رومان رضوی
11 مئی ، 2013
قرآن مجید کا ایک سر سری مطالعہ کرنے والا بھی اس حقیقت سے باخبر ہے کہ قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات اور نظام زندگی ہے۔ جس میں زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ قرآن کو اگر نگاہ ِ بصارت سے دیکھا جائے تو یہ ایک کتاب ہے ، لیکن اگر نگاہ بصیرت سے دیکھا تو یہ وہ بادی ہے جو گمراہوں کو راہِ مستقیم پر لے آتا ہے ۔ یہ ایک ایسی جامع کتاب ہے جس میں نہ تو شک کا امکان ہے ، نہ تو غلطی کا شائبہ ہے ۔ بہت ساری کتابیں ورق دنیا پر ابھر کر آئیں اور زمان و مکان کی تبدیلی کے ساتھ مانڈ پڑ گئیں ۔ مگر یہ فقط قرآن مجید کا زندہ جاوید معجز ہ ہے کہ وقت جتنا گزررہا ہے قرآن مجید کے کمالات اتنے ہی ظاہر ہورہے ہیں ۔ اور اسے جتنا مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے یہ اتنا ہی ابھر کر دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ اور ایسا ہو بھی کیوں نہ اس لئے کہ اس کا مصنف وہ ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہر انسان یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ کتاب چاہے کوئی بھی ہو اس کے پڑھنے کا فائدہ تب ہی ہوگا جب اسے سمجھ کر پڑھا جائے ۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ کتاب کے بارے میں سب سے بہتر وہی بتائے گا جس نے کتاب لکھی ہے۔ مثلاً میں نے ایک کتاب تحریر کی تو یہ طے مجھے کرنا ہے کہ تحریر کتاب کا مقصد کیا ہے؟ اور یہ کتاب کس کے لئے ہے؟ اور اسے کون پڑھے گا؟۔۔۔۔۔
اسی بات کو آئیے ہم قرآن پر تطبیق کریں۔ قرآن کے متعلق کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ کوئی طے کرے کہ قرآن کون پڑھے اور کون نہیں پڑھے ؟ بلکہ جو اس کتاب کا مصنف ہے ، جو ا س کا مالک ہے یہ وہی طے کرے گا کہ قرآن کس کے لئے ہے اور اسے کون پڑھے ؟ اس بات کو جاننے کے لئے بجائے دنیا کی گرد چھانی جائے خالق قرآن سے ہی پوچھا جائے کہ اس کا مخاطب کون ہے؟ خالق قرآن قرآن مجید میں ارشاد فرما رہا ہے کہ : ‘‘ یا ایھاالناس قد جاکم برھان من ربکم ’’ ( سورہ نسا آیۃ :105)
ترجمہ: اے لوگو! اس میں تو شک ہی نہیں کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے (دین حق کی ) دلیل آچکی ہے۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے تحریر کردہ آیت میں ‘‘ یا ایھا الناس ’’ کہ انسانوں کو مخاطب کیا ہے نہ یہ کہ کسی فرقے ، کسی مذہب کو! اور واضح اور روشن کردیا ہے کہ قرآن انسانوں کے لئے ہے۔ اور یہ فیصلہ خالق کتاب کا ہے۔
قرآن میں بہت سے مقامات پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ‘‘ یا ایھا الناس ’’ کہا ہے اور براہِ راست انسانوں کو مخاطب کیا ہے۔ اور جس آیت کو میں نے بطور مثال پیش کیا اس میں تو رب العزت واضح طور پر ارشاد فرما رہا ہے کہ ‘‘ اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے یعنی قرآن مجید !
لہٰذا انسانوں کو چاہئے کہ اسے پڑھے اور سمجھ کر پڑھے اس لئے کہ کوئی بھی کتاب ا س وقت تک فیض نہیں پہنچا سکتی جب تک اسے سمجھ کر نہ پڑھا جائے ۔ لیکن یہاں پر میں ایک بات قرآن کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ فقط قرآن کا امتیاز ہے کہ چاہے اسے سمجھ کر پڑھا جائے ۔ یا یوں ہی اس کی فقط تلاوت کی جائے یہ دونوں ہی جہت سے اپنے قاری کے لئے مفید ہے۔میں اپنی اس بات کو مثال سے روشن کرنا چاہتا ہوں کہ ‘‘ دو شخص ہے اور دونوں کے ہاتھ میں ایک ایک سیب ہے ۔ ایک شخص سیب کے فائدے سے واقف ہے اور دوسرا انجان ۔ مگر جب دونوں سیب کھائیں گے تو دونوں کو اس کا فائدہ پہنچے گا اور سیب اسے تقویت strength بخشے گا۔’’
با لکل اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کو چاہے سمجھ کر پڑھے ، یا یوں ہی بغیر اس کے رموز و معانی کو سمجھے اس کی تلاوت کرے دونوں ہی صورت میں قاری قرآن کو قرآن فیضیاب کرتا ہے ۔ لیکن دونوں کے فائدے میں فرق ہے، جو بغیر سمجھ کر پڑھے گا ، اسے فقط روحانی فائدہ پہنچے گا ۔ اور وہ ثواب کا حقدار ہوگا۔ لیکن جو سمجھ سمجھ کر پڑھے گا وہ حقدار ثواب بھی ہوگا اور وہ ان معارف اور کائنات علم سے آگاہ بھی ہوگا جس سے وہ لا علم تھا اور اس کے ذریعہ وہ اپنی زندگی کو خدا کے بتائے ہوئے طرز پر زیادہ سے زیادہ ڈھالنے کی کوشش کرے گا۔ اور مقام عمل میں قرآن اسے فائدہ بھی پہنچائے گا ۔ کس طرح قرآن سمجھ کر پڑھنے سے قرآن انسان کی ہدایت کرتا ہے اس کی زندہ مثال قارئین کرام کی خدمت عالیہ میں پیش کرتا ہوں۔
‘‘ ایک نو مسلم خاتون محترمہ فاطمہ گراہم : آپ فرماتی ہیں کہ میں 16 سال کی عمر میں مسلمان ہوئی بچپن میں بھی میں تقریباً مذہبی انسان تھی ۔ میرے والد عیسائی تھے ۔ تاہم وہ مذہبی فرائض پر عمل نہیں کیا کرتے تھے ۔ ان کے برعکس میری والدہ اور نانی بہت ہی مذہبی خواتین تھیں۔ وہ دونوں دیندار کیتھولک تھیں ۔ میں کیتھولک اسکول گئی ۔ جہاں ہم ہر سبق شروع ہونے سے قبل مناجات کیا کرتے تھے ۔ میں ایک نوجوان (18 سال سے کم بچی) کے عنوان سے مختلف مذہبی موضوعات میں تحقیق و مطالعہ کرنے لگی، میں نے دنیا کے مختلف ادیان و مذاہب کامطالعہ کیا اور میں نے کوشش کی کہ اس چیز کو ڈھونڈ نکالوں جو میری نظر میں درست تھی جس کے ذریعے میں سکون کا احساس کر سکوں ۔ لیکن کتابوں میں صرف نظر یات theories تھیں۔ ابھی میں 16 سال کی تھی کہ اسکول سے کالج چلی گئی اور وہاں مجھے متعدد مسلمان دوستوں سے ملنے کاموقعہ ملا۔ جس کی اکثریت ایشیائی معاشروں سے تعلق رکھتی تھی ۔ ایک روز دن کے کھانے کے وقت ان کے پاس چلی گئی لیکن میں نے دیکھا کہ ان سب نے روزہ رکھا ہوا ہے ۔ میں بہت حیرت زدہ ہوئی اور ان سے روزے کے بارے میں سوالات پوچھے ۔ ان سے میں نے ان کے عقائد کے بارے میں بھی متعدد سوالات پوچھے۔ کیتھولک عیسائی بھی اپنے دین میں ایک قسم کے روزے کا تصور رکھتے ہیں ۔ جس کو Lent کہا جاتا ہے ۔لیکن مسلمانوں کا روزہ زیادہ سنجیدہ ہے جو مسلمانوں کے ایثار ، فدا کاری اور زیادہ صبر و تحمل کی علامت ہے ۔ میرے دوستوں نے قرآن کا انگریزی ترجمہ میرے حوالے کیا ۔ جب میں نے قرآن کی تلاوت شروع کی تو میرے قلب اور قرآن کے درمیان ایک رشتہ قائم ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ اپنے گھر آپہنچی ہوں اور یہی میرا دین ہے۔ میں نے اپنا دین پا لیا تھا ۔ اس وقت کے جذبات بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کوئی بھی پیچیدہ مطالعہ اور کوئی بھی طویل مباحثہ نہیں ہوا، صرف ایک فو ری رشتہ اور تعلق قرآن اور میرے قلب کے درمیان قائم ہوا ۔اس کے چند ہی روز بعد اپنے بہن بھائیوں میں سے ایک کے گھر میں ، میں نے شہادتیں جاری کئے ’’۔( ماخوذاز:ماہنامہ اصلاح اپریل 2012)
مندرجہ بالا عبارت ایک نو مسلم خاتون فاطمہ گراہم کی ہے جس نے میری اس بات کو اور بھی مدلل بنا دیا کہ قرآن سمجھ کر پڑھنے سےاگر انسان گمراہ ہے تو اسے یہ قرآن راہ مستقیم دکھاتا ہے اور ثواب کاحقدار بھی بناتا ہے ۔مقاصد قرآن میں یہی ہیں کہ :
انسان جہل کی تاریکی سے علم کی روشنی میں آئے انسان بد اخلاقی کے کیچڑ سے اخلاق کی خملی گذے پر مسند نشین ہو۔
معاشرے میں عدل و انصاف کابول بالا رہے ۔
حقدار کو اس کاحق ملے۔
انسان اپنے آپ کو لباس بندگی سے مزین کرے انسان کبھی یہ نہ بھولے بقول امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو وہ کہاں سے آیا ہے ، کہاں ہے اور اسے کہاں جانا ہے؟
انسان اتنا بلند ہوجائے کہ بقول علامہ اقبال
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
قرآن خود کہہ رہا ہے کہ ( سورہ آل عمران آیتہ 138)
یہ ( جو ہم نے کہا ) عام لوگوں کے لئے صرف بیان ہے مگر متقیوں کے لئے نصیحت ہے ۔
طوالت مضمون کے مد نظر اپنے قلم کو گرفت میں لیتے ہوئے اور اپنی کم مائیگی علم کا اعتراف کرتے ہوئے مختصراً یہ کہ قرآن ومقدس کتاب ہے جسے اللہ نے نازل کیا اور وہی اسکی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ اور اس رحیم وکریم معبودِ حقیقی نے قیامت تک کے لوگوں کو بہ شکل ‘‘ قرآن ’’ ایک ایسا Syllabus دے دیا ہے کہ جسے انسان سمجھ کر پڑھے اور اپنی زندگی کو اس کے بتائے اصول اور قوانین کے مطابق رکھے تولا کھ دنیا پر ُ آشوب ہو ، ماحول ناساز گار ہو، اس پرکوئی اثر نہیں پڑنے والا۔
آج Science جتنی ترقی کرتی جارہی ہے قرآن کے جواہر اتنے ہی نکھرتے جارہے ہیں ۔ اس لئے قرآن ترقی کے راستے ہموار کرتا ہے ۔ قرآن اور دین کسی کی ترقی کے لئے مانع نہیں ہے ۔ تمام فلسفی کہتے ہیں کہ انسان جسم و روح کا مجموعہ ہے ۔ تو اس قرآن نے دونوں کی ترقی اور تنزلی کی راہ دکھائی ہے ۔ جسم کو نقصان پہنچانے والی چیزوں میں شراب و دیگر گنا بانِ کبیرہ بتائے ۔ وہیں روح کو ضرر پہنچانے والی چیزوں میں جھوٹ ، بغض و کینہ ، خود پسندی وغیرہ وغیرہ ہے ۔ آج Science تحقیق کر چکی ہے کہ قرآن کے اصول کے مطابق اگر جانور ذبح ہوتا ہے تو صحت کے لئے باعثِ قوت ہے اور اگر جھٹکے کے ساتھ ہوتو صحت کے لئے نقصاندہ ہے ۔لیکن یہ ساری باتیں انسان کو اس وقت سمجھ میں آئیں گی ۔
جب انسان قرآن کو سمجھ کر پڑھے گا ۔ جب اپنے فہم و ادراک کے دریچے کو وا کر کے قرآن کا مطالعہ کرے گا تو آیت قرآن کی باد صبا و باد نسیم اس کے مضمحل ذہن کو سکون بھی بخشے گی، اور اسے دن بہ دن ، روز بہ روز ترقی کے نئے راستوں سے ہمکنار بھی کرائے گی ۔ اس لئے کہ خود قرآن کا خالق ارشاد فرما رہا ہے کہ کوئی خشک و تر ایسا نہیں ہے جو قرآن میں نہ ہو۔
لہٰذا اگر انسان خزانوں کا متلاشی ہے تو اسے معافی و مفاہیم قرآن کے بسیط سمندر میں اس طرح اتر نا ہوگا جس طرح ایک تیراک Swimmer کی کھوج اور تلاش میں خود کو سمندر کی گہرائی تک لے جاتا ہے ۔
11 مئی، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت، لکھنؤ
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/is-necessary-read-quran-with/d/11806