سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
حروف مقطعات قرآن کے وہ حروف یا حروف کے مرکب ہیں جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں۔ المؔ، ق، ؔصؔ، الرؔ، حم ؔ، طہٰؔ، یٰسؔ چند مقطعات ہیں۔ یہ مقطعات قرآن کی 114سورتوں میں سے 29 سورتوں میں آتے ہیں۔ ان حروف کو فواتح بھی کہتے ہیں جن کے معنی کھولنے والے کے ہیں۔ یہ حروف آیتوں کے شروع میں آتے ہیں اس لئے انہیں کھولنے والے بھی کہتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ان 29میں سے تین کو چھوڑکر تمام 26سورتیں مکی ّ ہیں۔ یعنی مکی ّ سورتوں میں حروف مقطعات کی موجودگی کی بھی کوئی وجہ رہی ہوگی۔
سورتوں کے شروع میں حروف مقطعات کی کوئی حتمی تفہیم اب تک علماء قرآن اور مفسرین نہیں پیش کرپائے ہیں اور تقریباً تمام مفسرین اور علماء نے محض قیاس پر ان کے مفہوم تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔کچھ علماء نے ان حروف کو علم الاعداد کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے تو کچھ علماء نے اسے تصوف کے پس منظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے۔کچھ علماء کا خیال ہے کہ ان حروف کا تعلق متعلقہ سورت کے مرکزی موضوع سے ہے۔
پہلانکتہ ان حروف کے متعلق جو اہم ہے وہ یہ کہ ان میں سے زیادہ تر سورتیں مکی دور کی ہیں۔قرآن کی مکی اور مدنی سورتوں میں اسلوب کا ایک فرق بہت ہی واضح ہے۔ مکی ّ سورتیں نہ صرف مختصر ہیں بلکہ ان میں شاعرانہ اسلوب کا استعمال ہوا ہے۔ ان سورتوں کی زیادہ تر آیتوں میں قافیہ کا اہتما م کیاگیاہے۔ اور ان میں ایک جوش اور بیان میں شدت ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ عربوں کے یہاں شاعری کی روایت بہت ہی ترقی یافتہ تھی۔ آج جبکہ ترقی یافتہ معاشروں میں لٹریری فیسٹول منعقد ہونے لگے ہیں، عربوں کے یہاں اس طرح کے لٹرییری فیسٹول قبل اسلام دور میں ہی بہت مقبول تھے۔ عکاظ کا میلہ بہت ہی مقبول تھا جو ایک طرح سے شاعری کا میلہ تھا۔ لہذا،جب قرآن اترا تو نہ صرف انہی کی زبان میں اترا بلکہ انہی کے اسلوب میں اترا۔ اور اسی لئے مکہ کے کفار و مشرکین نے کہا کہ محمد تو ”شاعر مجنون“ ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ قرآن شاعری نہیں تھی بلکہ حق باتیں تھیں جو انوکھی اسلوب میں اتری تھیں اس لئے مکہ ّ کے لوگ حیران تھے کہ ان سے بہتر اسلوب میں یہ کلام محمد ﷺکہاں سے لاتے ہیں۔ اور وہ کون ہے جو اس اعلی و ارفع کلام کا خالق ہے۔
مکی سورتوں میں حروف مقطعات کا تعلق بھی عربوں کے انداز اور اسلوب سے جڑا ہوا معلوم ہوتاہے۔ کچھ علماء کا خیال ہے کہ عربوں کے یہاں تحریروں میں چند حروف کو علامتی طور پر استعما ل کرنے کا چلن عام تھا جیسے ن کو مچھلی اور ط کو سانپ کی علامت سمجھا جاتاتھا۔لہذا، جب قرآن بھی مکہ کے لوگوں کے لئے اتراتو اس میں بھی حروف کا استعمال انہی کے رواج کے مطابق ہواتاکہ وہ قرآن کے کلام سے ذہنی طور پر ہم آہنگ ہوسکیں اور وہ انہیں کوئی بیگانی چیز نہ معلوم ہو۔
مکی سورتوں میں حروف مقطعات کے استعمال کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ویدوں میں بھی حروف مقطعات کا استعمال باربار ہواہے۔ ویدیں قبل اسلام کے ہند میں کافی مقبول تھیں اور مورخین یہ بھی کہتے ہیں کہ مکہ میں ویدوں کے پڑھنے والے اور جاننے والے برہمن قبل اسلام اور دور نبوی میں بھی موجود تھے۔ ان برہمنوں کو موہیال کہتے تھے۔یہ قوم آج بھی ہندوستان اور عراق میں موجود ہے اور توحید پرست ہے۔ ان کے یہاں مورتی پوجا نہیں ہے۔ ان میں سے ایک موہیال رہاب دت حضرت امام حسین علیہ السلام کا بہت معتقد تھااور حضرت امام کی دعاسے اسے سات بیٹے عطاہوئے تھے۔چونکہ ویدیں آسمانی کتابیں ہیں اس لئے اہل عرب ویدوں کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
ویدوں میں بھی حروف مقطعات موجود ہیں جنہیں بیج منتر یا بیج اکھشر کہتے ہیں۔ان بیج اکھشروں یا بیج منتروں میں سے سب سے اہم اور طاقتور بیج منتر اوم ہے۔ جتنے بیج منتر یا اکھشر ہیں سب کی صفات اس بیج منتر (اوم) میں مخفی ہیں۔یہ ٹھیک اسی طرح ہے جیسے اسلام میں اللہ کے ننانوے صفاتی نام ہیں مگر اللہ میں تمام صفاتی ناموں کی تاثیر پائی جاتی ہے۔ اوم کو خدا کی علامت تصور کیاجاتاہے۔ اس سے مراد تمام کائنات اور اس کا خالق ہے۔ اسی طرح دوسرے بیج منتر ہیں ہریم، کلنگ،پھٹ، سواہا، دھریم، حاوم، دم، کریم، شریم، کلیم، حوم، گلاوم، ویام، بریم، رام وغیرہ ۔ان منتروں یا اکھشروں کے اندر مخصوص روحانی طاقت ہوتی ہے جو مخصوص دیوتاؤں کی توجہ مبذول کرتی ہے۔ کسی مخصوص دیوتا سے فریاد کرنے کے لئے اس سے مخصوص بیج منتر کا ایک خاص تعداد میں جاپ کیا جاتاہے۔
لہذا، قرآن جب مکہ میں نازل ہواتوآسمانی صحیفوں ویدوں کے ہی اسلوب میں قرآن میں بھی بیج اکھشر یا حروف مقطعات کا استعمال کیاگیاتاکہ اہل وید کو یہ یقین دلایاجاسکے کہ قرآن بھی ویدوں کی ہی طرح آسمانی کتاب ہے۔اور یہ بھی اللہ کا کلام ہے۔ قرآن کی بہت سی سورتوں کا اسلوب ویدوں کے اسلوب سے بہت ہی مماثل ہے۔
بیج اکھشروں کے متعلق یہ کہاجاتاہے کہ ان کاجاپ ہر کسی کو نہیں کرنا چاہئے بلکہ صرف وہ لوگ ہی اس کا جاپ کرسکتے ہیں جو ان کی خواص اور روحانی طاقت کا علم رکھتے ہیں۔ کسی گرو یا مرشد کی رہنمائی ہی میں ان بیج اکھشروں کا جاپ کریں تاکہ ان کے فوائد حاصل کرسکیں۔ لاعلم لوگ اگر ان کا جاپ کرینگے تو انہیں نقصان ہوسکتاہے۔
یہی بات حروف مقطعات کے متعلق کہی جاسکتی ہے۔ ان حروف میں روحانی قوت یا خاصیت ہوتی ہے جس کے ورد سے خصوصی روحانی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں کیونکہ قرآن کے حروف کی روحانی طاقت سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ ہندوستان مں شطاری سلسلے کے صوفیوں کا دعوی ہے کہ انہیں حروف مقطعات کا علم عطاکیاگیاہے مگر اس کا علم عام لوگوں کو ہونے سے ان کا غلط استعمال ہوگا اور فائدے کی بجائے نقصان ہوگا۔
یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ ان سورتوں کو مدنی سورتوں سے ممیز کرنے کے لئے بھی ایسا کیاگیاہوگا۔ حالانکہ تین مدنی سورتوں میں بھی حروف مقطعات کا استعمال ہواہے مگر زیادہ تر سورتیں مکی ّ ہیں جن میں یہ حروف ہیں۔ اس طرح ہم حروف مقطعات کو دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سورت مکی ّ ہے۔
آخر میں کہاجاسکتاہے کہ حروف مقطعات کے ورد سے اللہ کی مخصوص توجہ حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ ہر حرف سے اللہ کے کسی صفاتی نام کا آغاز ہوتاہے۔لیکن ان کا ورد کتنا اور کس مقصد سے کیاجائے اس کا علم ابھی تک انسان کو نہیں ہوسکاہے۔ ہوسکتاہے کہ اللہ نے اپنے خاص بندوں کو اس کا علم عطا کیاہو جس کی بنا پر ان کے اندر زبردست روحانی طاقت آگئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ان خٰاص بندوں سے کرامات ظاہر ہوئیں۔ان حروف کا ایک نام فواتح بھی غالباً اسی لئے ہے کہ ان سے فتوحات حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ ان کو فواتح صرف اس لئے کہاجاتاہے کہ وہ سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں سطحی طرز تفہیم ہوگا۔ فواتح کا معنی وسیع اور گہرے معنی میں بھی لیاجاسکتاہے۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism