New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 08:08 AM

Urdu Section ( 20 Jan 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Corporal Punishment in Madrasas Gross Violation of Child Rights مدارس میں جسمانی سزا بچوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

 26 جولائی 2021

بنگلہ دیش ، بھارت اور پاکستان میں طلباء مدارس کو مارا پیٹا جاتا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے

 اہم نکات:

1.      بنگلہ دیش میں مدرسے کے چھوٹے بچوں کو بے رحمی سے مارا جاتا ہے

2.      پاکستان میں بعض اوقات طلباء شدید تشدد کی وجہ سے مر بھی جاتے ہیں

3.      مولویوں کا کہنا ہے کہ طالب علم کے جسم سے شیطان کو نکالنے کے لیے طلباء کو مارا پیٹا جاتا ہے

4.      ہندوستان میں طالب علموں کو مرغا بنانا سب سے ہلکی سزا ہے

5.      اسلام ایسے وحشیانہ اور غیر انسانی معمولات کی حمایت نہیں کرتا۔

۔۔۔

Madrasa student Yasin

----

 اس سال 10 مارچ کو بنگلہ دیش کے ایک مدرسے کے معلم کی جانب سے 8 سالہ طالب علم کی بے رحمی سے پٹائی کا ایک وائرل ویڈیو نے بنگلہ دیش کے لوگوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ویڈیو اتنا دل دہلا دینے والا تھا کہ مقامی حکام سے لے کر ڈھاکہ کے ہائی کورٹ تک بھی خاموش نہیں رہ سکے۔ لوگوں نے سنگدل استاد کو عبرت ناک سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

8 سالہ یاسین ایک رہائشی مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا جسے یحییٰ نے چٹاگانگ کے ہتہزاری میں قائم کیا تھا۔ 10 مارچ کی شام یاسین کی ماں اپنے بچے سے اس کی سالگرہ پر ملنے آئی اور ساتھ تحفے تحائف بھی لے کر آئی۔ لیکن جب وہ جانے لگی تو لڑکے نے اپنی ماں کے پیچھے مدرسے سے باہر بھاگنے کا گناہ کیا جیسا کہ بچے اکثر کرتے ہیں جب والدین بچوں کو چھوڑ کر جانے لگتے ہیں۔ اس سے استاد غصے میں آگیا۔ اس نے یاسین کو واپس مدرسے میں گھسیٹا اور اسے زمین پر دے مارا اور بے رحمی کے ساتھ چھڑی سے اس کے پورے جسم پر مارنا شروع کر دیا، بچہ درد سے چیخ اٹھا اور مدد کے لیے پکارنے لگا۔ باہر کے ایک شخص نے اس پورے ماجرے کو فلما لیا اور ویڈیو کو انٹرنیٹ پر پوسٹ کر دیا۔ یہ ویڈیو وائرل ہوا جس سے نہ صرف بنگلہ دیش بلکہ بھارت اور پاکستان کے لوگوں میں بھی شدید غم و غصہ کا ماحول پیدا ہو گیا۔ مقامی پولیس نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے معلم کو حراست میں لے کر بچے کو مدرسے سے چھڑا لیا ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل اے بی ایم عبداللہ المحمود بشر نے ڈھاکہ ہائی کورٹ کی توجہ اس واقعے کی طرف مبذول کرائی ہے۔ عدالت نے ضلعی حکام کو ہدایت دی ہے کہ بچے کو طبی علاج و معالجہ کی سہولت مہیا کرائی جائے اور اس کے والدین کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ عدالت نے حکام سے یہ بھی پوچھا ہے کہ انہوں نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں۔

ابتدائی طور پر والدین اپنے بچے کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے استاد کے خلاف مقدمہ نہیں چلانا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ موبائل کورٹ نے بھی اسے کوئی سزا نہیں دی اور استاد کو صرف تحریری ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ لیکن بعد میں ضلعی حکام کے دباؤ اور تحفظ کی یقین دہانی پر بچے کے والد نے ایف آئی آر درج کرائی اور استاد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ معلم کو مدرسے سے برخاست کر دیا گیا اور چٹاگانگ کے کسی بھی مدرسے میں تعلیم دینے سے روک دیا گیا ہے۔

یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں تھا۔ 18 مارچ کو بھی چٹوگرام میں ایک مدرسہ معلم کی جانب سے ایک نابالغ طالب علم مشکات کے ساتھ وحشیانہ سلوک کا ایک اور واقعہ سامنے آیا چکا ہے۔ 21 سالہ مدرسہ کے معلم محمد کوثر نے بغیر کسی غلطی کے مشکات کی بے رحمی سے پٹائی کی تھی۔ لڑکے کے جسم پر کئی جگہ زخم آئے تھے۔ معلم کو ان کے والدین کی شکایت پر گرفتار کر لیا گیا۔ مارچ میں ہی چٹوگرام میں طالب علم کی پٹائی کا تیسرا واقعہ سامنے بھی آیا ہے۔ استاد کو گرفتار کر لیا گیا۔

یہ بنگلہ دیش کے مدرسوں میں زیر تعلیم طالب علموں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے یہ چند واقعات ہیں۔ بیشتر مدارس میں مار پیٹ اور نفسیاتی تشدد ایک معمول ہے۔

بنگلہ دیش میں ایک قومی مدرسہ کا قیام روزی کمانے کا ایک آسان طریقہ ہے۔ ان میں سے بیشتر مدارس میں نا اہل افراد تعلیم دینے پر مامور ہوتے ہیں۔ وہ قانونی اور سماجی جواب دہی سے بچنے کے لیے عوامی لیگ کے مقامی رہنماؤں کو منیجنگ کمیٹی میں شامل کر لیتے ہیں۔ والدین، اساتذہ اور مدرسوں کے منتظمین کے خلاف کچھ کہنے کی جرات نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش میں مدرسہ کے اساتذہ جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

2011 میں مدرسوں کے طلباء پر مسلسل وحشیانہ سلوک کے منظر عام پر آنے کے بعد حکومت نے تعلیمی اداروں میں جسمانی سزا پر پابندی عائد کر دی ہے اور تعلیمی ایکٹ کے موجودہ مسودہ میں طلباء پر جسمانی سزا اور نفسیاتی تشدد کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

لیکن ان موجودہ واقعات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ مدارس اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں اور مدرسے کے اساتذہ نابالغ طلباء کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے رہتے ہیں۔

2013 میں بنگلہ دیش بیورو آف اسٹیٹسٹکس اور یونیسیف نے ایک سروے کیا تھا جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ 80 فیصد طلباء کو مدارس میں جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور 14 فیصد سے کم عمر کے 24 فیصد طلباء کے ساتھ یاسین کی طرح وحشیانہ مار پیٹ کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر مدرسے کے طلباء غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وجہ سے ان کے والدین غلط معلمین کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے۔ بسااوقات مدرسوں کے مالکان اور معلمین کے سیاسی رابطے بھی ان کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ اکثر والدین یہ سمجھتے ہیں کہ اساتذہ کو حق ہے کہ وہ طلباء کی پٹائی کریں۔ موجودہ صورتحال میں بھی یہی رویہ کارفرما ہے۔ اس طرح مار پیٹ اور سخت جسمانی سزا برصغیر کے مسلمانوں میں ایک مقبول روایت بن گئی ہے۔

بھارت اور پاکستان کی صورتحال بھی اس زیادہ مختلف نہیں ہے۔ درحقیقت پاکستان میں طلباء بعض اوقات مدرسہ کے اساتذہ کی شدید مار پیٹ کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور جب ایسا ہوتا ہے تب والدین کے لیے پاکستان میں معلمین کے خلاف ایف آئی آر درج کروانا ان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے بہت مشکل ہوتا ہے۔ پولیس مدارس کے معلمین کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے کتراتی ہے۔ فروری 2019 میں ایک مدرسہ کے معلم نے ایک لڑکے کو اتنی بے رحمی سے مارا کہ وہ موت کے منھ میں چلا گیا۔ اور اس کے والد کو مدرسے کے اس ظالم معلم کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے کے لیے تین ماہ تک مسلسل جدوجہد کرنا پڑی۔ رواں سال جنوری میں پنجاب کے وہاڑی میں ایک مدرسے کے طالب علم کی پٹائی سے موت ہوگئی۔

اس طرح کی جسمانی سزائیں بعض اوقات خودکشی کا باعث بن جاتی ہیں۔ کچھ طالب علم مدارس سے راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں اور جسمانی اذیت کے خوف سے تعلیم ہی ترک کر دیتے ہیں۔ طاہر نامی ایک لڑکے نے مدرسہ میں حفظ کورس کے لیے داخلہ لیا تھا۔ اس کا خواب حافظ بننا تھا۔ لیکن مولویوں کے مسلسل تشدد کی وجہ سے وہ مدرسے سے بھاگ گیا اور بالآخر اس نے اپنی تعلیم ترک کر دی۔

حکومت پاکستان نے اسکولوں میں جسمانی سزا پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن علماء کی مخالفت کی وجہ سے مدارس میں یہ قانون نافذ نہیں کر سکی۔

جسمانی اور ذہنی اذیت طلباء کی شخصیت پر زندگی بھر کے لیے منفی اثرات چھوڑ دیتی ہے۔

 ہندوستان میں اگرچہ وحشیانہ تشدد یا مار پیٹ کی وجہ سے موت کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے لیکن پھر بھی ان مدارس میں مار پیٹ اور جسمانی سزا ایک حقیقت ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مدارس کے مولوی مار پیٹ کے حق میں ایک عجیب اور غیر معقول دلیل پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب کوئی لڑکا مدرسے میں مذہبی تعلیم کے لیے داخل ہوتا ہے تو شیطان اس کی تعلیم میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔ لہذا ، بچے کو شیطان کے شیطانی اثر سے نجات دلانے کے لیے جسمانی سزا ضروری ہے۔ اساتذہ کا خیال ہے کہ وہ مار پیٹ کر کے شیطان کو بچے سے باہر نکال دیتے۔

اس دلیل کی کوئی اصل نہ تو قرآن میں ہے اور نہ ہی حدیث میں۔ درحقیقت یہ خیال ہی شیطانی سوچ پر مبنی ہے۔ شیطان نے یہ خیال مولویوں کے ذہن میں ڈال دیا ہے کہ وہ معصوم بچوں پر تشدد کرنے اور انہیں مدرسوں سے دور کرنے کا گھناؤنا گناہ کریں تاکہ وہ قرآن و حدیث کا علم حاصل نہ کرسکیں۔

اسلام سیکھنے اور سکھانے کا ایک خوشگوار ماحول فراہم کرتا ہے اور استاد اور طالب علم کا رشتہ احترام اور محبت و عقیدت پر مبنی ہے۔ لیکن اس کے برعکس مدارس کا ماحول عام طور پر خوف اور نفرت کا ہے۔ کیا یاسین یا مشکات بڑے ہو کر اپنے اساتذہ کی عزت کریں گے؟

English Article: Corporal Punishment in Madrasas Gross Violation of Child Rights

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/madrasas-child-rights-bangladesh-pakistan/d/126195

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..