سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
26 اپریل، 2022
ڈاکٹر رفیق زکریا کا شمار
گذشتہ صدی کے چند عظیم سیاستدانوں اور مفکرین میں ہوتا ہے۔ وہ مجاہد آزادی بھی تھے اور آزادی کے بعد بھی
ہندوستانی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اندرا گاندھی کے نائب رہے اور کانگریس
پارٹی جن عظیم شخصیتوں پر فخر کر سکتی ہے ان میں میں ڈاکٹر رفیق زکریا ایک نمایاں
نام ہے۔ وہ سیاست داں ہونے کےعلاوہ مولانا
آزاد کی طرح ایک عالم اور مفکر بھی تھے۔ انہوں نے ہندوستانی سیاست اور مسلمانوں کے
موضوع پر کئی کتابیں تصنیف کیں۔ وہ اپنے بے لاگ خیالات اور سیاسی و علمی بصیرت کے
لئے جانے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر رفیق زکریا نے 1962
میں نو تشکیل شدہ ریاست مہا راشٹر کے انتخابات میں حصہ لیا اور اس طرح باقاعدہ
سیاست میں داخلہ لیا۔ وہ منتخب ہوئے اور مہاراشٹر کے وزیر برائے شہری ترقیات بنائے
گئے۔ انہی کے دور وزارت میں جدید اورنگ آباد شہر
کا نقشہ تیارکیا گیا اور اس کی تعمیر شروع کی گئی۔آگے چلکر وہ کانگریس کے
ممبر پارلیمنٹ بھی بنے اور اور اندرا گاندھی کے مشیر کی حیثیت سے کانگریس کی
پالیسیوں پر اثر اندازہوئے۔ یہ بات بھی
قابل ذکر ہے کہ کانگریس میں ڈاکٹر رفیق زکریا سےلیکر احمد پٹیل جیسے مسلم لیڈران
اورپالیسی سازوں کا اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے 1965, 1990,اور 1996 میں اقوام
متحدہ میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔
اسلام،مسلمان، ہندوستانی
مسلمان اورہندوستانی سیاست ڈاکٹر رفیق کے پسندیدہ مضامین تھے جن کا انہوں نے کافی
مطالعہ کیا اوران پر اپنے خیالات وافکار بلا خوف و تردید کے پیش کیا۔ انہوں نے
لندن سے "ہندوستانی مسلمان کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ مگر دوسرے مسلم
دانشوروں کی طرح انہوں نے لبرل اور روشن خیال مسلمان کی حیثیت سے خود کو پیش کرنے
کی کوئی کوشش نہیں کی اور سیکولر کہلانے کیلئے مسلمانوں اور اسلام کی تنقید اور
اسلام مخالف قوتوں کی تعریف و توصیف نہیں کی جیسا کہ ماضی قریب و بعید میں کئی بڑے
مسلم دانشوروں نے کیا۔ وہ ایک راسخ عقیدہ مسلمان تھےاور جب بھی ضرورت پڑی انہوں نے
اسلام اور مسلمانوں کا دفاع بڑی بے باکی سے کیا۔
رفیق زکریا نےسلمان رشدی
کی بدنام زمانہ کتاب کی کھل کر مخالفت و
مذمت کی اور حکومت ہند کے ذریعہ اس پر لگائی گئی پابندی کو حق بجانب قرار دیا۔ اس
پابندی کے بعد سلمان رشدی نے اس وقت کے وزیرعظم راجیو گاندھی کو ایک خط لکھا تھاجس
میں اس پابندی پر تنقید کی گئی تھی۔ رشدی نے یہ دلیل دی تھی کہ اس کتاب میں اسلام
پر براہ راست حملہ نہیں ہے کیونکہ اس میں کہیں بھی رسول اسلام کا نام نہیں لیا گیا
ہے۔ اس کتاب پرپابندی کا حکم وزارت خزانہ نے جاری کیا تھا جس کا رشدی نے یہ کہہ کر
مذاق اڑا یا تھا کہ کیا وزیر خزانہ یہ فیصلہ کریں گے کہ کون سا ناول پڑھا جانا
چاہئے۔ جناب رفیق زکریا نے ایک کھلا خط سلمان رشدی کو لکھا تھا جس میں اس کے تمام
اعتراضات کا مدلل جواب دیا تھا۔ اور اس سے کچھ سوالات بھی کئے تھے۔ ذیل میں ہم
رفیق زکریا کے خط کے چند اقتباسات پیش کر رہے ہیں۔
"میں نے راجیو گاندھی کے نام آپ کا کھلا خط پوری دلچسپی سے پڑھا جس میں آپ نے اپنی کتاب شیطانی آیات پر
پابندی پر نظرثانی کی درخواست کی ہے۔ آپ نے اس بات کا مذاق اڑایا ہے کہ یہ حکم
وزارت خزانہ کے ذریعہ جاری کیا گیا۔ خیر آپ کی معلومات ادھوری ہے۔ پریس میں یہ خبر آچکی ہے کہ یہ فیصلہ پوری
کیبینٹ کے ذریعہ لیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ اس پابندی پر عمل درآمد کسٹمس کو کرنا ہے
جو وزارت خزانہ کے دائرہ عمل میں ہے اس لئے کوئی دوسری وزارت یہ حکم جاری نہیں
کرسکتی تھی۔ اس سے پرے آپ کے خط کا جواب تو راجیو گاندھی ہی دیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ
نظر انداز کردیں جیسا کہ سربراہان مملکت کرتے ہیں۔
میں ان لوگوں میں سے نہیں
ہوں جنہوں نے آپکی کتاب نہیں پڑھی ہے۔ میں نے پڑھی ہے اور میں آپ سے کچھ سوالوں کے
جواب چاہوں گا تاکہ میں آپکو بہترطور پر سمجھ سکوں۔اور تاکہ آپ اپنے حق میں زیادہ
موثر طور پر پیروی کر سکیں۔
ہم ہندوستانی فرقہ وارانہ
تشدد کے تعلق سے ہمیشہ فکر مند رہتے ہیں جو ذرا ذرا سی بات پر برپا ہوجاتے ہیں اور
ہم کسی مصنف کو چاہے اس کا مقصد کچھ بھی ہو تشدد برپا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
آپ راجیو گاندھی کے نام
خط میں کہتے ہیں کہ میں سختی سے تردید کرتا ہوں کہ میری کتاب اسلام پر ایک براہ
راست حملہ ہے۔ مزید یہ کہ کتاب کا جو حصہ موضوع بحث ہے اس میں جس پیغمبر کی بات کی
گئی ہے ان کا نام محمد نہیں ہے۔
میں نے آپکی کتاب پڑھی ہے
اور آپ کی طرح میں بھی اسلام کا ایک طالب علم ہوں اس لئے آپ کے بیانات سے مجھے
حیرانی ہوئی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ کتاب پر سے پابندی ہٹوانے کے لئے اپنے
مقصد سے پھر گئے ہیں۔ میں غلط ہوسکتا ہوں بہر حال ، مجھے خوشی ہوگی اگر مندرجہ ذیل
سوالوں کے جواب ایک کھلے خط میں دے دیں اور اپنے موقف کی وضاحت کریں۔
ا۔آپکی کتاب کے عنوان
شیطانی آیات کا پس منظر کیا ہے۔ کیا اس کا تاریخی حقائق سے کوئی رشتہ نہیں ہے ؟کیا
وہ آیتیں جو تین دیویوں سے متعلق ہیں شیطانی آیات کی حیثیت سے مطعون اور اللہ کے
ذریعہ تردید نہیں کی گئی ہیں ؟ٹھیک اسی طرح سے جس طرح سے آپ کے ناول میں ان کا
حوالہ دیا گیا ہے ۔ ؟آپکے الفاظ اتنے واضح ہیں کہ کوئی دوسرا مطلب نکالا ہی نہیں
جاسکتا۔
٢۔ کیا لفظ جاہلیہ قبل اسلام عر ب کے
دور جہالت کے لئے استعمال نہیں ہوتا؟
٣۔۔مہاونڈ کا کردار وضع کرتے وقت آپکے
ذہن میں کون تھا؟کیا آپکے ذریعہ اس شخصیت کی کردار سازی اور سرگرمیاں پیغمبر محمد
ﷺ سے مشابہ نہیں ہیں؟میں اتفاق دکھانے کے لئے کئی عبارتیں نقل کرسکتا ہوں۔مگر
طوالت کے خوف سے ایسا نہیں کررہا ہوں۔ مزید برآں وہ عبارتیں اتنی قابل اعتراض تھیں
کہ میں انہیں نقل کر ہی نہیں سکتا۔
۴۔
۔آپ نے تین دیویوں لات، منات اور عزی کے نام کہاں سے اخذ کئے ہیں۔؟ظاہر ہے وہ آپ
کے دماغ کی اپج نہیں ہیں۔ آپ کی کتاب کے کسی بھی قاری کا ذہن دوسری طرف جا ہی نہیں
سکتا۔
٥۔۔کیا حمزہ پیغمبر محمد ﷺ کے چچا کا
نام نہیں تھا؟ اور کیا ہند سے ان کا ٹکراؤ جیسا کہ آپ نے اپنے ناول میں بیان کیا
ہے اسلام کی ابتدائی تاریخ میں سچ مچ واقع نہیں ہوا تھا؟
٦۔۔کیا ابو سمبل کا کردار جس کو آپ نے
اپنے ناول میں پیش کیا ہے پیغمبر کے جانی دشمن ابو سفیان کی طرف اشارہ نہیں کرتاہے
اور کیا ہندہ جس کے کردار کو آپ انتہائی تفصیل سے پیش کرتے ہیں اس کی بیوی نہیں
تھی؟
٧۔۔کیا آپ کا ہم نام ۔۔سلمان ۔۔جس کو
آپکی کتاب میں پر شین کہا گیا ہے مشہور صحابی سلمان فارسی سے مشابہ نہیں ہے۔؟
٨۔۔کیا بلال اسلام کے پہلے موذن نہیں
تھے جنکے بارے میں آپ لکھتے ہیں۔۔"جسے مہاونڈ نے آزاد کرایا تھا۔ جو انتہائی
سیاہ دیو تھا۔۔۔ "
٩۔۔کیا زمزم جس کا ذکر آپ نے اپنی کتاب
میں کیا ہے مسلمانوں کے لئے مقدس نہیں ہے ؟ییاں آپکی تفصیل پیش ہے ۔
۔۔"شہر کا پانی زیر زمیں نہر اور جھرنوں سے آتا ہے حجر اسود
کے گھر کے بغل سے۔ ۔"
١٠۔کیا آپکی کتاب میں مذکور حجر اسود کا
گھر کعبہ سے مشابہ نہیں ہے ۔ ؟آپ کے الفاظ پیش ہیں:
"اسمعیل اور اس کی والدہ حاجرہ مصر ی کی قبریں حجر اسود کے
گھر کے شمال مغرب میں ایک نچلی دیوار کے احاطے میں واقع ہیں۔"
یہ ہیں چند اتفاقیہ
مشابہتیں۔ کچھ اور بھی ہیں۔ دیگر مصنفین کی طرح آپ نے یہ نہیں لکھا ہے کہ اس کتاب
میں موجود کردار کسی زندہ یا مردہ افراد سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے۔کیا آپ اپنے دل
پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ پیغمبر کی زندگی کے کرداروں اور حالات سے کوئی
مشابہت نہیں رکھتے؟ اور اگررکھتے ہیں توپھر حکام اس وقوع کو قابو میں کرنے کے لئے
کیا کرسکتے ہیں جو ملک کے امن و سکون کو درہم برہم کر سکتا ہے۔ ؟
میں نے اس حصے کا ذکر
نہیں کیا جس میں حضرت عائشہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ حصہ میرے لئے الجھن کا باعث ہے
کیونکہ آپ نے اس کے حقائق میں افسانے کی آمیزش کی ہے۔ لیکن میری رائے میں اس کا
اطلاق مہاونڈ والے حصے پر نہیں ہوتاجو آپکے ہی اپنے الفاظ میں "اسلام پر
میرےپانچ سالہ کام کا نتیجہ ہے جو میری زندگی کا محور رہا ہے۔۔"
اس خط کے مزید اقتباس ہم
یہاں نقل نہیں کر رہے ہیں ۔مندرجہ بالا سوالات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ رفیق زکریا
نے سلمان رشدی کے اس جھوٹ کی قلعی کھول دی کہ اس ناول میں حضرت محمد ﷺ ان کی ازواج
مطہرات اور دیگر اسلامی شخصیات پر حملہ نہیں کیا گیا ہے۔
غالبا ان کے سوالوں کا
جواب سلمان رشدی سے نہ بن پڑا اور اس نے خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھی۔
ڈاکٹر رفیق زکریا ایک
راسخ العقیدہ مسلم تھے اور انہیں اس بات سے دکھ ہوتا تھا کہ چند مشہورمسلم شخصیات
جنہیں مسلمان فخر سے اپنا سمجھتے تھے دراصل مسلمانوں سے الگ تھلگ رہنے میں ہی
عافیت محسوس کرتے تھے۔ ان کی نگاہ میں سیکولر کہلانے کے لئے مسلمانوں سے دوری
برتنا اور غیر مسلموں سے قربت رکھنا اور انہی کے جیسے طور طریقے اختیار کرنا
زضروری تھا۔ اسی طرح کی ایک شخصیت تھی ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام جن کے سیکولرزم کو
وہ تنقیدی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک مضمون میں انہوں نے لکھا۔
‘‘عبدالکلام میں مسلمانوں جیسا کیا تھا’’
۔۔"ڈاکٹراے پی جے عبدالکلام جو ہمارے ملک کے اگلے صدر ہونگے
ہر لحاظ سے ایک عظیم سائنسداں ہیں۔ ہندوستان کی دفاعی طاقت میں ان کا توان بے
پایاں ہے۔ انہیں بجا طور پر میزائل مین کہا جاتا ہے۔ہر ہندوستانی ان پر فخر کرتا
ہے۔ وہ ہر لحاظ سے بھارت رتن ہیں۔ لیکن صرف اس وجہ سے انہیں ملک کے دو سابق صدور
ہند ڈاکٹر ذاکر حسین اور فخرالدین علی احمد کے ساتھ ایک ہی خانے میں نہ رکھنا
چاہئےکہ وہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے اور مسلمانوں جیسے نام رکھتے ہیں"۔
آگے چلکر رفیق زکریا
لکھتے ہیں :
۔"مجھے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ڈاکٹر کلام نے خود کو مسلمانوں سے
دور کر رکھا ہے۔ وہ ان کے ساتھ گھلنے ملنے سے انکار کرتے ہیں اور جب انہیں اپنی
تقریبات میں بلاتے ہیں تو وہ انکار کردیتے ہیں۔ ۔۔۔انہوں نے مسلمانوں کے معاملات
میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی ہے اور نہ ہی انہوں نے اسلامی روایتوں اور طور طریقوں
سے کسی وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ میرے ساتھ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے
بانی ٹرسٹی تھے مگر انہوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔
ڈاکٹر کلام ہندوؤں کے
ساتھ یگانگت محسوس کرتے ہیں۔ ان کے ہندو دوستوں نے جن کے ساتھ انہوں نے ایک لمبے
عرصے کام کیاہے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ اسلام سے زیادہ ہندو مت سے قربت محسوس
کرتے ہیں۔ مجھے اس میں کچھ بھی غلط نظر نہیں آتامگر خدا کے لئے انہیں مسلمان صدر
کہکر مت پکارئےاور انہیں مسلمانوں کو اعزاز بخشنے کا کریڈٹ مت دیجئے۔ کے راما راؤ
جو ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیو لپمنٹ لہباریٹریز کے چیر مین ہیں کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔"میں
انہیں تیس برسوں سے جانتا ہوں ۔۔۔۔وہ دیر رات تک جاگتے تھے ، سبزی خور تھے اور
مسلمان ہونے کی کوئی علامت ظاہر نہیں کرتے تھے۔ میں نے انہیں نماز پڑھتے یا رمضان
میں روزہ رکھتے نہیں دیکھا"۔
رفیق زکریا مزید لکھتے
ہیں
۔"ڈاکٹر کلام کبھی قرآن نہیں پڑھتے مگر ہر صبح گیتا کا پاٹھ
کرتے ہیں اور اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ وہ کرشنا سے عقیدت رکھتے ہیں۔ وہ ہر موقع پر
ہندو منتروں کا جاپ کرتے ہیں۔ انہیں نماز اپیل نہیں کرتی اور نہ وہ رمضان میں روزے
رکھتے ہیں۔ ۔ وہ سختی سے سبزی خور ہیں اور برہم چاری ہیں۔ان کی جڑیں دراصل ہندو
مذہب میں ہیں۔ اور ہندو صحیفوں سے زیادہ متاثر ہیں۔ ۔۔۔دراصل ڈاکٹر کلام بھی خوش
ہونگے اگر انہیں مسلم صدر کہہ کر مخاطب نہ کیا جائےاور انہیں ڈاکٹر ذاکر حسین اور
فخرالدین علی احمد کے ساتھ ایک خانے میں نہ رکھا جائے۔ ۔"
یہ ڈاکٹر رفیق زکریا کے
ذاتی خیالات ہیں جن سے بہت سے لوگ متفق نہیں بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر ان سے رفیق
زکریا کا طرز فکر ظاہر ہوتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی بڑی ہستیوں کو کو
مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے آگے آنا چاہئے ۔ نہ کہ سیکولر کہلانے کے لئے خود کو
مسلمانوں کے مسائل سے اور ان کے معاشرے سے الگ کرلیں۔ نماز نہ پڑھنا یا مذہبی
تعلیمات پر عمل نہ کرنا کسی کا ذاتی معاملہ ہو سکتا ہے مگر رفیق زکریا چاہتے تھے
کہ مسلم شخصیات کو عام مسلمانوں کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
رفیق زکریا نے دیگر سیاسی
معاملات میں بھی دو ٹوک رائے دی ہے۔ جس سے اتفاق کرنا عام مسلمان مشکل جانتا ہئے۔
مثال کے طور پر عام مسلمان سردار پٹیل کو مسلم مخالف سمجھتا ہئے۔ اور انہوں نے بہت
سے معاملوں میں مسلمانوں کے خلاف موقف اپنایا تھا۔ مگر رفیق زکریا کا موقف یہ تھا
کہ سردار پٹیل مسلم مخالف نہیں تھے ۔اپنی کتاب "سردار پٹیل اور ہندوستانی
مسلمان میں انہوں نے واقعات اور مثالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہۓ
کہ للسردار پٹیل نہرو اور گاندھی کی طرح مسلمانوں کے تیئں نرم گوشہ اگر نہ بھی
رکھتے ہوں مگر وہ ان کے جانی دشمن نہیں تھے۔ اور مسلمانوں کے تیئں ان کا رویہ
ادلام سے ان کی ناواقفیت کا نتیجہ تھا۔ رفیق ذکریا لکھتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ وہ
مسلمانوزں کے مذہب کے بارے میں نہیں جانتے تھے بلکہ وہ ہندو مت کے بارے میں بھی
اچھی جان کاری نہیں رکھتے تھے۔ اس کتاب کا ایک اقتباس پیش ہے۔
۔"پٹیل محسوس کرتے تھے کہ مسلم لیگ کی حمایت کر کے مسلمان
اپنی قبر خود کھود رہے ہیں۔ پٹیل کی اسلام سے واقفیت بھی محدود تھی۔ مجھے نہیں
لگتا کہ انہوں نے اس کی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے کوئی کتاب پڑھی ہوگی۔ انہوں نے
اس کے بارے میں جو بھی جانا وہ ان مسلمانوں سے جانا جو ان کے رابطے میں آئے ۔ان
میں بھی زیادہ تر وہ لوگ تھے جو شاذ و نادر ہی اسلام کے صحیح نمائندے یا اس کی
تعلیمات پر عمل پیرا تھے۔ ہندو مت کے بارے میں بھی ان کی معلومات گہری نہیں تھی۔
ایک بار انہوں نے مہادیو دیسائی جو گاندھی جی کے سکریٹری تھے سے پوچھا تھا کہ
سوامی وویکانند کون تھے"۔
ان خیالات سے بہت سے
مسلمان متفق نہیں ہوں گے مگر رفیق زکریا
افراد اور واقعات کو سمجھنے کا اپنا الگ نظریہ رکھتے تھے۔ جو انہیں دوسروں سے
ممتاز بناتا تھا۔ مگر ایک بات جس سے سب کو اتفاق ہے وہ یہ کہ رفیق زکریا اسلام اور
مسلمانوں پر کسی قسم کا حملہ برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس معاملے میں وہ دیگر مسلم
دانشوروں سے مختلف تھے جو بحران کے وقت یا کسی تنازع میں گول مول موقف اختیار کرتے
ہیں۔ رفیق زکریا کسی قسم کے عدم تحفظ یا احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتے اور دو ٹوک
اپنی بات کہتے ہیں ۔ وہ مسلمانوں کے مسائل ، ان کی توقعات ،ان کے اندیشوں اور ان پر گذرنے والے تمام واقعات کو انہیں کے
ایک فرد کی طرح محسوس کرتے ہیں اور ایک مسلمان کی طرح ان پر اپنے رد عمل کا اظہار
کرتے ہیں۔ اسی لئے انہیںconservative Muslim thinker بھی کہا گیا۔
اسلام کے فقہی مسائل پر
بھی ڈاکٹر رفیق زکریا کی گہری نظر تھی۔ جدید دور میں مسلمانوں میں جو موضوع سب سے
زیادہ اہم رہا ہے وہ سیکولرزم کا ہے۔ کئی اسلامی علما اور مفکرین نے سیکولرزم کو
اسلام مخالف کہا ہےجبکہ اعتدال پسند علما کا ایک طبقہ سیکولرزم کو مسلم اقلیت کے
لئے ایک نعمت مانتا ہے۔ مسلم اکثریتی ممالک میں تو مسلمانوں کو سیکولرزم کی ضرورت
نہیں ہوتی کیونکہ وہاں انکی سیاسی برتری ہوتی ہے مگر جہاں وہ اقلیت میں ہیں وہاں
انہیں اکثریتی فرقے کی مذہبی جارحیت سےتحفظ کے لئے سیکولرزم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس
لیے ہندوستانی علما کا ایک طبقہ سیکولرزم کو اسلام کے عین مطابق مانتا ہے۔ ڈاکٹر
رفیق زکریا اس اہم موضوع سے پہلوتہی نہیں کرسکتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے ایک
مضمون میں اس موضوع پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں عالمانہ بحث کی ہے۔ اور یہ ثابت
کیا ہئے کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے مدینہ میں یہودیوں اور مسلمانوں پر مشتمل ایک سیکولر
اسٹیٹ کی بنیاد ڈالی تھی جہاں مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کو مساویانہ مذہبی اور
سماجی حقوق حاصل تھے۔ اور بیرونی حملوں کے وقت دونوں ایک دوسرے کی مدد اور حفاظت
کے پابند عہد تھے۔
مختصر طور پر ڈاکٹر رفیق
زکریا ان مسلم دانشوروں میں سے ایک تھے جنہوں نے مغربی تہذیب سے واقفیت کے باوجود
اس کا منفی اثر قبول نہیں کیا۔اور اپنی قوم و ملت سے آخری دم تک محبت کرتے رہے، ان
کے دکھ درد کواپنا دکھ درد سمجھتے رہے اور اس کے مداوا کی اپنی بساط بھر کوشش کرتے
رہے۔ انہوں نے اپنی عملی زندگی کے دوران اورنگ آباد میں کئی اسکول اور کالج قائم
کئے۔ ان میں ایک لڑکیوں کا کالج بھی ہے۔ انہوں نے ایک ہوٹل مینجمنٹ کا ادار بھی
قائم کیا۔ ان کا قائم کردہ مولانا آزاد ایجوکیشن ٹرسٹ اپنے آپ میں ایک منی
یونیورسٹی ہے۔ وہ جامعہ اردو علی گڈھ کے چانسلر رہے اور ممبئی کے مہاراشٹر کالج کے
صدر بھی رہے۔
لہذا یہ بجا طور پر کہا
جا سکتا ہے کہ ڈاکٹر رفیق زکریا نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے بھی عملی
اقدامات کئے اور اپنی تحریروں کے ذریعہ بھی ان میں ایک فکری انقلاب لانے کی کوشش
کی۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism