New Age Islam
Sat Jan 25 2025, 04:02 AM

Urdu Section ( 15 Aug 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Role of Islamic Scholars in India’s independence movement ہندوستان کی آزادی میں علمائے کرام کا حصہ


عادل صدیقی

1789 میں انقلاب فرانس کے بعد متعدد ملکوں نے آزاد ہونے کی جدوجہد شروع کی لیکن ہندوستان میں جدوجہد آزادی مسلمانوں کی مرہون منت ہے علمائے اسلام نے ہندوستان میں جدوجہد آزادی کی داغ بیل ڈالی،1803 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے قدم جمالئے اور شہنشاہ شاہ عالم کو اپنے قابو میں کرلیا۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی وہ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف آواز بلند کی آپ نے دہلی کی جامع مسجد سے اعلان کیا کہ مسلمانوں کا یہ مذہبی فریضہ ہے کہ وہ سلطنت برطانیہ کے خلاف علم بغاوت بلند کریں رفتہ رفتہ آپ کی آواز پورے ملک میں پھیل گئی۔ 1826 میں مولانا اسماعیل دہلی اور سید احمد شہید بریلوی نے صادق پور سے لے کر دلّی تک مسلمانوں کی قیادت سنبھالی۔آپ کی تحریک آزادی بنگال سے لے کر صوبہ سرحد تک جگہ جگہ پھیل گئی اور 1831 تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ لیکن آپ کی تحریک آزادی ناکام ہوگئی اس لئے برطانوی افواج نے اس تحریک سے جڑے ہوئے بیشتر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔اس کے بعد 1857 میں ہندوستان کی تحریک آزادی دوبارہ سے زور پکڑ گئی اس میں ہزارہا ہندوؤں او رمسلمانوں نے کاندھے سے کاندھا ملا کر حصہ لیا۔اس تحریک میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مولانا رشید احمد گنگوہی،مولانا قاسم نانوتوی اور حافظ ضامن شہید وغیرہ پیش پیش رہے۔  یہ تحریک عدم تشدد کے اصولوں کو اپنا کر آگے بڑھی مگر یہ بھی برطانیہ کو ہندوستان پر قبضہ جمانے سے نہ روک سکی۔ برطانوی فوجوں نے ہزاروں علماء کو موت کے گھاٹ اتار دیا اس کے بعد تحریک آزادی سے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن کی قیادت میں شروع ہوئی۔ اس تحریک آزادی کا تفصیلی ذکر ہندوستان کے سبھی مشہور او رمستند مورخین نے کیا ہے مثلاً ڈاکٹر تارا چند، ایشوری پرساد اور ڈاکٹر کے ایم پاٹیکر وغیرہ وغیرہ۔

اس میں سرحدی افغانوں کا تعاون حاصل کیا گیا۔مزید سلطان ترکی نیز تحریک خلافت سے اسے مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی۔ شیخ الہند نے 1915 میں کابل میں ہندوستان کی جلاوطن حکومت قائم کرنے اور ہندوستان کی آزادی کااعلا ن کیا اوربرکت اللہ بھوپالی کو وزیر خارجہ بنایا کہ ہندوستان آزادی چاہتا ہے اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ پیغام دیا کہ ہندوستان کی آزادی ہندو او رمسلم اتحاد سے ہی حاصل کرسکتی ہے۔چنانچہ اس جلاوطن حکومت کا پہلا صدر راجہ مہندر پرتاپ کو بنایا، انہیں کے نقش قدم پرچل کر سبھاش چندر بوس نے ٹوکیوں میں انڈین نیشنل آرمی قائم کی تھی۔ آزاد ہندوستان میں اس نیشنل آرمی کے رکن شاہنواز صاحب کو ہندوستان کا پہلا وزیر زراعت بنایا گیا تھا۔اس کام میں شیخ الہند نے مولانا عبیداللہ سندھی کاتعاون حاصل کیا تھا۔ اس زمانے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے ’الہلال‘نامی اخبار نکالا او راس کے ذریعہ ہندوستانی عوام کو بیدار کیا۔ شیخ الہند کی تحریک آزادی کو تعاون دینے والے حکیم اجمل خاں،خان عبدالغفار خاں،ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور دیگر بہت سے محبان وطن شامل تھے۔ شیخ الہند نے دیوبند سے مدینہ منورہ تک کا سفر کیا اور وہاں بیٹھ کر خلافت عثمانیہ کی مدد اور اسکا تعاون حاصل کیا اور ریشمی رومال کے ذریعہ پیغام رسانی کا سلسلہ شروع کیا۔ اس تحریک کا ذکر سبھی تاریخی کتابوں میں تفصیل سے موجود ہے۔ اس خط و کتابت کا پتہ برطانیہ کو چل گیا چنانچہ 1917 میں شیخ الہند کو گرفتار کرلیا گیا او ران کا مالٹا بھیج دیا گیا۔ اس تحریک سے وابستہ کچھ دیگرافراد کو بھی گرفتار کرلیا گیا بہر صورت یہ تحریک بھی ناکام ہوگئی۔ دراصل یہ تحریک چونکہ غیر ملکوں میں بیٹھ کرچلائی گئی لہٰذا اس کاراز محفوظ رہنا انتہائی مشکل تھا لیکن اس تحریک کے درپردہ اثرات ہندوستانی عوام کے دلوں کو آزادی کی طرف راغب کرنے میں کامیاب رہے۔ اب ہندوستان میں برطانوی سامراج سے لڑنے کے لئے ہندوستانی عوام کا ذہن بن گیا اور اب ان کو ملک کی آزادی کا نعرہ بے حد متاثر کرنے لگا۔

1919میں دلّی میں خلافت تحریک سے متعلق ایک کانفرنس ہوئی۔ اس موقع پر مولانا عبدالباری فرنگی محلی اور حضرت شیخ الہند کے رفقائے کار نے مل کر یہ پلان بنایا کہ علمائے کرام کا الگ سے ایک پلیٹ فارم تشکیل دیا جانا چاہئے تاکہ برطانوی سامراج کے خلاف ملک کو آزاد کرانے کیلئے تحریک چلائی جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پلیٹ فارم سے کانگریس کی ان کوششوں کو بار آور بنانے کی بھی کوشش کی گئی جو وہ ملک کی آزادی کے حوالے سے کررہی تھی۔ چنانچہ دلّی میں شیخ الہند مولانا محمود حسن کی صدارت میں جمعیۃ العلماء ہند کا پہلا افتتاحی اجلاس ہوا۔ اس میں ہر مکتبہ فکر کے علماء نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں عدم تعاون تحریک کو موثر ڈھنگ سے برؤے کارلانے کے سلسلے میں غور وخوض ہوا۔ اس اجلاس میں ایک قرار داد کے ذریعہ ملک بھر کے عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ تحریک عدم تعاون کو کامیاب بنائیں۔ شیخ الہند نے ملک کی آزادی کے حوالے سے چار بنیادی باتوں پر زور دیا۔پہلی بات یہ کہ جدوجہد آزادی میں ہندوستان کی سبھی اقوام مل جل کر کام کریں دوسری بات یہ کہ حقوق انسانی کی جو خلاف ورزیاں ہورہی ہیں ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جائے۔ تیسری بات یہ کہ یہ جدوجہد عدم تشدد کے اصولوں کے تحت آگے بڑھے چوتھی بات یہ کہ ملک میں سبھی مذاہب کو عزت واحترام سے دیکھا جائے او رکوئی بھی مذہب دوسرے مذہب میں مداخلت نہ کرے ان اصولوں کو سامنے رکھ کر کانگریس نے 1926 میں ملک کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ 1942 میں بھارت چھوڑ و تحریک بھی انہیں اصولوں کو سامنے رکھ کر چلائی گئی۔ چنانچہ ان ہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ملک 1947 میں آزاد ہوا۔ خاص بات یہ کہ ہندوستان آئین حصول آزادی کے بعد سیکولر بنیادوں پر تشکیل دیا گیا چونکہ کانگریس اور ارکان جمعیۃ نے ملک کو آزاد کرانے میں دوش بدوش کام کیاتھا اس کانتیجہ یہ تھا کہ ملک کا آئین سیکولر بنیادوں پر وضع کیا جاسکا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں 1857 کی جنگ آزادی کے سلسلے میں تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے تاہم اس کاپس منظر آنکھوں سے غائب رہتا ہے اور ہندوستان کی تاریخ آزادی کے بنیادی حقائق آج ہماری درسی کتابوں میں سے غائب ہیں جس سے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ کاش کہ ان بنیادی حقائق کو ہمارے ذرائع ابلاغ واضح کریں تاکہ ملک میں فرقہ وارانہ اتحاد کو تقویت ملے۔ اس لحاظ سے دیوبند،علمائے دیوبند کی خدمات اس سلسلے میں اہم کڑی ہیں یہی وجہ ہے کہ آزادی کے حصول کے بعد ملک کے پہلے صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرساد ملک کی اولین خاتون وزیر اعظم مسز اندراگاندھی اور سبھی دیگر لیڈران سے دیوبند آئے اور یہاں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کو ضروری سمجھا۔ وقت کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم ان صحیح واقعات سے نئی نسل کو آگاہ کریں اور ان تاریخی حقائق کو نصاب تعلیم کا جزو بنائیں تاکہ ملک میں ہندو مسلم اتحاد کو فروغ مل سکے۔ یہ وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔

Source: Daily Jadeed Akhbar, New Delhi, 15 August 2009

URL: https://newageislam.com/urdu-section/role-islamic-scholars-india’s-independence/d/1649

Loading..

Loading..