ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد
13 ستمبر 2024
دائیں بازو کی قوتوں کا سیاسی و ثقافتی نظریہ: ’’بھارت دویہ بھومی یعنی ہندو استھان ہے، سناتن دھرم اور ویدک پرمپرا کی جنم و کرم بھومی ہے۔ جو سناتنی نہیں وہ ملیچھ (ناپاک) ہے، اس کے تحت اصلاً ہربھارتیہ (حملہ آوروں اور ان کی سنتان کو چھوڑ کر) سناتنی ہندو ہے، سب کے پورکھ سمان ہیں، کچھ لوگ کن ہی وجوہات کی بنا پر اپنا مول سناتن دھرم چھوڑ کر اسلام یا مسیحیت میں چلے گئے۔ ان کو گھر واپسی کرکے اپنے کو دوبارہ شدھ کر لینا چاہیے۔ سناتن سنسکرتی ہی بھارتیہ سنسکرتی ہے سب بھارتی اکائیوں کو اسی نظریے کو مان لینا چاہئے۔ ایک ملک، ایک قوم، ایک ودھی، ایک ودھان، ہندو سانسکریتک راشٹرواد! وید، پوران، بھگوت گیتا، رامائن، مہا بھارت یعنی’’مسلم حملہ آوروں‘‘کی آمد سے قبل کے بھارت کو اپنا آبائی و جددی حصہ، ساخت اور شناخت مانیں تب بات برابری پر آئے گی ‘‘۔
’’جو مسلمان باہر سے آئے وہ سب’ آکرانتا‘ یعنی حملہ آور ہیں، انھوں نے صرف مندر توڑے ہیں، ویدک، سناتن، آریائی اور دراوڑ سنسکرتی اور پرمپراؤں کا ہنن یعنی ان کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ان کے دور میں سوائے افرا تفری کےایسا کچھ ہوا ہی نہیں جو قابل تعریف یا قابل ذکر ہو۔ اسلام نعوذ باللہ ایک نہایت غیر متحمل مزاج مذہب، مسلمان ایک جنونی اور جذباتی قوم جن کا کردار سابقہ ہزار سال سے اب تک محض لعن طعن کے ہی لائق ہے ۔ ان کی وفاداریاں اسلام، عالم اسلام و مسلم دنیا سے جڑی ہیں وہ بھروسے کے لائق ہی نہیں۔‘‘
’’یہ اپنا وطن الگ لے چکے پھر بھی ہمارے سینے پر مونگ دل رہے ہیں۔ انھیں نہ نمائندگی کی ضرورت ہے اور نہ ہی کوئی با وقار مقام کی۔نفرت اور منافرت کی مستحق ایک ایسی اکائی جس کی لنچنگ کی جاسکتی ہے، اس کا جشن منایا جا سکتا ہے، ایسا مجرم اکرام و اعزاز کا مستحق ہے۔ اس کے بر عکس اگر مسلمان کے ساتھ کوئی ظلم یا تعصب ہو تو اس کا ہمیشہ جواز موجود ۔بس چپ چاپ پڑے رہو، کچھ مطالبہ نہ کرو، کسی حق پر دعویداری مت کرو، کسی بھی ظلم کے خلاف نہ بولو، لکھو اور آواز اٹھاؤ بس مستحقین کی طرح اپنی اوقات کو اپنا مقدر مان کر چلو اور رہو۔‘‘
یہ وہ بدگمان تصور اور مفروضہ ہے جو مسلمانان ہند کے نفس میں تیزی سے سرایت کر رہا ہے۔ ۲۵ کروڑ کی فعال محب وطن کثیر آبادی میں احساس محرومی کو دانستہ بڑھاوا ملنا کسی بھی سنجیدہ زاویے سے مناسب نہیں۔اس موضوع کو مرکزی سوال بنا کر ان قوتوں سے دو ٹوک بات کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ میں بد ترین مخالف سے ہم کلام اور بہترین دوست سے تعلق کو غیر مشروط نہ رکھنے دونوں زوایوں کا برابر قائل ہوں۔ اب تمام نشاندہ نکات کو سلسلے وار لیتے ہیں۔
(1) بھارت سناتن دھرم کی جنم و کرم بھومی ہے۔ آپ اس کو’ دویہ بھومی‘ یعنی خدا پرستوں کے رہنے کی دھرتی قرار دیتے ہیں۔ یہاں غیر سناتنی کا درجہ ملیچھ کا ہے۔ ان کی موجودگی نا پاکی کا سبب ہے۔ نہ ان کے ساتھ رہا جا سکتا ہے۔نہ ان کے برتن میں کھایا اور پیا جا سکتا ہے۔ نہ اس کا گھر میں’ پرویش‘ درست ہے۔ بس اس سے ہر طرح کا فاصلہ بنا کر رکھا جائے ۔یہ سوچ اس’ ورن ویوستھا‘ کی کوکھ سے نکلتی ہے جس میں یہ عمل ہندو شمار ایس سی، ایس ٹی، دلت اور پچھڑے ہندو سماج کو بھی ایسا ہی سمجھتی آئی ہے۔یہ نظریہ قبولیت و مقبولیت دونوں کے لئے کسی طرح لائق تسلیم نہیں! ہمارے عقیدہ ٔحق کے مطابق کائنات اللہ کی اور ساری مخلوق اسی ایک خدائے وحدہٗ لا شریک کی اولاد ہے۔ افضلیت محض ایمان و تقوے سے تعلق رکھتی ہے اور اسی پر جانچی جاتی ہے۔
(2) ہر بھارتیہ ہندو ہےیہ ثقافتی نظریہ ہےجو ثقافتی نیشنلزم کی دین ہے ۔گویا جو سناتنی ہے وہ توہندو ہے لیکن بقول ان کے اپنے ’’اصل عقیدے‘‘کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا وہ بھی ہندو ہے۔ آگے پیچھے یا تو وہ خود واپس آجائیگا یا حالات اسے ایسا کرنے پر مجبور کردیں گے۔ یہ نا قابل قبول اور نہایت خطرناک سوچ ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔ مسئلہ چھوڑ کر جانا نہیں کیوں جانا ہے؟ چالیس فیصد سناتن سماج اپنے مت کو کیوں چھوڑ گیا، غور اس پر ہونا چاہیے؟ ادھر اگر سب ہندو ہیں تب پھر ذات پات، برادری، مذہب، زبان، علاقے، تہذیب و تمدن کے حوالے سے آئے دن کے جھگڑے کیوں،یہ دوہرا معیار کیسےچلےگا؟ مسلمان کو ہر جگہ الگ کیوں رکھ دیا جاتا ہے؟ ریزرویشن اور نمائندگی دینے کے وقت ہم مسلمان ہو جاتے ہیں۔ اصول سہولت کے مطابق کبھی ہم ہندو اور اکثر مسلمان؟ اگر سب کا ڈی این اے ایک ہے تو پھر یہ تعصب کیسا اور تفریق کیوں؟ عقیدے سے لیکر عبادت، رہن سہن، فکر و عمل، کھانا پینا کچھ بھی تو اعتراض سے خالی نہیں۔
(3) جو مسلمان باہر سے آئے وہ سب آکراتنا، حملہ آور، لٹیرے اور ہندوستان کو تہس نہس کرنے والے تھے ۔انھوں نے سوائے مندروں کو توڑنے، سناتن اور ویدک پرمپراؤں کو تباہ و برباد کرنے یا انکی بے حرمتی کے علاوہ کچھ نہ کیا آٹھ سو سال یہاں انارکی رہی نہ قانون، نہ حکمرانی، نہ ترقی، نہ آپسی میل جول، نہ کسی تہذیب کا نام و نشان بس افرا تفری کیا یہ مفروضہ صحیح ہےقطعاً نہیں۔ ایک دو کوچھوڑ کر سب حکمران یہیں کے ہو رہے۔ اکثریت کی ہر دور میں پوری حصے داری رہی، فیصلوں میں شرکت رہی،صنعت و تجارت ہمیشہ اسی کے پاس رہی۔ مغلیہ دور میں ہماری جی ڈی پی ۲۵ فیصد، ملک میں سینکڑوں مندروں کی تعمیر، تمام دھام، پیٹھ، مٹھ، مقدس ہندو شہر، گروکل، آشرم، ادب و ثقافت سب کچھ تو محفوظ رہا! کچھ زیادتیاں بھی ہوئی ہوں گی پر کونسا اورکس کا دور اقتدار اس سے خالی ہے۔ اعتراف اور انکار میں توازن تو رکھا جانا چاہئے! آج سب یکطرفہ!
4) تقسیم وطن جہاں مسلمان اشرافیہ کا خواب تھا اور انھوں نے ہی بنایا۔ اس کی سزا ان کو کیوں، جو اس فیصلےمیں شامل ہی نہیں! اسلام اور مسلمانان عالم سےہمارے رشتے بالکل ایسے جیسے۔ آپ کے کملا ہیرس یا رشی سنک، یا نیپال اور سری لنکا و ملیشیا کی تامل آبادی سے ہیں! ہم اس تناظر میں کیوں نہیں دیکھے جاتے؟ ہماراکون سا عمل ملک، قومی دفاع، سلامتی و ترقی کےخلاف ہے؟ ایک بھی نہیں پھر یہ رویہ کیوں؟
5) اب آئیے آپ کے مطالبات: اولاً مسلمان اپنا تعلق تمام دنیا کے مسلمان سے توڑ لے اور اپنے کوہندو اور یہیں کے پرکھوں اور پرمپراؤں سے جوڑے تو کیا دنیا بھر میں پھیلے ہندوسماج کے لوگ اپنا دھرم اور سنسکرتی چھوڑ کر کہیں رہ رہے ہیں پھر یہ تلوار ہم پر ہی کیوں؟ یہ غیر منطقی مطالبہ ہے! جو خود پر لاگو وہ سب پر لاگو کا اصول یہاں کیوں نہیں؟ چند مساجدکے مندروں پر تعمیر کے دعوے ایودھیا میں تو سپریم کورٹ نے اس کومسترد کر دیا ،باقی جگہ عدالتیں فیصلہ کریں مسلمان آئینی سوچ اورعدل کے ساتھ ہے۔
مسلمان آپ سے کیا چاہتا ہے؟
(1) اسلام، قرآن، ناموس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم، فقہ اسلامی، ثقافت، تہذیب، تمدن، روایات و اقدار اور عزت نفس کو ہدف بے حرمتی نہ بنایا جائے ۔ہم من حیث القوم آپ کے حوالے سے نہایت محتاط رویہ رکھتے ہیں ہمیں آپ کی مذہبی حسساسیت کا پورا احترام ہے تو کیا ایسی توقع آپ سے رکھنے میں ہم حق بجانب نہیں؟
2) ہماری عبادات آپ کے معمولات میں مخل نہ ہوں یہ لحاظ رکھا جاتا ہے ۔کئی اقدامات پرعمل شروع ہو چکا ہے جیسے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال، سڑکوں پر نماز پڑھنا، عید قرباں میں صفائی، غیر مسلم بستیوں میں قربانی کا نہ کیا جانا وغیرہ ۔مساجد کو کمیونٹی مراکز میں تبدیل کرنے کی طرف تیزی سے پیش قدمی وغیرہ۔ کرونا وبا کے دنوںمیں مساجد کو مریضوں کے قیام و علاج کے استعمال کے لئے دیا گیا۔
3) فرقہ واریت، منافرت، زہر افشانی، بیانات، غلیظ مفروضے، سوشل میڈیا پر نازیبا الزام تراشیاں، تاریخ کو توڑ مروڑ کر ماحول کو نفرتوں کی آگ میں جھونکنا بند ہو۔ مدارس، مقابر، خانقاہوں، مسلم تعلیمی اداروں کے کردارپرانگشت نمائی، قدغن،خوف و ہراس اور غداری کا الزام چسپا ںکرنا بند ہو! مصالحت و مفاہمت واحد قومی تقاضہ!
4) قانون ساز ادارے، عدلیہ، انتظامیہ اور سرکاری ایجنسیوں کاہمارے ساتھ رویہ مساوی اور عدل پر مبنی ہو! مظلومین کو محرومین نہ بنایا جائے ۔ ان کےساتھ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مبنی رویہ رکھا جائے ہم ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ ہم نوالہ ہم پیالہ ہیں!
مشورہ: مستقل تکرار، ا لزام تراشی اور لعن طعن کے ہم مزید متحمل نہیں ہو سکتے۔ مکالمہ، مفاہمت اور مصالحت کی بنیاد پر کچھ ممکنہ با وقار سمجھوتے و معاہدے ہونے چاہئیں، ایک کٹ آف پر اتفاق رائے کے ساتھ دونوں فریقین کے خوشگوار پہلوؤں کو آج کےنوجوان کو بتانے کی ضرورت ہے اگر صرف نفرت ہی پھیلائی گئی تو کسی وقت ایسے تنازعات منہ پھاڑ کر کھڑے ہو جائیں گے جو ایسے فتنے و فساد پیدا کردیں کہ خدا نہ کرے حالات سول وار تک نہ چلے جائیں؟ یاد رکھیں انقلاب کمزور لاتے ہیں طاقتور نہیں! سب کو مل کر سر پھروں کے دماغ کو درست کرنا اور ان پر لگام سخت کرنا قومی ہدف بن جانا چاہیے۔
13 ستمبر 2024 ،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی
-----------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/recent-era-extremism-indian-muslims/d/133198
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism