سہیل ارشد ، نیو ایج اسلام
قرآن کریم مذہب اسلام کا بنیادی
صحیفہ اور الہامی کتاب ہے۔ یہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ پر وحی کی صور ت میں نازل پیدا
ہوا۔ یہ عربی زبان میں اترا اور جب اسلام عرب سے نکل کر دنیا کے دوسرے خطوں میں پھیلا
تو وہاں کے لوگوں کو انکی زبان میں قرآن کے ترجمے کی ضرورت پیش آتی تاکہ وہ قرآن کے
بنیادی پیغامات کو اپنی زبان میں سمجھ سکیں۔ لہذا، دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے
تراجم ہوئے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبا ن ہو جس میں قرآن کا ترجمہ نہ ہواہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی
باقاعدہ آمد محمد بن قاسم کی فوج کے ساتھ ہوئی تھی اور اس نے سندھ کے ایک بڑے علاقے
پر اسلامی حکومت قائم کرلی تھی مگر سیاسی وجوہات کی بنا پر محمد بن قاسم کی پیش قدمی
رک گئی اور سے واپس بلا لیا گیا۔ محمد بن قاسم سے قبل عرب تاجروں کے قافلے یہاں آتے
تھے اور انکی وسا طت سے یہاں کے عوام اسلام سے واقف ہورہے تھے لیکن قرآن کی تعلیم یا
اس کے پیغام کو یہاں کے عوام تک پہناچے کو کوئی منظم منصوبہ نہیں تھا۔ نیز آٹھویں صدی
تک ادب میں ترجمہ نگاری کی اہمت کو تسلیم نہیں کیاگیا تھا اور ترجمہ نگاری کے اصول
بھی وضع نہیں ہوئے تھے۔ طباعت کی صنعت بھی ترقی یافتہ نہیں تھی۔ نیز قرآن کے متن اور
مفہوم میں تحریف اور تبدیلی کا خوف بھی علما کو قرآن کے ترجمے میں پہل میں پس و پیش
کا باعث تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ بارہویں صدی عیسوی سے ہندوستان میں مسلم حکومتوں
کا دور شروع ہونے اور اولیاء اللہ کی ہندوستان میں آمد کے باوجود قرآن کریم کا ترجمہ
ہندوستان کی کسی مقامی زبان میں نہین ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب اردو زبان ابتدائی مرحلے
میں تھی اور عربی فارسی ، برج بھاشا، سنسکرت اور ترکی زبان کے الفاظ سے ایک مخلوط زبان
وجود میں آرہی تھی جسے پہلے ہندوی اور پھر بعد میں اردو کا نام دیا گیا۔شاہ جہاں کے
دور میں اردو ایک نمایاں شناخت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور اردو میں مذہبی اور صوفیانہ
لٹریچر دستیاب ہونے لگا۔ مگر اب بھی قرآن کے اردو ترجمے سے علما ء قرآن کے متن کے تقدس
و تحفظ اور اس میں غیر شعوری تبدیلی و تحریف کے خوف سے بھی پرہیز کرتے رہے۔
1771-72میں شاہ مراد انصاری سنبھلی نے پارہ عم کی چھوٹی چھوٹی وآیتوں
کا ترجمہ کیا اور انکی تفسیر لکھنے یں پہل کی اور اس تفسیر کا نام ’’خدائی نعمت ‘‘رکھا۔
ان کے ترجمے کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو۔
’’اے رب ہمارے مت پکڑ کر ہم کو اگر بھول گئے ہم یا خطا کی ہم نے ۔ اے
رب ہمارے اور مت رکھ اوپر ہمارے بوجھ جیسے رکھا تونے اس کو اوپر ان لوگوں کے کہ پہلے
ہم سے تھے۔‘‘
اس ترجمے سے ترجمہ نگار کے
محتاط روئیے کا اندازہ ہوتاہے ۔وہ عربی متن کا لفظ بہ لفظ اردو ترجمہ کرتے ہیں تاکہ
متن سے بھٹکنے اور مفہوم کی عدم ترسیل یا تبدیلی کا الزام نہ لگے۔جبکہ ترجمہ کا بنیادی
اصول یہ ہے کہ جس زبان میں ترجمہ کیاجارہاہو اس زبان کی نحوی ساخت میں ہی ترجمے کئے
جائیں ۔چونکہ ابتدا ہی میں قرآن کے ترجمے میں اس اصول کو لا علمی کی وجہ سے نظر انداز
کیا گیا اس لئے بعد کے ترجمہ نگاروں نے اس روش کو اپنایا۔جبکہ عربی اور اردو کی نحوی
ساخت مختلف ہے اور عربی سے اردو میں لفظ بہ لفظ ترجمے سے قاری کو مفہوم کے ترسیل میں
دقت پیش آتی ہے۔
قرآن کا پہلا مکمل اردو ترجمہ
شاہ ولی اللہ کے صاحبزادے شاہ رفیع الدین نے کیا جو 1785ء میں شائع ہوا۔شاہ رفیع الدین
نے بھی قرآن کے ترجمے کا وہی طریقہ اپنایا جو شاہ مراد سنبھلی نے اپنایا تھا۔لہذا،
قرآن کے لفظ بہ لفظ اور متنی ترجمے کی روش ہی معیار ٹھہری ۔
اس طرح کے ترجمے یں اردو جملوں
کے اجزائے ترکیبی کی ترتیب بدل جاتی ہے ۔ فعل اسم یا فاعل سے پہلے آجاتے ہے اور حرف
جار کی ترتیب بھی بدل جاتی ہے ۔ اس سے قاری کو اکثر آیتوں کا مفہوم سمجھنے میں مشکل
پیش آتی ہے۔قرآن کے اردو ترجمے کے اسی طریقے کو بنیا د بناکر اردو کے طنز و مزاح نگار
ملا رموزی نے مزاح نگاری کا ایک نیا اسلوب ایجاد کیا تھا جسکو گلابی اردو کا نام دیاگیا۔
انہوں نے مضامین اسی طریقے پر لکھے جس پر قرآن کے تراجم لکھے جاتے ہیں ۔ ملا رموزی
کی گلابی اردوکا ایک نمونہ پیش ہے :
’’ اماں بعد! اے محترم مفت کی کتابیں پڑھنے والو! کیا مگر اچک لے گیا
شیطان راندہ ہوا عقلوں درجہ سوم تمہاری کا ۔ یا نہ رہی غیرت بیچ دلوں سے تہماری کے
کہ پڑھتے ہو کتابیں تم مانگ کر دوستوں سے بھی ، محلے والوں سے مگر نہیں شرماتے تم،
پس قسم ہے اس بے شرمی تمہاری کی کہ گالیاں دیتاہے تم کو پیچھے تمہارے وہ شخص کہ مانگ
کر لائے تم کتاب جس سے پس اگر باقی ہے بیچ دل ودماغ تمہارے کے حرارت تو خود خردی کر
پڑھا کرو تم کتابیں ، موافق پسند اپنی کے کیونکہ البتہ تحقیق ہے یہ کام برا، پس دور
رہو تم اس سے اور جو نہیں ہوسکتے ہو یا نہیں ہو سکتی ہو تم خریدنا مبلغ کتاب کا بہ
سبب افلاس اپنے کے تو صبر ہی بہتر ہے واسطے تہمارے کیونکہ نہیں ہے اور البتہ تحقیق
نہیں ہے ضروری یہ کہ فروخت کی جائے غیرت بدلے کسی کتاب کے جیسے فروخت ہورہی ہے غیرت
اور حیا ہندوستانیوں کی ذریعہ نئے تمدن اور نئی تہذیب کے پس کیا نہ دیکھا تم نے اے
شاگرد نیک بخت کہ چلتی ہیں اوپر سڑکوں ٹھنڈی کے ہندوستان زادیاں اٹھاکر سینہ اپنا ساتھ
طریقوں یورپ مگر بے خبر ہیں وہ رسوائی اپنی سے مگر اے عجب ماں باپ اسی مسما ۃُ کے
۔ پس ہو تم رکھنے والے عقل سلیم اور مذاق علمی کے تو خریدار پہنچاؤ ہم کو اس کتاب کے
ساتھ کثرت سے زیادہ کے تا دن حشر کے نجات پاؤ تم تعزیرات ہند اور پریس ایکٹ سے بھی
، محل موتیوں کے ملیں تم کو بھی کہ جب لطف اٹھاتے ہو تم کتاب ملا رموزی کی تو لفف پہنچاآ
تم خریدار زیادہ سے ملا رموزی اپنے گھر کے ۔‘‘
شاہ رفیع الدین کے بعد شاہ
ولی اللہ کے چوتھے فرزند شاہ عبدالقادر نے بھی قرآن مجید کا ترجمہ موضح القرآن کے نام
سے کیا۔ انھوں نے ترجمے میں کچھ اجتہادی رویہ اپنایا اور اپنے بھائی کے لفظ بہ لفظ
ترجمے کے طریقے سے تھوڑا ہٹ کر اردو کے اسلوب میں ترجمہ کیا۔ وہ کہتے تھے کہ ’ترکیبِ
ہندی (اردو) ترکیبِ عربی سے بہت بعید ہے ۔‘شاہ عبدالقارکے ترجمے کا نمونہ پیش ہے ۔
’’ٹوٹ گئے ہاتھ ابی لہب کے اور ٹوٹ گیا وہ آپ۔ کام نہ آیا اس کو مال
اس کا اور نہ جو کمایا۔ اب بیٹھے گا ڈیگ مارتی آگ میں اور اس کی جورو سر پر لئے پھرتی
ایندھن ۔ اس کی گردن میں رسی مونج کی۔ ‘‘
پھر بھی وہ اس اجتہادی راہ
پر زیادہ دور نہیں چل سکے غالباً متن کے تقدس کاخیال انہیں بھی ترجمے کے اس طریقے کو
پوری طرح چھوڑنے کو تیار نہ کرسکا۔یہ مندرجہ بالا ترجمے سے ظاہر ہے ۔بییسویں صدی تک
قرآن کے اردو کے ترجمے کے فن نے ارتقا کا ایک لمبا سفر طے کیا ہے اور معنوی طور پر
قرآن کے اردو ترجمے بہتر ہوئے ہیں مگر اب بھی قرآن کے ترجمے کا لفظ بہ لفظ ترجمے کا
طریقہ اپنایا جارہاہے جبکہ انگریزی تراجم میں انگریزی کے نحوی ساخت کو ہی اپنایاجاتاہے۔
شاہ عبدالقاد ر کے بعد شاہ حقانی کی تفسیر 1791-92ء میں منظر عام پر آئی اور 1801ء
میں حکیم اشرف نے بھی اپنے ترجمے میں شاہ رفیع الدین کے ترجمے کو اپنا یا تھا ۔ ترجمے
کے اس طریقے کی خامی یہ ہے کہ اس میں ترجمہ نگار اردو میں بامحاورہ رواں ترجمہ نہیں
کرسکتا اور عربی آیتوں کے متن کو رواں اردو میں اردو کے مزاج کے مطابق نہیں ڈھال سکتا۔
مثال کے طور پر مولانا محمودالحسن ایک آیت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں :
و لماّ رجع موسی اِلی قومہہ
غضبان اسفا (الاعراف :150)
ترجمہ : اور جب لوٹ آیا موسی
اپنی قوم میں غصہ میں بھرا ہوا افسوسناک
اس کا رواں اردو میں بامحاورہ
ترجمہ اس طرح کیا جاسکتاتھا ۔
’ اور جب موسی اپنی قوم میں غم و غصہ سے بھرا ہوا لوٹ آیا۔
غصہ میں بھراہوا افسوسناک
‘ اچھا ترجمہ نہیں ہے اور نہ اس میں ترتیب یا بیان کا حسن ہے جبکہ کلام اللہ میں کوئی
کفظ یاآیت ترتیب کے حسن سے عاری نہیں ہے ۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے
اس آیت کا ترجمہ یوں کیاہے
اور جب موسی اپنی قوم میں
واپس آئے غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے ۔
انہوں نے ترجمے میں اردو کی
ترتیب استعما ل جزوی طور پر کی ہے ۔ وہ بھی لفط بہ لفظ ترجمے کی روش کو پوری طرح نہیں
چھوڑ سکے۔ وہ اس جملے کو اس طرح لکھ سکتے تھے۔
’’اور جب موسی اپنی قوم میں غصہ اور رنج میں بھرے ہوئے واپس آئے‘‘
خدا کا کلام علم بیان کا اعلی
ترین نمونہ ہے اور اللہ نے قرآن کے ذریعہ سیانسانوں کو علم بیان سکھایا۔
علمہ البیان (الرحمن : ۴)
’’اس کو علم بیان سکھایا۔‘‘
اس لئے اس کے ترجمے کا بھی
تقاضہ ہے کہ اس میں قریب ترین مفہوم کی ترسیل کی کوشش کے ساتھ ساتھ حسن بیان اور حسنِ
ترتیب بھی ہو۔ اس مضمون کی اگلی اقساط میں قرآن کے اردو تراجم کی ایسی ہی ناہمواریوں
کا مطالعہ پیش کرنے کی ادنی سی کوشش کی جائے گی۔
حوالہ :
اردو ادب کی مختصر تاریخ از
ڈاکٹر انور سدید
دیوار قہقہہ از فاروق ارگلی
URL:
https://www.newageislam.com/urdu-section/comparative-study-quran-urdu-translations/d/113637