نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
9 دسمبر،2022
فروری 2020 میں شمال
مشرقی دہلی میں بدترین فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے جن میں 53 افراد کی جان گئی
تھی اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئےتھے ۔ ان فسادات کے دوران مسلمانوں کے مکانات،
دکانوں اور عبادت گاہوں کو منصوبہ بند طریقے سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ فسادات کے
بعد پولیس نے مسلمانوں ہی کو دنگوں کے الزام میں جیلوں میں بند کیا اور ان کے خلاف
یو اے پی اے کا نفاذ کیا ۔ ان کے خلاف
دہشت گردی کے دفعات لگائے گئے۔
حال ہی میں ملک کی سرکردہ
شخصیات جن میں ماہرین قانون اور سابق جسٹس اور آی اے ایس افسران شامل ہیں کی ایک
کمیٹی نے دہلی فسادات پر اپنی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں دہلی پولیس ، وزارت
داخلہ اور حکومت دہلی کے متعصبانہ اور مسلم مخالف رویہ کو اجاگر کیا گیا ہے اور
احتجاجیوں کے خلاف تشدد کو شہ دینے اور ان کے خلاف یو اے پی اے لگا کر احتجاج کے
جمہوری حق کو غصب کرنے کا الزام لگایا ہے۔
اورفسادات کو روکنے اور
شر پسند،افراد کے خلاف بروقت کارروائی کرنے میں ان کی ناکامی پر ایک عدالتی
انکوائری کا مطالبہ کیا ہے۔
اس کمیٹی کا نام کانسٹی
ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ ہے اور اس کے ممبران کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
سپریم کورٹ کے سابق جج
جسٹس مدن بی لوکور جو کمیٹی کے چیرمین ہیں۔
جسٹس اے پی شاہ جو سابق
چیف جسٹس مدراس و دہلی ہائ کورٹ اور سابق چیر مین لاء کمیشن ہیں۔
جسٹس آر ایس سودھی جو
دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج ہیں۔
جسٹس انجنا پرکاش سابق جج
پٹنہ ہائی کورٹ۔
سی کے پلئی آئ اے ایس
ریٹائرڈ ہوم سکریٹری، حکومت ہند
اس کمیٹی کی رپورٹ تین
حصوں میں ہے۔ ذیل میں اس کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے۔
فسادات سے قبل شہریت
ترمیمی قانون 2019 کے خلاف پورے ملک میں احتجاجی دھرنے منعقد ہوئے تھے اور شمال
مشرقی دہلی ان احتجاجی دھرنوں کا محور و مرکز بن گئی تھی۔ بی جے پی کے لیڈران اور
ہندو قوم پرست شخصیات نے اس احتجاج کو ہندو مسلم رنگ دے دیا تھا اور مسلمانوں کو
ہندو مخالف اور ملک مخالف بنا کر پیش کیا جارہا تھا۔ دسمبر 2019 سے دہلی میں شہریت
ترمیمی بل کے خلاف احتجاج شروع ہوگئے تھے۔ جنوری میں دہلی اسمبلی کے الیکشن آ گئے۔
بی جے پی نے الیکشن مہم کے دوران سی اے اے کو مدعا بنایا ۔شہریت ترمیمی قانون2019
میں پاس ہوا تھا جس نے مسلمانوں میں شہریت چھن جانے کا خوف بھر دیا تھا۔ انہوں نے
اس کے خلاف احتجاجی دھرنے منعقد کئے۔ شمال مشرقی دہلی میں کئی جگہ دھرنے منعقد
ہورہے تھے۔ جنوری 2020 میں دہلی الیکشن کی مہم کے دوران بی جے پی کے لیڈران نے
شہریت ترمیمی بل کے مخالفین کو غدار اور قوم دشمن بنا کر پیش کیا ۔خاص کر کپل
مشرااور انوراگ ٹھاکر نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کے لئے ہندوؤں کواکسایا۔ ان کے
خلاف گولی مارو کے نعرے لگائے گئے۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ احتجاجیوں
کے خلاف نفرت انگیز نعروں اور تقریروں کو ٹیلی ویزن کے ذریعہ گھر گھر پہنچایا گیا
اور عوام میں ان کے خلاف ماحول تیار کیا گیا۔
اس کمیٹی نے ٹیلی ویژن
چینلوں کے طرزعمل کا بھی بغور جائزہ لیا۔کمیٹی نے دسمبر 2019 اور جنوری 2020 کے
درمیان چند مقبول ٹی وی چینلوں کے پروگراموں اور ان پر نشر ہونے والے مواد کا
جائزہ لیا۔ وہ ٹی وی چینل تھے: ریپبلک بھارت، ٹائمس ناؤ، آج تک، زی نیوز، انڈیا ٹی
وی اور ری پبلک بھارت ہندی۔ اس کمیٹی نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کئے گئے مواد کا بھی
جائزہ لیا۔ اس جائزے میں یہ پایا گیا کہ سی اے ا ے مخالف احتجاج کو ہندو بنام مسلم
بنا کر پیش کیاگیا اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا گیا اور ان کی ملک کے
تئیں وفاداری کو شک کے دائرے میں لایا گیا۔
ان چینلوں نے سی اے اے
مخالف احتجاج کو بدنام کرنے کی کوشش کی ، ان کے خلاف بے بنیاد سازشی نظریات پیش
کئے اور ان دھرنوں کو جبراً اٹھا دینے کی وکالت کی۔
ہندو قوم پرست لیڈران
جیسے یتی نرسمہانند ، کپل مشرا اور راگینی تیواری نے دسمبر کے مہینے سے ہی
مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات سوشل میڈیا پر پوسٹ کئے۔ دوسرے بااثر قوم پرست
لیڈران ، ٹی وی چینلوں پر اس نفرت انگیز مہم کو مسلسل چلا رہے تھے۔کمیٹی نے یہ
نتیجہ اخذ کیا کہ اس تمام مسلم مخالف اور نفرت انگیز مہم کے نتیجے میں مسلمانوں کے
خلاف ایک ماحول تیار ہوا۔اور عوام کو ان کے خلاف تشدد کے لئے اکسایا گیا۔
اسی دوران 22 فروری 2020
کی رات کو سی اے اے مخالف مہم کی پکار پر عورتوں نے سیلم پور جعفرآباد میں
جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے باہر دھرنا دیا۔3 فروری کی صبح سے بی جے پی لیڈر کپل
مشرا اور قوم پرست لیڈر راگنی تیواری نے اس گروپ کے خلاف ڈایریکٹ ایکشن کی پکار
دی۔ 4 بجے سہ پہر کو دھرنے کے مقام کے قریب موج پور چوک پر کپل مشرا نے ایک اشتعال
انگیزتقریر کی ۔ اس نے پولیس کوالٹی میٹم دیا کہ وہ تین دنوں کے اندر چاند باغ اور
جعفرآباد میں راستہ کلیر کرائے ورنہ وہ خود اپنے حامیوں کے ساتھ راستہ کلیر کرائیں
گے ۔
اس تقریر کے فوراً بعد سی
اے اے کے مخالفین اور حامیوں کے درمیان موج پوراور جعفرآباد میں پتھراؤ شروع ہو
گیا۔ یہ واضح ہو گیا کہ22-23 فروری کو کئے گئے نفرت انگیزتقریروں کا مقصد عوام
کوتشدد کے لئے اکسانا تھا۔اور اسی پکار نے فسادات بھڑکانے کا کام کیا۔
فروری 24 موج پور اور
جعفر آباد میں پتھراؤ نے فسادات کی شکل لے لی۔اگلے چند دنوں میں پتھراؤ، آتشزنی
اور گولی باری دونوں فرقوں کی طرف سے ہوتی رہی۔ فسادات کی رپورٹنگ کرنے والے
صحافیوں پر حملہ کیا گیا۔ پولیس کی ملی بھگت نے فسادات کو ایک اہم رخ دے دیا۔
اگرچہ شمال مشرقی دہلی کا
تشدد سی اے اے کے مخالفین اور حامیوں میں تھا لیکن یہ بعد میں فسادات میں تبدیل ہو
گیا۔ فسادات سے قبل مسلمانوں کے خلاف جو لگاتار نفرت پھیلائی جارہی تھی اس نے آگ
میں گھی کا کام کیا۔ تشدد کے دوران مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو
منصوبہ بند طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔ ان فسادات میں 40 مسلم اور 13 غیر مسلم ہلاک
ہوئے۔
اس کمیٹی نے اپنی تحقیقات
میں پایا کہ فسادات کے دوران جعفرآباد، مصطفے آباد ، کھجوری خاص چاند باغ اور کردم
پور کے دھرنا کیمپ کو نشانہ بنا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس تشدد کا مقصد سی اے
اے مخالف مہم کو ختم کرنا تھا۔
فسادات کے دوران اور بعد
میں تفتیش کے دوران جمہورہی اقدار کی پامالی دیکھی گئی۔ تشدد کی تفتیش اور قانونی
عمل کے دوران ریاستی اداروں یعنی پولیس اور حکومت کا رویہ مایوس کن تھا۔
دہلی پولیس کا کردار
کمیٹی نے فسادات کے دوران
اور اس کی تفتیش کے دوران دہلی پولیس کی نیت اور طرزعمل پرسنگین سوالات اٹھائے
ہیں۔
دہلی پولیس نفرت انگیز
تقاریر کے خلاف قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔ اس پر تشدد میں ہجوم کی مدد
کرنے، سی اے اے مخالف دھرنوں پر اور مسلمانوں پر اور مساجد پر حملہ کرنے والوں کا
ساتھ دینے کاالزام ہے اور اس کی تائید گواہوں کے بیانات، میڈیا رپورٹ اور فساد
متاثرین کے حلفیہ بیانات سے ہوتی ہے۔ اس کمیٹی کے پاس ایسی معلومات اور دستاویز
ہیں جن سے پولیس کے فسادات میں اس کی ملی بھگت، اس کی مجرمانہ غفلت اور تشدد کو
روکنے میں ناکامی ظاہر ہے۔ ان الزامات کی عدالت انکوائری ہونی چاہیے۔
اس فساد کے دوران ہوم
منسٹری کا رویہ بھی افسوس ناک تھا۔ ریاستی پولیس اور پارا ملٹری فورس اس کے ماتحت
ہونے کے باوجود ہوم منسٹری نے مؤثر اور بروقت اقدامات نہیں کئے۔ انٹرنل الرٹ جاری
ہونے کے باوجود 23 فروری کو ہی اضافی فورس تعینات نہیں کی گئی۔ فورس 26 فروری کو
تعینات کی گئی۔ 24- 25 فروری کو فورس میں اضافہ نہیں کیا گیا جبکہ اس دوران پولیس
کو کافی تعداد میں ڈسٹریس کال موصول ہوئیں۔لہذا کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ
منسٹری کی ناکامی کی وجوہات کا سنجیدگی سے جائزہ لیناضروری ہے۔
انٹلیجنس، متاثرہ علاقوں
میں فورس کی تعیناتی کا مرحلہ وار جائزہ لیا جائے۔
اس کمیٹی نے دہلی حکومت
پر بھی لاپرواہی اورغفلت کا الزام لگایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ریاستی پولیس اس کے
اقدامات میں رکاوٹ ضرور تھی لیکن اس نے سول اقدامات نہیں کئے اور متاثرہ افراد کو
معاوضہ ادا کرنے اور راحت رسانی میں تاخیر کی۔ جن لوگوں کو معاوضہ دیا وہ نقصان کے
تناسب سے بہت کم تھا۔
کمیٹی نے دہلی پولیس کی
غیر جانبداری پر سوال اٹھائے ہیں اور بعد میں مسلمانوں کے خلاف فسادات میں دہشت
گردی کے تحت مقدمہ درج کرنے کا الزام لگایا ہے۔ مارچ میں دہلی پولیس نے ایف آئی آر
نمبر 59/2020 درج کیا اور اس میں یہ دعوی کیا کہ فسادات بھڑکانے کی منصوبہ بندی کی
گئی تھی اس لئےیو اے پی اے کے تحت یہ ایک دہشت گردانہ سازش تھی۔
کمیٹی نے تمام حقائق
پرغور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ دہلی فساد ایک دہشت گردانہ عمل کے زمرے
میں نہیں آتا کیونکہ اس سے ہندوستان کی سالمیت، تحفظ اور معیشت کو خطرہ نہیں تھا۔
اور نہ ہی چارج شیٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ سی اے اے کے مخالفین سماج میں دہشت
پھیلانا چاہتے تھے۔ دہلی پولیس کے ذریعہ پیش کئے گئے دلائل فساد کے دوران ہونے
والے تشدد کو دہشت گردی ثابت نہیں کرتے۔
کمیٹی کے تجزیے سے پولیس
کے بیان میں کئی طرح کی خامیاں پائی گئی ہیں۔ٹرائل کورٹ نے بھی ملزمین کو ضمانت
دیتے ہوئے پولیس کے بیان میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اس میں یہ دکھایا گیا
تھا کہ خود مسلمانوں نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو پیٹا۔
کمیٹی نے یہ بھی نوٹ کیا
کہ پولیس نے نفرت انگیزتقاریر کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ اور تشدد
کی پکار دینے والوں کو نظر انداز کیا۔
کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی
ہے کہ مجموعی طور پر تفتیش کی سمت ہی غلط ہے۔ تفتیش میں فسادات میں تشدد اور اس سے
قبل کی گئی نفرت انگیز تقاریر میں ربط کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
بڑے پیمانے پر ملزمین کے
خلاف یو اے پی اے کا استعمال اس بات کاثبوت ہے کہ ایک فرقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
قانون ایک ملزم کوٹرائل کے دوران لمبے عرصے تک جیل میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔یو
اے پی اے کے ملزمیں اکثر شواہد کی کمی کی بنا پر باعزت بری ہو جاتے ہیں۔پھر بھی
انہیں لمبے عرصے تک جیل میں رکھا جاتا ہے۔ اس طرح قانونی عمل خود ہی ملزم کے لئے
سزا بن جاتا ہے۔
لہذا یہ کمیٹی یو اے پی
اے قانون پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتی ہے۔
شمال مشرقی دہلی کے
فسادات کے دوران حکومت پولیس اور دیگر سرکاری اداروں کا تعصب اور مجرمانہ غفلت
ہندوستان کی جمہوری اقدار اور جمہوریت کی صحت کے لئے خطرناک ہیں۔۔حکومت مسلم مخالف
نفرت کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ میڈیا کے ایک طبقے نے تشدد کو بھڑکانے میں اہم
رول ادا کیا۔ انکی وسیع رسائی کی وجہ سے نفرت کی مہم ایک وسیع حلقے کو متاثر کرتی
ہے۔ سوشل میڈیا اور میڈیا میں ایک فرقے کے خلاف نفرت انگیز مہنم کو روکنا سرکار کے
لئے ایک چیلنج ہے۔
سی اے اے دھرنا کو کلیر
کرانا ایک استثنائی معاملہ نہیں ہے۔یواے پی اے کا غلط استعمال بھی نظر انداز نہیں
کیا جا سکتا۔ یہ قانون کا غلط استعمال ہے اور عوامی احتجاج کو کچلنے کے لئے قابون
کے بے جااستعمال کے مترادف ہے۔
احتجاج کو خاموش کرنے کے
لئے تشدد کااستعمال اور پھر تفتیش کے بام پر یو اے پی اے کااستعمال احتجاج کے حق
کو چھین لینے کاایک خطرناک حربہ ہے۔ اس طرح کا اقدام ہماری جمہوریت کی صحت کے لئے
ایک سنگین خطرہ ہے۔
کمیٹی کا خیال ہے کہ یہ
فرقہ وارانہ تشدد ہندوستانی معاشرے کی تکثیری روایت پر ایک بد نما داغ ہے۔ اس سے
سماج میں ہم آہنگی اور بقا ئےباہم کی روایت کو نقصان پہنچا ہے اور نفرت کے ایجنڈے
کو تقویت پہنچی ہے۔
-----------
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism