رضوان اصغر
12 اپریل،2011
( انگریزی سے ترجمہ ۔ نیو ایج اسلام)
ہم ایک دلچسپ زمانے میں رہتے ہیں۔ نا مناسب عمل کا جواب اسی طرح نامناسب انداز میں دینا رفتہ رفتہ دنیا بھر میں ایک قابل قبول طرز عمل بنتا جا رہا ہے۔ امریکہ میں ایک عیسائی بنیاد پرست پادری کے ذریعہ قرآن جلانے کا حالیہ شرمناک واقعہ اور مسلم دنیا کے بعض حصوں میں اس کے بعد کا رد عمل ، بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہم کو فروغ دینے کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتا ہے ۔
ٹیری جونز کے ذریعہ انجام دئے گئے قابل ملامت عمل کے خلاف احتجاج کے موقع پر پرتشدد واقعات کے نتیجے میں افغانستان میں 10 سے زائد لوگ ہلاک کئے گئے ۔ بلا شبہ ، قرآن کریم کی بے حرمتی تمام مذاہب کے درمیان باہمی رواداری کے تصور کے لئے ایک ناقابل برداشت جرم اور ایک توہین ہے، جس کی اس آفاقی دنیا میں اشد ضرورت ہے ۔ لیکن کسی اور کے ذریعہ اشتعال انگیز عمل کی مذمت کے نام پر معصوم لوگوں پر حملہ اور ان کا قتل، کوئی حل نہیں ہے۔ اور مسلمانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ان کے مذہب کی منفی اور مسخ شدہ تصویر ہے ۔ لہٰذا شہرت کے بھوکے ٹیری جونز کو نظر انداز کرنا یا انتہائی پر امن انداز میں اس کے رویے کی مذمت کرنا ہی ایک مناسب رد عمل ہو سکتا ہے ۔
اسلامی اور مغربی، دو اہم تہذیبوں کے درمیان متصادم تعلقات کی موجودہ حالت کے پیش نظر، اس کا ایسا حل انتہائی اہمیت کا حامل ہے جو بین المذاہب اختلافات میں مصالحت میں کار آمد ہوگا ۔ بین المذاہب مکالمے بری افواج کا مقابلے کرنے میں اور مختلف مذہبی کمیونٹیز کے درمیان بنیاد پرست عناصر کو لگام لگانے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں اور ان کے انداز فکر کو سمجھنے کا واحد فطری طریقہ یہی ہے۔
تمام مذہبی کمیونٹیز کو تکثریت کے اقدار پر ان کے عقیدے کی تجدید کرنا اور اعتماد کی تعمیر کی کوششوں میں فعالیت کے ساتھ حصہ لینا چاہئے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کی تعمیر تمام مذاہب کے درمیان مشترکہ بنیاد اور اغراض پر کیا جانا چاہئے۔
تکلیف کی بات یہ ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب کو رحم دلی اور رواداری کے پیغام کو پھیلانے کے ارادے کے ساتھ ہمیشہ بین تہذیبی اختلاف اور کشیدگی کو ہوا دینے کے لئے ایک متعصب اقلیت کے ذریعہ ذاتی مفادات کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ 11 /9 سے پہلے کے دور میں اس مضر رجحان کو بہت بڑا تناسب فرض کیا گیا ہے،جیسا کہ بعض صورتوں میں طاقتور سیاسی حکومتیں بھی اس پالیسی کو اختیار کر رہی ہیں ۔ در اصل، ہم ایک باخبر دنیا میں رہنے کا دعوی کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہمیں ہیجان پرست میڈیا کے ذریعہ ایک مسخ شدہ نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے کہ دیگر مذاہب اور نظام زندگی کس طرح اجنبی ہیں ۔
تمام مذاہب کی تعلیمات امن، محبت اور ہم آہنگی پر مبنی ہیں، اور کسی بھی مذہب کے سچے پیروکار دیگر مذاہب کے خلاف نفرت انگیزی کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتے۔ ہمیں ایک ‘‘مشترکہ بنیاد’’ کی تلاش میں ہمیشہ رہنا ہے ،اور اپنے جوہر کی تلاش جاری رکھنی ہے، اور ایک دوسرے کے بارے میں بات کرنے کے بجائے ہمیں ایک دوسرے سے مسلسل ہم کلام رہنا ہے جس کے نتیجے میں باہمی اعتماد کا ظہور ہو گا ۔ تہذیبوں اور مذاہب کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہئے اور ٹیری جونز کی مثل کو فصیل کے دونوں طرف میں شکست دینے کے لئے مکالمے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔
مکالمے اور مؤثر گفتگو کے ذریعےہی تمام فریق ایک دوسرے کو غیر جانب داری کے ساتھ سمجھنے کے قابل ہوں گے اور ان بد گمانیوں کا سد باب کر سکیں گے جو نفرت اور تنازعات کو جنم دیتے ہیں ۔
صلیبی جنگوں کا دور اب ختم ہونا چاہئے اور سیموئیل ہنٹنگٹن کے مقالہ، 'تہذیبوں کے تصادم' کو تاریخ کے کوڑے دان کے حوالے کرنے کی ضرورت ہے۔
باہمی افہام و تفہیم اور مذہبی رواداری کی روح میں پیدا کی گئی دوستی کے رشتوں میں اتحاد ہماری مشترکہ اقدار پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے ہم سب کو فعال کرسکتی ہے : ایک بہتر مستقبل تعمیر کرنے کے لئے محبت امن اور ایک اٹوٹ عزم۔ مذہبی اختلافات اور سماجی حیثیت سے قطع نظر ایک ہی خدا کے ذریعہ پیدا کردہ ہم سب ایک ہیں ، ہم سب کا مہربان اور رحم دل خدا ، ہم سب پررحمتیں نازل فرمائے۔
ماخذ: The News, Pakistan
URL for English article
http://www.newageislam.com/interfaith-dialogue/for-interfaith-harmony/d/4465
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/for-interfaith-harmony-/d/13137