ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
20دسمبر،2024
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے، اس دینی اثاثے کواپنا بنیادی او رکلیدی ورثہ تسلیم کرتے ہوئے سابقہ مضمون میں کچھ سوالات قائم کئے تھے جو اب غور طلب ہیں۔ ہم میں سے کوئی عقل کل نہیں، کوئی حرف آخر نہیں۔قرآنی زاویے کے مطابق ہر ذی علم سے بڑھ کر دوسرا صاحب علم موجود ہے او رنہ ہی کوئی ایک اکائی ہی ہمارے پاس ایسی ہے جس کی اندرون ملت یا بیرونی دنیا پر فیصلہ کن اثر بچا ہو۔
مقتدر شخصیات کے اردگرد مفاد پرستوں کا ٹولہ جس کی بیجا قصیدہ خوانی انا کو وہ پرواز دے دیتی ہے کہ صحیح رائے زنی اور فیصلہ سازی کا عمل اپنی زمین کھوہی بیٹھتاہے۔ ادھر باہم اتحاد، اتفاق اور اشتراک پر سینکڑوں پلیٹ فارموں سے ملت کو آواز دی جارہی ہوتی ہے یہ سب تو ہوتانہیں،البتہ انتشار کے لئے کچھ اور دروازے کھل جاتے ہیں۔
ان گنت شخصیات،ادارے، تنظیمیں،نظریات ،قرار داد دیں، بیانات اور اقدامات سب موجود مگر ملی گراف مستقل نیچے کیوں؟ یہ تنقید کا نہیں تحقیق کا موضوع ہے۔ آج حالات حاضرہ متعدد ہائے زندگی میں نظر ثانی اور اصلاحی عمل کے متقاضی ہیں۔ مسئلہ یہاں پھنسا ہے کہ میں اپنے کو چھوڑکر سب میں اور سب کی اصلاح چاہتا ہوں۔
آئیے بہت ہواشکوہ اور شکایت! پہلا قدم اٹھاتے ہیں کہ ہم بنا کسی تمیز وتعصب کے یہ اپنے مافی الضمیر میں اتارلیں کہ ہم سب انسان ہیں، دنیادار ہیں اور دنیاداری کے تقاضے ہم پر اپنی اتنی سخت گرفت قائم کرچکے ہیں کہ اندر جھانکنے کا مزاج ہی جیسے ختم ہوگیا۔ اصلاح اب ناگریز ہے۔ دین پر گفتگو بہت ہے،، ہونی بھی چاہئے مگر انفرادی،اجتماعی اور ادارہ جانتی نفسیات واخلاقیات میں اس کا عکس (اپنی ذات سے او ربات جہاں تک چاہے لے جائیں) ایسا کہیں دکھائی نہیں دیتا ایسا جو ہمارے اور برادران وطن کے لئے مشعل راہ کے طور پر قبول ومقبول ہوجائے؟ المیہ یہ ہے کہ ہوا اس وقت ہر سطح پر اکھڑی ہوئی ہے، میدان امن سے میدان صلح، میدان مزاحمت سے میدان حریت، پہل سے میدان جفا کشی، شعبہ علم و ترقی سے شعبہ تدریس و تحقیق، خدمت خلق سے خدمت کائنات تک ہم آج تائید، تعمیل اور تقلید کے زمرے میں شمار کئے جاتے ہیں۔ سنجیدہ تجزیہ بڑی آسانی سے آپ کو یہ باور کرادے گا۔
جس مجلس میں بھی بیٹھئے اورجہاں بھی اپنا رونا رویئے قرآنی آیات، سیرت پاک، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے اشعار کی گونج، تاریخ کے گن گان اور نہ جانے کیا کیا؟ اس سب میں اعتراض کے لئے کچھ نہیں مسئلہ عمل واخلاق میں ڈھالنے، معاملات زندگی میں جگہ دینے اور اس سب سے بڑھ کر اس برداشت کا ہے جو معتدل رویے کی طالب رہتی ہے امت وسط، خیر امت، محبوب خدائے وحدہ لاشریک کی محبوب ترین عالمی وحدت،وسائل سے بے انتہا لبریز، عزائم سے بھرپو ر او رہر اعتبار سے پرشکوہ مگر نتائج سے کوسوں دور! آخر بات کہاں پھنس رہی ہے؟
قوموں کی ترقی اور تنزلی دونوں میں انسانی رویوں کا کردار رہتا ہے یہ وہ میدان ہے جہاں ہمارے یہاں پانی کھڑا بھی ہے او رٹھہر بھی رہا ہے۔ ان جملوں پر ذرا غور فرمائیں۔پہلا اخلاقیات جس کا محور اعتدال، میانہ روی، فرقہ وارانہ آہنگی،ذہنی و نفسیاتی کشادگی رہتی ہے یہ ز مین جو آپ اپنے لیے تجویز کرتے ہیں کیا ہمارے معاشرے میں اکثریتی وحدت کے لئے بھی ایسا ہے، آپ خود فیصلہ کریں؟ دوسرااناپرستی کا یہ عالم کہ اپنے حلقے میں یہ انتہا پر جبکہ اغیار و حکمراں طبقات کے سامنے شرک کی حد تک جھکنے او راپنی اساس کو قربان کرنے میں ذرا جھجھک یا احساس کا شائبہ بھی نہیں۔ تیسرا ذاتی مفاد کے لئے کچھ بھی کرنے کا مزاج آج عام ہوچکاہے۔ چوتھا اپنی حیثیت بنا کر سودا گروں سے سوداگری کامزاج کہا تک پہنچ گیا ہے اس سے اب کون واقف نہیں! پانچواں دن اسلام کی بات کروں تو ایک ایسا مسلمان میں دنیا بھر میں ڈھونڈ راہا ہوں جو سب کے نزدیک صحیح العقیدہ مسلمان ہو!
اب کچھ بات سیدھے عنوان کی کرتا ہوں۔ دوارب مسلمانوں کا کلمہ دین ایک صحیفہ آسمانی قرآن حکیم ایک! سب کے نزدیک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخر الزماں، ازواج مطہرات سب کی مائیں، عشرہ مبشرہ، اہل بیت، شہدائے کربلا ودیگر غزوات کے منفردمراتب پر اجماع، اطیعواللہ و اطیعوالرسول بالاتفاق مشعل راہ اور راہ نجات، سب کے نزدیک اللہ کے رسول شافع محشر، سب پل صراط خوفزدہ سب جنت الفردوش کے متمنی،جہنم سے پناہ مانگنے والے،احیاء اسلام، عروج مسلم اور اقامت دین سب کا مشترکہ نصب العین اتناکچھ جو ایک دوسرے کو جوڑتا ہے اور جوڑ کے رکھ سکتاہے پھر اس قدر تفرقہ،انتشار اور خلفشار معاذ اللہ!
انسانی فکر ایک ہمہ جہت عمل ہے۔ اس کا راست تعلق ذہنی وفکری اختراع، نفسیاتی کیفیت، انفرادی واجتماعی رجحان، علم وعلمیت،عقل وعقلیت، فہم و ادراک، تحقیق وتنقید وتنقیص کے علاوہ مکالمے،مفاہمت، معاشرت، خاندانی، اقدار وروایات، عام و خاص رویوں کے رخ، ان کی سمت،موافقت و مخالفت کی زمین، زمین پر موجود سوالات، اعتراضات، دوستی، دشمنی، مخاصمت،نظر یاتی رسہ کشی، آپسی وادارہ جاتی تعلقات او رباہم رشتوں کے اثرات سب پر پڑتا ہے۔ یہ وہ فطری نکات وعوامل ہیں جو اختلاف رائے کو جنم دیتے ہیں۔یہاں ترجیحات تشکیل پاتی ہیں، تقسیم اور تفرقے کو بنیاد فراہم ہوتی ہے، ضد ا ور ہٹ دھرمی اپنی زمین تلا ش کرتی ہیں۔ کوئی شخص اور ا س کی شخصیت کسی نظریہ کا مرکز بن جاتی ہے، ہمنواؤں کا گروہ کھڑ ا ہونا شروع ہوجاتاہے، ایک ہمہ گیر شناخت وجود میں آجاتی ہے اس طرح پورا انسانی معاشرہ مختلف اکائیوں اور وحدتوں کا مجموعہ بن کر ہمارے سامنے آکھڑا ہوتاہے۔آج کچھ ایسا ہی ہے۔ قرآن کریم نے دو ارب دنیا کی مسلم آبادی کو انسان او رمسلم کہہ کر مخاطب کیاہے حکم ربی کے بعد کسی دیگر اصطلاح سے خود کو منسوب کرناکہاں تک درست ہے۔تمام مسالک کے اکابرین او ران کی اسلام کی تفہیم، تشریح اور تفسیرکی بنیاد قرآن وسنت ہی تو ہے۔ اختلافات فقہی امور اور اس کی شرح تک محدود ہیں۔ ایمانیات، عبادات، اور اخلاقیات سے متعلق کچھ وضاحتوں، تشریحات او ر عبادات کے طریقہ کار میں فرق ہوسکتا ہے، پر الوہئیت،عبدیت، عبادات، تقویٰ اور ان کی لازمیت پر توکوئی اور کہیں اختلاف نہیں۔آپ کی سیرت پاک ہی میں سب فہم وادارک تلاش کرتے ہیں۔ اختلافی مسائل اس کی ضد وضمن میں آتے ہیں۔ البتہ یہ اتفاق رائے تو موجود ہے کہ تمام ہی ائمہ امام برحق ہیں۔
مسلک کاوجود ایک منطقی، فکری، تحقیقی اور اجتہادی عمل ہے۔اس کا احترام ہو، آپسی منافرت او رایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتووں کے ذریعہ اسلام اور مسلمان کو اغیار میں مذاق نہ بننے دیں۔سارے فیصلے یہیں نہ کرلیں روز محشر برپاہونا ہے۔ قادر مطلق اللہ وحدہ کی ذات ہے، ہرایک منزل ومرتبہ اس کے کن فیکون کا محتاج ہے، وہ رحمان ورحیم ہے، بنی نوع انسان کو فضل تلاش کرنے کا اس کا حکم ہے، خدائی صرف خدا کی اور دعویٰ بھی صرف اسی کا حق۔ یہ نکتہ ہر ذہن میں صاف رہے۔ مسئلہ مسلک نہیں مسلک پرستی ہے جس پر قابو پانا معززعلماء صرف آپ کاخاصہ ہے۔ ہر مسجد اللہ کا گھر ہے اس پرسب کا حق ہے جو جس فقہ کے اعتبار سے عبادت کرنا چاہے۔ اسے اس کے حق کے طور پر تسلیم کیجئے۔ کفر کے فتوؤں کا جو بازار سا لگا ہوا ہے ا س پر قدغن آپ ہی لگا سکتے ہیں۔ پہچان اور شناخت کی حد تک چیزیں رہیں، مگر وہ دشمنی، جنگ وجدل، مذہبی منافرت، نفرت انگیزی اور پروری کی شکل اختیار نہ کریں۔ یہ سب کہ مشترکہ ذمہ داری ہے، یہاں آپ کا کردارکلیدی ہے۔عمل برائے عمل نہ بلکہ ہر قول و عمل وتحریک رضائے الٰہی، حب رسول و ان کی خوشنودی کے مقصد سے ہو؟ یہ نکتہ ہمیشہ واضح رہے!تعجب سے زیادہ دلی تکلیف ہوتی ہے کہ خالق کائنات کی زبان وکلام،نمونہ کامل کی موجودگی، اہل بیت، شہدائے غزوات بالخصوص شہدائے کربلا، خلفائے راشدین کی بے مثل مثال حکمرانی وفیصلہ سازی، صحابہ کرام کاایثار وعشق رسالت، اولیا ء اللہ کا تقویٰ اور ان کی دعوت وتبلیغ کا دلکش انداز، عروج اسلام کی ان گنت داستانیں، تمام عالم میں اقتدار یہ سب سیکھنے اور سدھرنے کیلئے بہت کچھ فراہم کرتاہے۔
اتفاق، اتحاد اور اشتراک تینوں مثبت وتعمیری عمل ہیں۔ یہ کسی کے خلاف نہیں، مقابلہ آرائی کے لئے نہیں، انسان سازی اور انسانیت سازی کے درمیان جو فطری رشتہ ہے اس کی آبیاری ان کا واحد مقصد ہوجو اپنے ہیں ان سے بغل گیر ہوں، جو دور ہوں ان کو قریب لائیں، جو روٹھ گئے ہیں ان کو منائیں، سب اپنے ہیں بیگانہ کوئی نہیں۔ انسانیت اللہ کا کنبہ ہے ہم سب ایک ہی کائنات، ایک ہی ایمان، ایک ہی اخلاق اور ایک میراث کے وارث ہیں۔ اللہ ہم سب کو حامی و ناصر ہو۔آمین۔
20 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/religion-logical-requirement/d/134121
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism