روشن، نیو ایج اسلام
24 دسمبر، 2014
جس طرح فزکس اور کیمسٹری کے لیے آفاقی اصول و ضوابط ہیں اسی طرح نفسیات یا روح کے لیے آفاقی قوانین اور اصول و ضوابط موجود ہیں۔ ان قوانین میں سے ایک " جیسی کرنی ویسی بھرنی" کا قانون ہے۔ مختلف مذاہب میں اس قانون کی مختلف طریقوں سے توضیح و تشریح کی گئی ہے۔ مثلاً نیک اعمال کے لیے انعامات اور برے اعمال کے لیے سزا کا قانون۔ ہو سکتا ہے کہ فزکس اور کیمسٹری کے قوانین ہم عام لوگوں کو سمجھنے کے لیے بہت پیچیدہ ہوں لیکن "جیسی کرنی ویسی بھرنی" کے قانون کی حقانیت آسانی کے ساتھ کوئی بھی سمجھ سکتا ہے۔
کسی کو بھی یہ سمجھنے کے لیے کہ "جیسی کرنی ویسی بھرنی" کا قانون کس برح عمل کرتا ہے کسی تجربہ گاہ میں جاکر کوئی پیچیدہ تجربہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو صرف کچھ وقت لیکر خود کے بارے میں یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ اگر آپ کو اس لمحے خوشی محسوس ہوتی ہے تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ آپ ایسا اس لیے محسوس کر رہے ہیں کیوں کہ آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں پر مہربان رہتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ مطمئن محسوس کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ ا س تبدیلی کی وجہ سے ہے جو چیزوں کے بارے میں شکوہ کناں ہو کر آپ نے اپنے اندر پیدا نہیں کیا ہے، یہاں تک کہ موسم کے بارے میں یا اپنے سوپ میں نمک کی مقدار کے بارے میں بھی ۔ اگر آپ آرام اور سکون محسوس کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آج صبح آپ نے کسی کے بارے میں غیبت کرنے یا کسی کی بد گوئی کرنے سے خود کو روک لیا ہے یا شاید آپ نے کسی ضرورت مند کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہے۔ اگر آپ خوش طبعی یا زندہ دلی محسوس کرتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم ہو گا کہ حال ہی میں آپ نے چاروں طرف محبت اور خوشی کی لہر دوڑا ئی ہے، یہاں تک کہ کسی بالکل اجنبی کو دیکھ کر مسکرانے سے بھی آپ کو انتہائی درجے کی خوشی حاصل ہوگی۔ اگر آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہو اور کوئی بالکل صحیح وقت پر آپ کی مدد کے لیے پہنچ جاتا ہے تو آپ کو اس بات کا احساس ہو سکتا ہے کہ ایسا آپ کے ساتھ اس مثبت توانائی کی وجہ سے پیش آیا جو آپ اپنے ارد گرد پھیلا رہے ہیں جس کے نتیجے میں وہ اچھائی ضرورت کے وقت آپ کی طرف لوٹ رہی ہے۔
اور اگر آپ خود کو اداس اور زندگی سے سے مایوس پائیں تو ممکن ہے کہ آپ نے ہر خاص و عام کے خلاف یا مخصوص لوگوں کے ساتھ برائی کا معاملہ کیا ہے۔ اگر آپ خود کو تن تنہا محسوس کر رہے ہیں اور اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ اس دنیا میں کوئی بھی آپ سے محبت نہیں کرتا ہے تو ایسا اس لیے کہ آپ بھی دوسروں سےبہت محبت نہیں کرتے۔ اگر آپ پریشان اور اکیلیے ہیں اور کوئی بھی آپ کے ساتھ دوستی نہیں کرنا چاہتا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے بھی لوگوں کے ساتھ دوستانہ مراسم پیدا کرنے کی زحمت نہیں کی ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے رشتہ دار اور یہاں تک کہ وہ لوگ جنہیں آپ کبھی اپنا سب سے قریبی دوست سمجھتے تھے وہ بھی آپ کو نظر انداز کر رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خود آپ نے ان کو نظر انداز کیا ہے یا ان کی موجودگی میں آپ نے انہیں خفیہ طور پر شرمندہ کیا ہے۔ اگر آپ اس بات کو لیکر فکر مند ہیں کہ کوئی بھی آپ کو دیکھ کر نہیں مسکراتا تو شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے انہیں دیکھ کر مسکرانے میں پہل نہیں کی ہے۔ آپ جو منفی توانائی لوگوں کے درمیان پھیلاتے ہیں وہ "جیسی کرنے ویسی بھرنی" کے قانون کے مطابق یقیناً دوسروں کی جانب سے آپ کو بھی پہنچے گی۔
"جیسی کرنی ویسی بھرنی" کے اس قانون کا اجراء اجتماعی سطح پر تقریبا اسی طرح ہوتا ہے انفرادی سطح پر ہوتا ہے۔ اگر مجموعی طور پر ایک پوری کمیونٹی مثبت سوچ و فکر کو فروٖغ دیتی ہے تو اس کے بدلے میں دوسرےبھی اس کے ساتھ مثبت رویہ پیش کریں گے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی معاشرہ علم اور مفید ٹیکنالوجی کو فروغ دیکر یا سماجی شعبوں میں کوئی ترقی کر کے اس سے دوسروں کی بھلائی کا سامان مہیا کراتا ہے تو ممکن ہے کہ اسے دوسری قوموں کا احترام، داد و تحسین اور محبت حاصل ہو جو اسے ایک قیمتی اثاثہ کا درجہ عطاء کریں گی۔ دوسری طرف جو قوم ہمیشہ منفی محرکات کو فروغ دیتی ہے، ہمیشہ دوسروں کے خلاف شکوہ کناں رہتی ہے لیکن ان کے لیے کوئی مثبت قدم نہیں اٹھاتی، جو نفرت پھیلاتی ہے، جو تباہی، دہشت گردی اور تشدد میں مصروف عمل رہتی ہے وہ شاید ہی اس بات کی امید کر سکتی ہے کہ اسے دوسروں کا احترام اور محبت حاصل ہو یا لوگ اسے ایک بوجھ کے زیادہ کچھ اور بھی سمجھیں۔ اگر اسے ایسا لگتا ہےکہ دوسری قومیں ان سے نفرت کرتی ہیں تو ایسا اس لیے ہے کہ اس نے خود کے لیے ایسی نفرت کی بیج بوئی ہے۔ "جیسی کرنے ویسی بھرنی" قانون کے مطابق اسے بالکل وہی ملے گا جو اس نے انہیں دیا ہے-ان کی مخالفت، نفرت اور بیزاری۔ اس سے زیادہ وہ قوم کسی بھی چیز کی امید نہیں کر سکتی۔
لیکن اس دنیا میں اس شخص کےلیے بھی امید کی کرن ہےجو انتہائی مردود اور نا پسندیدہ ہے۔ خدا نے ایک آزاد مرضی کا تحفہ ہمیں عطا کیا ہے۔ ہم انفرادی یا ایک قوم کی حیثیت سے اگر چاہیں تو اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے تئیں دوسروں کے رویوں میں بھی تبدیلی پیدا ہو جائے گی۔ ہم ہمیشہ منفی رویہ اختیار کرنے اور اس کے بدلے میں دوسروں کے منفی رویہ کا شکار ہونے پر مجبور نہیں ہیں۔ اگر ہم ناخوشی، تنہائی اور محبت سے محرومی سے خوش نہیں ہیں تو پھر "جیسی کرنی ویسی بھرنی" کے اصول کے مطابق ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم لوگوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ پیش کریں جس کی ہم دوسروں سے توقع رکھتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگ ہم سے محبت اور ہمارا احترام کریں اور ہمارے ساتھ اچھائی اور مہربانی کے ساتھ پیش آئیں تو ہمیں صرف خود انہیں محبت کرنے اور ان کا احترام کرنے اور ان کے ساتھ اچھائی اور مہربانی کے ساتھ پیش آنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد جب "جیسی کرنی ویسی بھرنی " کے قانون کے کرامتی نتائج قابل دید ہوں گے!
URL for English article: https://newageislam.com/spiritual-meditations/get-give/d/100677
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/get-give-/d/101063