New Age Islam
Fri Jan 24 2025, 03:06 PM

Urdu Section ( 2 Dec 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Let’s Stop Calling Them Muslims انہیں مسلم کہنا چھوڑ دیں

 

 

 

رابرٹ سلام

23 ستمبر 2013

تقریباً 60 یا  اس سے بھی زیادہ اسلامی ممالک ہیں ۔ چند تخمینوں کے مطابق  تقریباً 5 .1 بلین لوگ مسلم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ جب میں نے  11 ستمبر 2001 کے فوراً بعد اسلام قبول کیا‘اور یہ ستم ظریفی میری سمجھ سے باہر تھی ’ تو میں نے یہ سیکھا کہ مذہب خود میں پر امن ہوتا ہے حالانکہ اپنےملک پر ایک وحشت ناک حملے کی وجہ سے میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا ۔ مجھے یہ معلوم ہوا  کہ مسلمانوں کی تعریف اور ان کا تعین ان کے اعلیٰ اخلاقی کردار کی بنیاد پر کیا جانا چاہئے جو کہ رحمتوں کی ایک ایسی صفت ہے جو اپنی مرضی کو خالق کے سپرد کرنے میں پوشیدہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے مسلمانوں کو ایمان دار اور قابل اعتبار ہونا چاہئے ، انہیں  ایسے لوگوں کا مددگار بننا چاہئے جو خود اپنی مدد نہیں کر سکتے، انہیں بے یارو مددگار لوگوں کا محافظ ہونا چاہئے ، انہیں حق کی آواز بلند کرنی چاہئے  اور انہیں اس دنیا میں کبھی بھی  عناد و دشمنی، فساد  اور نا انصافی  کی وجہ نہیں بننا چاہئے ۔

مسلمانوں کا کردار ایسا ہونا چاہئے کہ وہ  ایسے مقامات کی حفاظت کریں جہاں خدا کی تسبیح و تحلیل کی جاتی ہے خواہ وہ کلیسا ہو ، یہودیوں کی عبادت گاہ ہو ، مندر ہو یا مسجد ہو ۔ مسلمانوں کا اخلاق ایسا ہونا چاہئے کہ  جن کے درمیان ان کے پڑوسی خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم خود کو محفوظ و مامون محسوس کریں ۔ یہ تمام اسباق 2001 میں میں نے اس وقت سیکھے جب مسلمانوں نے نیویارک امریکہ اور واشنگٹن ڈی سی پر حملہ کر کے اسلام کے بالکل  خلاف اپنا کردار ظاہر کیا۔

اس بات کا سبق کہ ایک مسلم ہونے کا کیا مطلب ہے ، اور وہ خوبیاں اور اچھے صفات کیا ہیں جو مسلمانوں میں نمایاں ہونے چاہئے ، اور  جس کا اعادہ باربار کیا جا رہا  ہے  اور جو تعلیم مجھے ان 12 سالوں میں دی گئی ہے  اور اگر چہ مجھے اسلامی تعلیمات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے ۔ اب میں تعجب کرنے لگا  ہوں کہ وہ لوگ جو اسلام کے تعلق سے میری ہی طرح کے افکار و نظریات کے حامل ہیں وہ ایسے نہیں ہیں جیسے مسلم ممالک کے لیڈران ، وہاں کے  شہری ، القاعدہ اور دوسری ملحقہ دہشت جماعتیں ہیں ۔

جو چیز ہمیں ممتاز کرتی ہے ہو سکتاہے کہ وہ  زبان ، مذہبی سمجھ بوجھ یا جغرفیائی صورت حال سے کہیں بڑھ کر ہو ،  ہو سکتا ہے وہ بنیادی معتقدات جس کا ایک  مسلمان حامل ہوتاہے  اور  جس کا نہیں  ہوتا وہی عنصر ہمیں ممتاز کرتاہو ۔ اسی لئے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ میوزیم ، بیش قیمتی مقامات اور تعمیرات کو منہدم کریں گے ، اور شہریوں کا عبادت اور خریداری کرتے ہوئے  بے دریغ قتل کریں گے  اور  جو امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے  کے لئے انسان کی  آبرو اور شرافت کا احترام نہیں کرتےاب وقت آ گیا ہےکہ ہم ان  غیر  مہذب اور وحشی درندوں   کو مسلم کہنا چھوڑ دیں، یا ان کے لئے اس نام کو چھوڑ دیں اور ہم (اعتدال پسند مسلمان ) کوئی دوسرا نام اختیار کرلیں ۔

آخر ہم کب تک ان مسائل سے رو گردانی کریں گے ، مذمتی بیان جاری کریں گے ، معذرت خواہی کریں گے اور کف افسوس ملیں گے اس لئے کہ ہم اس بات کا مشاہدہ کر تے ہیں کہ پوری آبادی (مذہبی تشدد اور دہشت گردی) کی لپیٹ میں ہے۔ خواہ وہ عیسائی ہوں ، احمدی ہوں یا کوئی دوسری اقلیت ہوں پاکستان میں ان کا قتل عام ہو رہا ہے یا وہ مسلم اور عیسائی مرد ، عورت  اور بچے ہوں فلسطین ، مصر اور کینیا میں ان کو موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے۔اور (اسلام ) کےنام پر دہشت گردانہ حملے اور  دھمکیاں بہت ہو گئیں ، ہم ایسے مسائل کو حل کرنے کے لئے کب تک مغرب سے امیدیں وابستہ رکھیں گے  جب 60 سے زیادہ مسلم ممالک کو خود سے ایسے مسائل کو حل کے قابل ہونا چاہئے؟ ان ممالک کے قائدین ان ممالک میں کیا کر رہے ہیں ؟

ہم ان کے خلاف لکھتے ہیں اور تقریریں کرتے ہیں ،جبکہ  وہ حیوان ہمارے مسلم ممالک کی گلیوں میں بے لگام گھوم رہے ہیں  اور  یہ کہتے ہوئے ناپاک جرائم کا ارتکاب کر رہے ہیں کہ وہ یہ سب ہمارے نام  پر کر رہے ہیں ! آپ مجھے نادان کہہ لیں ،  لیکن مجھے نہیں لگتا کہ صفحات در صفحات میں پھیلے ہوئے فتاوے ، شاندار پریس ریلیز  یا اداریہ لکھنے یا ٹی وی یا ریڈیوپر آکر بیان بازی کرنے سے جلد ہی ان دہشت گردوں کی گولیاں اور بم رکنے والے ہیں ۔  در حقیقت میرا ماننا یہ  ہے کہ  اس لعنت سے  صرف اور صرف  داخلی اور خارجی دونوں طور پر تعلیم اور  نگرانی  کے امتزاج ، حقیقی جسمانی مقابلے ، اور ہر  لازمی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر ظلم و استبداد  اور وحشت و درندگی کا  اس روئے زمین سے خاتمہ  کرنے کی  سچی خواہش کے ذریعہ ہی نمٹا جا سکتا ہے ۔ لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب ہما رے اوپر اس کا خمار چھا جائے ، اس لئے کہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو  اس کے بجائے امید لگائے بیٹھے رہیں گے یہاں تک کہ  مغرب  صرف اس لئے لشکر  و سپاہ کی امداد  بھیجے تاکہ بعد میں وہ اس بات کا دعویٰ کر سکے کہ ا س نے لشکر  و سپاہ کی امداد  بھیجی ہے ۔

اب یہ ایسا وقت ہے کہ نام نہاد مسلم ممالک بھی ایسا ہی کام کریں ۔ یہ بڑی ہی شرم کی بات ہے کہ مغرب میں رہنے والے ایک  مسلم کے طور پر مجھے یہ نہیں لگتا  کہ  میں ایسے ممالک میں جا سکتا ہوں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ، صرف اس خوف سے کہ ایسا کوئی شخص جو خود کو مسلمان کہتا ہے کسی بھی طرح میرے کسی فرد کو نقصان پہنچا سکتا ہے ۔ لیکن پھر بھی ہم اسے برداشت کرتے ہیں اور حکومت یا لوگوں سے ان باتوں کا مطالبہ روکنے  کا اصرار کرنے   کے بجائے جسے انجام دینے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں  ایک ادریہ کے ساتھ اس کا جواب دیتے ہیں ۔

ہو سکتا ہے ہ وہ میں ہی ہوں لیکن میں کمزور و نا تواں ہوں اور مسلم ممالک میں ان حیوانوں کے بارے میں سن سن کر تھک گیا ہوں جو گلیوں میں شرو فساد برپا کر رہے ہیں اور  اپنے پڑسیوں کے دلوں میں دہشت پیدا کر  رہے ہیں ۔ میں یہاں امریکہ میں بھی اس بات سے پریشان ہوں کہ  یہاں جب بھی کبھی امن کی طرف کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے یا بین المذاہب ہم آہنگی کی طرف پیش قدمی کی جاتی ہے یا ایسی کوئی سرگرمی انجام دی جاتی ہے جس کی قیادت مسلمانوں کو بھی کرنی چاہئے تو ہر دوسرے دن ایک دوسرا مسئلہ سر ابھارتا ہے ، اور اگر کبھی  مسجدوں یا مسلمانوں  کے ذریعہ ایسی کسی تقریب کا انعقاد کیا  بھی جاتا ہے تو ان کی تعداد بہت کم ہے ۔ میں مسلمانوں سے تھک گیا ہوں اور ایسے لوگوں کی صحبت و رفاقت کا طلبگار ہوں جو صحیح معنوں میں اسلام پر عمل کرتے ہوں ۔

(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)

ماخذ: http://salaamsblog.wordpress.com

URL:

https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/let’s-stop-calling-them-muslims/d/13675

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/let’s-stop-calling-them-muslims/d/34687

 

Loading..

Loading..