رضا پنخرست
10 جون، 2013
22 مئی کو ولوچ برطانیہ میں قتل کے تناظر میں مختلف برطانوی سیاست دانوں، مبصرین " انسداد انتہا پسندی کے ماہرین "اور نام نہاد "سابق انتہا پسندون" کی ایک جماعت نے یہ بیان جاری کیا کہ کچھ خاص نظریات ایسے ہیں جنہیں اختیار کرنا اس کی طرف اشارہ ہے جسے انہوں نے " اسلامی انتہا پسندی " کا نام دیا ہے ان مذکورہ باتوں میں ایک یہ عقیدہ بھی شامل ہے کہ مسلمانوں پر ان کے مذہب نے ایک واحد متحدہ خلافت (اسلامی ریاست) قائم کرنے کو فرض قرار دیا ہے جس کی اسلامی قوانین (جسے عام طور پر شرعی قانون کہا جاتا ہے) کے مطابق ان پر حکمرانی ہوگی ۔ اس عقیدہ پر ‘‘اسلامیت’’ کا لیبل لگا گیا ہے جس کے بارے میں عوام کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ اسلام کی ایک تحریف شدہ تفہیم ہےاور انتہا پسند ذہنیت کا ایک حصہ ہے ۔
ایسے بہت سارے سوالات اور مباحث ہیں جو اس طرح کے بیانات کے ساتھ اٹھائے جا سکتے ہیں ، اس حقیقت سے لیکر کہ ‘‘conveyor belt(نقل و حمل کی پٹی) ’’ جیسے نظریات جن اس طرح کے دعووں کی ایک بنیاد کے طور پر استعمال کیا جا تا ہے مختلف اصولی اور بنیادی غلطیوں کی وجہ سے علمی طور پر غلط ثابت ہو چکے ہیں، اسلامی عقیدے سے متاثر لوگوں کے ذریعہ مغرب میں کئے گئے حملوں کے ایک بنیادی عنصر کے طور پر خارجہ پالیسی کے کردار کو غیر اہم سمجھنے اور " انتہا پسند " اور " اسلام پسند " جیسے توہین آمیز القابات دیتے ہوئے معاشرے میں موجوگی سے دوسروں کو خارج کرنے کے لئے مکالمے کا انعقاد کرنے تک ۔
اس مضمون میں اس بات پر روشنی ڈالی جائے گی کہ ایک عالمی خلافت کی ضرورت پرایمان رکھنا معیاری اسلام روایت کی ایک تحریف شدہ شکل ہے یا نہیں ۔ اس میں یہ ظاہر کیا جائے گا کہ " اسلام پسندی " اور " اسلامی انتہا پسندی " ایک جدید غلطی ہونا تو دور کی بات ہے ایک خلافت کے قیام کی ذمہ داری پر ایمان رکھنا روایتی اسلام میں ایک اکثریت کی اتفاق رائے کا حصہ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ا س فرضیت سے انکار کو اسلام کی تحریف سمجھا جاتا ہے اور ایک ایسی تاریخی حیثیت دی جاتی ہے جو چھوٹی سی تعداد میں پائے جانے والے ایک بدعتی فرقے تک محدود ہے ۔
معیاری اسلام سے مراد وہ آرا اور نظریات ہیں جن کی بنیاد قرآن اور ان احادیث ( سنت ) کی تفہیم پر ہے جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل ہونا تصدیق شدہ مانا جاتا ہے اور ایک وسیع پیمانے پر انہیں ان تاریخی روایتی علماء کرام کی رائے کی تائید حاصل ہے جنہیں مسلمانوں کی اکثریت مسلم راسخ الاعتقادی کا نمائندہ سمجھتی ہے ۔ اگر اس طرح کی اتفاق رائے کا حصہ ایک ایسی خلافت پرایمان ہے جس میں شرعی قوانین نافذ کئے جائیں گے تو ظاہر ہے "اسلامی انتہا پسند" کے لیبل لگانے کا مطلب فطری طور پر ایسے کسی بھی مسلمان پر لیبل لگانا ہوگا جو معیاری اسلامی روایت پر " اسلامی انتہا پسند " کے طور پر یقین رکھتا ہو ۔
قران میں ایسی بے شمار آیات ہیں جنہیں تاریخی طور پر مسلمانوں کے ذریعہ اس بات کے ثبوت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے کہ وحی (قرآن)قانون سازی کی بنیاد ہے اور یہ خدا کے ذریعہ دیا گیا ایک ایسا قانون ہے جسے لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے استعمال کیا جانا چاہئے لیکن ان میں سے صرف ایک مثال پیش کی جا رہی ہے ۔ ‘‘تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے’’۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان یہ اجماع قائم ہوا کہ اسلامی قانون میں قانون ساز صرف خدا یعنی اس کا کلام ہے جیسا کہ انہیں قرآن مجید اور اس کے نبی کی احادیث میں پیش کیا گیا ہے ، اور یہی قانون سازی کے لئے بنیادیں فراہم کرتا ہے ۔
اسی وجہ سے اصول فقہ کی تدوین کرنے والےاسلامی فقہا کی روایتی کتابوں میں یہ اتفارائے موجود ہے کہ قانون ساز (الحاکم ) صرف اللہ ہے اور یہ کہ قانون سازی صرف خدا کے لئے مخصوص ہے ۔ ایسے نظام کے درمیان فرق جو اس قانون سازی کو اس کی بنیاد کے طور پر اپناتا ہے اور جسے مغربی معنوں میں دینی تسلط قرار دیا جائے گا یہ ہے کہ معیاری اسلام میں وحی کے مصادر کو قانون سے ممتاز کرنے میں اور عوام کے ذریعہ اس بنیاد پر جواب دہ ٹھہرائے جاتے ہوئے اسے نافذ کرنے میں علماء کرام اور حکمرانوں کا کردار ہے ۔
احادیث نبوی کی کتابوں میں ایسے متعدد نصوص بھی پائے جاتے ہیں جنہیں روایتی اسلام میں سب سے زیادہ مستند سمجھا جاتا ہے(دو کتابوں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو سب سے زیادہ مستند مجموعہ سمجھا جاتا) جن میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ حکمران کا کردار اسلام کی طرف سے حکومت کرنا ہے ۔ ان احادیث کے درمیان وہ طویل روایت ہے جس کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے " اور تب طریقہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر (ایک بار پھر) خلافت قائم ہوگی ۔ " اس کے علاوہ ایک اور چھوٹی روایت موجود ہے " اگر بیعت کا عہد دو خلفاء کو دیا گیا ہو تو ان میں سے دوسرے کو قتل کردو " یہ تمام ایسی انتہائی عام شہادتیں ہیں جو ایک تنہا قیادت کی فرضیت کی بنیاد بنائی گئی ہیں۔
اسلامی شواہد کی ایسی مختلف دیگر مثالیں موجود ہیں جنہیں اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے روایتی طور پر استعمال کیا گیا ہے کہ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ قدامت پسندوں کی رائے کا اس بات پر اجماع ہے کہ امت مسلمہ کے پاس ایک واحد حاکم کا ہونا ضروری ہے جو اسلامی قانون کے مطابق اپنے معاملات اور امور کو انجام دینے کے لئے ذمہ دار ہو جس کی تفصیل خاص طور پر اسلامی قوانین کی کتابوں میں مذکور ہے ۔
ریاست کے اسلامی نظریہ کے بارے میں انتہائی مشہور تفصیل ابو الحسن المورودی کے ذریعہ کی گئی ہے جنہوں نے دعوی کیا ہے کہ خلافت کا قیام ایک اسلامی فریضہ تھا جس سے عالمی سطح پر اتفاق کیا گیا تھا ۔ ان کی 11ویں صدی کی تحریر ‘‘ الاحکام السلطانیہ ’’ (حکومت کے قوانین) ابھی تک اسلامی سیاسی نظریہ کے لئے اہم کلاسیکی حوالہ کے طور پر برقرار ہے ۔ ان نظریات کا اظہار صرف المورودی کے ذریعہ ہی نہیں کیا گیا۔ خلافت کی ذمہ داری کے اوپر ایک اتفاق رائے کے ان کے دعویٰ کو ہر اس شخص نے پیش کیا ہے جس نے اس موضوع پر لکھا جن میں محمد بن الحسین الفارا ابو یعلیٰ ، عبد القادر البغدادی، علی بن احمد بن سعید بن حزم الظہری ، ابو عبداللہ القرطبی جیسی اور دیگر اہم شخصیات بھی شامل ہیں جو اسلامی علمی روایت میں مشہور و معروف ہیں ۔
اسلامی قانون کے اس پہلو کی بیسویں صدی تک اسلامی حکومت کے بارے میں لکھی گئی ہر ایک کتاب میں عملی طور پر تصدیق کی گئی ہے جن میں سے ہر ایک میں خلافت قائم کرنے کی ذمہ داری پر اتفاق رائے بیان کیا گیا ہے جو کہ عملی طور پر اقلیتی فرقوں کو شامل کرنے والےراسخ الاعتقاد اسکالر شپ سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ الظہری (قرطبہ میں پیدا ہونے والے 11ویں صدی کے ایک عالم) نے یہ خلاصہ کیا ہے کہ " اہل سنت ، مرجعہ ، شیعہ اور خارجیوں نے تمام کے تمام نے امامت [خلافت کے لئے استعمال کی جانے والی ایک دوسری اصطلاح] کی ذمہ داری پر اتفاق کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ ایک ایسا امام مقرر کرنا امت پر ضروی ہے جو اللہ کے قوانین کو نافذ کرے او ر ان شرعی قوانین کے ساتھ اپنے معاملات کی دیکھ بھال کرے جو اللہ کے رسول لے کر آئے تھے ، کچھ خارجیوں کو چھوڑ کر [جو خلافت کی ذمہ داری پر اتفاق نہیں کیا] " ستم ظریفی یہ ہے کہ خارجی فرقے کچھ ایسے لوگ جنہوں نے خلافت کی ذمہ داری سے انکار کیا لیکن شرعی قانون کی حکمرانی پر بہ شدت ایمان رکھنے والے تھے انہیں ایسے سخت ملحدانہ جماعت گردانہ جاتا ہے جو کہ ابتدائی اسلامی دور میں بہت زیادہ خون خرابے کے لئے ذمہ دار ہے۔
آخر میں، ایک ایسے واحد قیادت کے قیام کی ذمہ داری کے مسئلے پر جو اللہ کے قانون کے مطابق حکومت کرے ایسی زبردست اتفاق رائے قائم ہے کہ اس کی ذرا بھی مخالفت کو تاریخی اعتبار سے ایک غلطی اور معیاری اسلام اور روایتی اسکالر شپ سے متصادم سمجھ کر مسترد کر دیا گیا ہے۔ مغربی علمی حقوں میں یہی حقیقت مسلمہ ہے ۔ مثال کے طور پر اسلامی علوم اور تاریخ کے موضوع پر بہت سارے معروف مغربی ماہرین کے ذریعہ کئی برسوں میں تیار کی گئی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کی جلد 13 میں جسے برل(Brill) نے شائع کیا تھا ایک واحد خلافت کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ "[ ایک کامل سنی نظریہ میں اہم نقطہ یہ ہے کہ: ایک امامت کا قیام کمیونٹی پر مستقلاًواجب ہے ۔۔۔ کسی بھی وقت امام صرف ایک ہی ہو سکتا ہے " ۔
لہذا یہ کہنا واضح طور پر غلط ہے کہ ایک خلافت کے قیام کی ذمہ داری قدامت پسند اسلامی عقیدہ کا ایک حصہ نہیں ہے۔ بلکہ اسلامی روایت کے مطابق اس ذمہ داری سے انکار کو دراصل مذہب میں تحریف سمجھا جاتا ہے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
یہ تحریر There is Power in the Blog پر سب سے پہلے پوسٹ کی گئی تھے
رضا پنخرست ایک ماہر سیاسیات اور تاریخ دان ہے جو مشرق وسطی اور اسلامی تحریکوں پر تخصص کر رہے ہیں ۔ انہوں نے اسکول آف اکنامکس لندن سے ڈاکٹریٹ کی ہے جہا ں سے انہوں نے اس سے پہلے the History of International Relations (بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ) میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے ۔
ماخذ: http://www.eurasiareview.com/10062013-caliphate-sharia-law-and-islamist-extremism-oped/
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/caliphate,-sharia-law-“islamist-extremism”/d/12048
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/‘‘caliphate,-sharia-law-“islamist-extremism/d/14189