بامیان میں گوتم بدھ کے دیوہیکل مجسمے کو طالبان نے مسمار کردیا ۔ قرآن دوسری قوموں کے دیوتاؤں کو برا کہنے سے بھی منع کرتاہے تو پھر ان کے دیوتاؤں کے مجسموں اور ان کے مندروں کو مسمار کرنا اسلامی نقطہ نظر سے کیسے درست ہوسکتاہے ۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/importance-history-archaeology-quran-/d/117709
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism