ثاقب سلیم، نیو ایج اسلام
24 جون 2022
"پوری دنیا کو یہ
جاننا چاہیے کہ ہندوستانی مسلمان اقلیت نہیں ہیں، جیسا کہ یورپی سیاست میں اس
اصطلاح کو سمجھا جاتا ہے۔ مذہبی عقیدے میں چند اختلافات کو چھوڑ کر کوئی چیز ایسی
نہیں جو ہندو کو مسلمان سے ممتاز کر سکے۔
اہم نکات:
1. مروجہ تاریخ سے ہم صرف
اتنا ہی جانتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے علاوہ کوئی دوسرا ہندوستانی مسلم
رہنما تقسیم ہند کے خلاف نہیں لڑ رہا تھا۔
2. رضا الکریم، بیر بھوم
(مغربی بنگال) میں پیدا ہوئے، جو ایک قوم پرست بنگالی مسلم رہنما تھے جنہوں نے
اپنی زندگی فرقہ وارانہ تقسیم کی سیاست کے خلاف لڑنے کے لیے وقف کردی تھی۔
3. تقسیم کا منصوبہ اس کا
نقطہ عروج تھا جو بنگال کی تقسیم اور الگ انتخابی حلقوں سے شروع ہوا تھا۔
-----
"پوری دنیا کو یہ جان
لے کہ ہندوستانی مسلمان اقلیت نہیں ہیں، جیسا کہ یورپی سیاست میں یہ اصطلاح سمجھی
جاتی ہے۔ مذہبی عقیدے کے چند اختلافات کو چھوڑ کر کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو
ہندو اور مسلمان میں تمیز پیدا کر سکے۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے مجاہد آزادی رضا
الکریم نے یہ الفاظ 1941 میں لکھی گئی اپنی مشہور کتاب Pakistan
Examined with the Partition Schemes میں لکھی ہیں تاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو محمد علی جناح اور مسلم
لیگ کے مطالبے کے خلاف کھڑا کیا جا سکے۔
یہ ہندوستانی تاریخ کا
المیہ ہے کہ جہاں مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے مسلمانوں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی
ہے، وہیں وہ ہندوستانی مسلمان جنہوں نے جناح کی تقسیم کی سیاست کے خلاف متحدہ
ہندوستان کے لیے جدوجہد کی وہ یا تو نسیا منسیا کر دیے گئے یا ہماری تاریخ کے
حاشیے پر ہی رہ گئے۔ مقبول تاریخ کی کتابوں سے ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ مولانا
ابوالکلام آزاد کے علاوہ کوئی دوسرا ہندوستانی مسلم رہنما تقسیم ہند کے خلاف نہیں
لڑ رہا تھا۔ جبکہ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ مولانا حسین احمد مدنی، اللہ
بخش سومرو، خواجہ عبدالحمید اور علامہ مشرقی ان چند مقبول رہنماؤں کے نام ہیں جو
ہندوستان کی تقسیم کو روکنے کے لیے عسکری اقدامات تک اٹھانے کے لیے تیار تھے۔
رضا الکریم، بیر بھوم
(مغربی بنگال) میں پیدا ہوئے، جو ایک قوم پرست بنگالی مسلم رہنما تھے جنہوں نے
اپنی زندگی فرقہ وارانہ تقسیم کی سیاست کے خلاف لڑنے کے لیے وقف کردی تھی۔ آج
ہماری نصابی کتب میں ان کا نام بانیان قوم میں نہیں ملتا۔ رضا الکریم نے بنگالی
مسلمانوں میں قوم پرستی اور ہندو مسلم اتحاد کے جذبات کو ابھارنے کے لیے پوری
زندگی بنگالی اور انگریزی میں بڑے پیمانے پر لکھا۔ ان کی کتاب فار انڈیا اینڈ
اسلام نے میں انہوں نے کامیابی کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح
اسلام اور ہندوستانی قوم پرستی میں تصادم نہیں ہے۔ جب بنکم چندر چٹوپادھیائے کے
لکھے ہوئے وندے ماترم کو آفاقی تناظر میں ایک فرقہ وارانہ مسئلہ مانا گیا تو رضا
الکریم نے بنکم چندر نکت مسلمانر رن لکھنے کی ہمت کی، بنگلہ زبان کا ایک مضمون جس
میں انہوں نے بنکم کا دفاع کیا اور کہا کہ وہ سامراجیت کے خلاف ہیں مسلمانوں کے
خلاف نہیں۔
1940 میں جب مسلم لیگ نے
لاہور قرارداد منظور کر لیا تو اس کے بعد رضا الکریم نے نظریہ پاکستان کا جواب
دینے کے لیے Pakistan Examined with the Partition
Schemes
لکھا۔ رضا الکریم کا کہنا تھا کہ یہ خیال کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں
ہیں، تاریخی طور پر درست نہیں ہے۔ برٹش کولمبیا، کینیڈا میں یونیورسٹی آف وکٹوریہ
کے نیلیش بوس لکھتے ہیں، "رضا الکریم نے ایک بنگالی مسلم جامع قوم پرستی کا
جذبہ پیدا کیا جس کا مقصد ایک ذیلی، ممکنہ مستقبل کے ہندوستان کے تناظر میں مذہب،
علاقے اور قوم کو جوڑنا تھا۔"
کتاب کے شروع میں ہی رضا
الکریم نے مسلم لیگ کے رہنماؤں کے ارادوں پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا کہ ’’یہ کہنا
عجیب ہے کہ وہ تمام افراد جنہوں نے ہمیشہ ہندوستان میں برطانوی سامراج کا ساتھ
دیا، اب تحریک پاکستان کے حامی بن چکے ہیں۔ لیکن وہ مسلمان جنہوں نے ہمیشہ ملک کی
آزادی کی تحریک کی حمایت کی وہ اس تحریک کے سخت مخالف بن چکے ہیں۔" انہوں نے
اس بات کا بھی جواب دیا کہ تاریخی طور پر دریائے جمنا کے شمال کا خطہ ہندوستان کے
دیگر حصوں سے الگ ہے۔ رضا الکریم نے یہ بتایا کہ سکندر کے زمانے سے لے کر مغلوں
اور برطانوی دور تک پنجاب اور شمالی مغربی سرحدی صوبے ہندوستان کا حصہ رہے ہیں۔ ان
کے خیال میں اگر مذہب کی بنیاد پر زمین کی تقسیم درست ہوتی تو یہ کام قرون وسطیٰ
کے حکمرانوں کو ہی کر لینا چاہیے تھا۔ اس کے بجائے، قرون وسطی میں ہندو اور مسلمان
ان میں سے کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے پیچھے متحد تھے۔
رضا الکریم کا ماننا تھا
کہ تقسیم کا منصوبہ اس کا نقطہ عروج تھا جو بنگال کی تقسیم اور الگ انتخابی حلقوں
سے شروع ہوا تھا۔ ان کے نزدیک عالمی سطح پر مسلمانوں کی ایک قومیت کا تصور فرضی
تھا۔ انہوں نے لکھا، ’’یہ عقیدہ کہ دنیا کے مسلمان ایک قوم ہیں، محض ایک افسانہ
ہے، ایک خیالی وہم ہے جس کا عملی طور پر کبھی نمونہ پیش نہیں کیا جا سکا اور نہ یی
کبھی ایسا ہوگا۔ ہندوستان سے باہر کے مسلمان ہمیں اپنا نہیں مانتے، وہ ہم سے غیروں
کی طرح نفرت کرتے ہیں، وہ ہماری غلامی کی وجہ سے ہمیں نظر انداز کرتے ہیں، اور اگر
انہیں اقتدار مل گیا تو وہ ہمیں تابع کر دیں گے، اور غیر ملکی حملہ آوروں کی طرح
ہمیں ذلیل کریں گے۔ پھر ہم کیوں اپنے آپ کو اس بنیاد پر ایک غیر ملکی طاقت کے زیر
تسلط ہونے دیں کہ وہ طاقت مسلم طاقت ہے۔ اس لیے ہندوستان میں ہماری حیثیت وہی ہے
جو یہاں کے ہندوؤں کا ہے۔ ہمارا تعلق ہندوستان سے ہے، اور ہم یہاں کے لوگوں کے
ساتھ مل کر ایک قوم ہیں۔
رضا الکریم کی نظر میں
اقلیتی حقوق جیسی باتیں قوم کو تقسیم کرنے کے ایک ہتھیار کے سوا کچھ نہیں تھیں۔
ایسے کئی گروہ ہو سکتے ہیں جو اقلیتوں کے ان حقوق کا دعویٰ اپنے حق میں کریں گے
اور اس طرح، ''حتمی تجزیہ یہ ہے کہ اقلیتوں کا تحفظ مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ
نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کو مختلف گروہوں، ذیلی گروہوں اور جماعتوں میں تقسیم کرنا ہے
تاکہ عوام کی مشترکہ قوتوں کی شکل میں کوئی مربوط کارروائی ہندوستان میں ممکن نہ
ہو سکے۔ اس لیے اقلیتی مفاد کا مطلب مسلم مفاد نہیں ہے۔ اقلیتیں ہمیشہ اقلیتیں
ہوتی ہیں۔ انہیں کبھی اکثریت نہیں بنایا جا سکتا۔
رضا الکریم نے ہندوستانی
مسلمانوں سے کہا کہ وہ ایک متحدہ ہندوستان کے پیچھے کھڑے ہوں اور مسلم لیگ کی
تفرقہ انگیز فرقہ وارانہ سیاست کو مسترد کریں۔ انہوں نے لکھا:
"مجھے ہندوستان پر اس کی تمام ماضی کی شوکت اور اعزازات کے
ساتھ فخر ہے۔ شان و شوکت کی لوٹی ہوئی ہماری مشترکہ ماں کو ایک بار پھر اپنی کھوئی
ہوئی آزادی اور عظمت کو دوبارہ حاصل کرنے دیں۔ صحیح معنوں میں ہندوستان کو ہماری
مادر وطن ہونے دیں۔ اس کی چوڑے سینے پر جو کچھ اگا وہ ہماری میراث ہے۔ اس کے وید،
اس کے اپنشد، اس کے رام، سیتا، اس کی رامائن، اور مہابھارت، اس کا کرشن اور گیتا،
اس کا اشوکا اور اکبر، اس کا کالیداس اور امیر خسرو، اس کا اورنگ زیب اور دارا، اس
کا رانا پرتاپ اور سیتارام یہ سب ہماری اپنی وراثتیں ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی
ہمارے لیے اجنبی نہیں ہے اور نہ ہی ہماری تہذیب و ثقافت کے لیے اجنبی ہے۔ اس میں
جو کچھ برا ہے یا جو کچھ اچھا ہے وہ سب ہمارا ہے۔ ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی،
سکھ جو بھی برادری ہندوستان میں رہتی ہے وہ ہمارے بھائی ہیں۔ ان کے ساتھ میں ایک
غیر منقسم قوم کی تعمیر کرتا ہوں اور ان کے ساتھ میں گرتا ہوں اور ان کے ساتھ میں
اٹھتا ہوں۔ میری قسمت پورے ہندوستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے ہم ہندوؤں اور
مسلمانوں اور دیگر برادریوں کو اپنی ماں ہندوستان کے سامنے محبت اور تعظیم کے ساتھ
کھڑا ہونا چاہیے اور اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ہماری ناخوش ماں غلامی میں ہے اور
ہمیں اسے آزاد کر کے اسے آزاد، خوش اور مطمئن بنانا چاہیے۔ آئیے ہم آنے والے نئے
ہندوستان کا خیرمقدم کریں — وہ نیا ہندوستان جو ایک سو پچاس سال کے غیر ملکی تسلط
کے ملبے سے نکل رہا ہے۔ آئیے ہم سب اپنی عظیم ماں ہندوستان کو سلام کریں — جنوبی
ہندوستان اور شمالی ہندوستان کو نہیں، ہندو ہندوستان اور مسلم ہندوستان کو نہیں،
بلکہ بحیثیت مجموعی، غیر منقسم ہندوستان کو — ہندوستان تمام تہذیبوں اور ثقافتوں
کی ایک عالمگیر ماں ہے۔ آئیے ہم اپنے مادر وطن ہندوستان کو تقسیم ہونے سے بچا لیں،
اور اس کے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کریں۔ اسے ایک اور غیر منقسم رہنے
دیں، تاکہ ہم اس کے بچوں کو اپنا بھائی، اس کی ہڈی کو اپنی ہڈی اور اس کے پوست کو
اپنا پوست مانیں۔ اور ہماری نجات اسی میں ہے۔"
English
Article: Rezaul Karim Fought Against the Partition of India
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism