رابرٹ فسک
23 جون 2014
برطانیہ نے 2003 میں تاریخ سے ناواقفیت، 1920ء میں برطانیہ کے خلاف بغاوت سے لاعلمی اور قدیم میسوپوٹامیا کے بارے میں ٹی ای لارنس کے انتباہ سے غفلت کے عالم میں عراق پر حملہ کر دیا۔ برطانیہ نے پر جوش ہجوم اور گلاب کی پنکھڑیوں کے اپنے ہی پروپیگنڈے پر یقین کیا جس سے کہ ان کا استقبال کیا جاتا تھا اور وہ عراق پر ان پابندیوں کو بھول بیٹھا جن کی حمایت اس نے 12 سالوں تک کی اور جس کی وجہ سے پانچ لاکھ عراقی بچے مارے گئے۔
اور آج جب ان کی ہی پیداوار نوری المالکی (ISIS) کے خلاف مدد کے لئے ان سے التجاء کر رہا ہے تو برطانیہ نے نظر انداز کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیاہے۔
انتہائی ظالمانہ اور بدعنوان شیعہ حکومت سے پریشان ہو کر جس کی نمائندگی المالکی کر رہے ہیں ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہمیں جمہوریت (ایک ایسا تصور کہ جس کا مطالبہ کسی بھی عرب انقلاب میں نہیں کیا گیا) کے مفاد کے لیے عراق کی "خود مختاری" کو برقرار رکھنا ضروری ہے، تاکہ ہم "دہشت گردی کے خلاف جنگ" میں اپنے ایک نئے "دشمن" یعنی عراق اور شام میں سنی اسلامی "خلافت" کو تباہ کر سکیں۔
جب ہم جنگ میں شامل ہوتے ہیں تو سنیوں کے خلاف عراقی شیعہ کی حمایت میں ہوتے ہی جیسا کہ ہم نے شام میں علوی (اور اس طرح شیعہ) بشار الاسد کی حکومت کے خلاف شام کے سنی باغیوں کی حمایت کی۔ان دونوں ریاستوں کی سرحدیں مٹائی جا رہی ہیں جبکہ ہم اس المناک تماشے میں اپنے اگلے کردار کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہم اس بات کا دکھاوا کر رہے ہیں کہ دونوں ملکوں میں تنازعات مختلف ہیں۔
جب ہم 2003 میں بغداد پہنچے تو ہم نے عراقیوں کو دو زہریلی تحائف عطا کیے۔ سب سے پہلے ہم نے آمریت اور سیکورٹی کے بر عکس انہیں آزادی اور بدنظمی دی، کہ اس سے پہلے جس سے وہ لطف اندوز ہو رہے تھے اور پھر ہم نے ان میں سے ایک ایسی حکومت بنائی جس میں ہر ایک میں آبادی کے اعتبار سے فرقے کی نمائندگی ہوتی تھی۔
اس طرح ہم نے اقلیت (صدام کی) سنی حکومت کو اکثریت شیعہ حکومت (فی الحال مالکی کی مایوس کن انتظامیہ) سے تبدیل کر دیا جس نے فوراً سنیوں سے قطع تعلق کر لیا اور وہاں کی کرد عوام کے مطالبات کو نظر انداز کیا۔ لہذا جب سنی باغیوں کی بغاوت میں سختی ہوئی تو مالکی فوج کے بدعنوان اور کمزور افسران زمین بوس ہو گئے۔
2011 کے بعد جب الاسد کی ظالم و جابر فوج ان باغیوں کے سامنے سرنگوں ہوئی جو اب مالکی کے لیے خطرہ بن گئے ہیں تو ہم مغربیوں کو خوشی ہوئی۔ اور جیسے ہی بےایمان روسیوں کو خوفناک اسد کی حمایت کے لئے تیار کیا گیا ویسے ہی خوفزدہ اوباما بھی ایک ممکنہ اتحادی کے طور پر ایران کے سامنے سر جھکانے اور بدعنوان مالکی کے دفاع کے لئے اپنے ایئر فورس کو حکم دینے کے لیے تیار ہے۔
لیکن سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں یہ یاد رہے کہ دو عناوین ایسے ہیں جن کے بارے میں ہمیں گفتگو نہیں کرنی چاہئے: شامی اور عراقی باغیوں کے لئے ہمارے عزیز دوست سعودی عرب کی حمایت اور جس حد تک مشرق وسطی کی امریکی پالیسی اسرائیل کے تابع ہے۔
(© Independent News Service)
ماخذ:
http://www.independent.ie/opinion/comment/robert-fisk-the-caliphate-in-iraq-is-just-the-latest-enemy-in-our-war-on-terror-30375706.html#sthash.Frqm2SUn.dpuf
URL for English article:
https://newageislam.com/war-terror/the-caliphate-iraq-just-latest/d/97742
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/the-caliphate-iraq-just-latest/d/98909