رضا عابدی
27 دسمبر، 2014
جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے ، میں پورے وثوق سےکہہ سکتا ہوں کہ لفظ رعالمِ کا مطلب مولوی نہیں اور ایک سے زیادہ مولوی ہوں تو اس ان کو علماء کہنا سراسر غلط ہے۔ یہ مہیب غلطی اور اذیت ناک تن آسانی ہے ۔ ایک غریب لفظ کو کیا سےکیا بنا دیا اور خود ہی اس کے عجیب معنی طے کر دیئے گئے ۔ ہر شخص جو کوئی بھی علم حاصل کر کے ایک منصب پر پہنچ جائے وہ عالم ہے۔ دنیا کے بہت سے افراد کسی بھی علم میں مہارت کے درجے کو پہنچ جائیں اور سارے کے سارے علماء ہیں ۔ اور آگے بڑھیں تویوں سمجھ لیجئے کہ جس نے ریاضی کاعلم پایا وہ شخص عالمِ ریاضی کہلائے گا اور جو طبیعات کےعلم میں برتری پاگیا وہ عالم طبیعات قرار پائے گا۔ یہی صورت تمام فنون، تمام شعبوں او رکل مضامین کی ہے۔ مجھے اس سے بحث نہیں کہ کیا دین بھی علم ہے اور اس کے کسی حد تک اور کس درس گاہ سےحصول کے بعد فارغ ہوکر کوئی شخص عالم دین کہلائے جانے کا مستحق ہوگا اور کیا اس کی کوئی حد ہے کہ جہاں پہنچ کر وہ کہے کہ میں نے دین کا علم پالیا ہے۔ یہ بالکل الگ مسئلہ ہے جب کہ ہم زبان کی بات کررہے ہیں ۔ اب جیسے یونیورسٹی میں پڑھانے والا ہر شخص پروفیسر نہیں ہوسکتا ۔ یہ منصب پانے کے لئے اسے علم کے پاپڑ بیلنے پڑتےہیں ۔ اسی طرح دینی درسگاہوں سے فارغ ہونے والا ہر شخص عالمِ دین نہیں کہلایا جاسکتا۔ اس بارے میں عوام کو سمجھا یا جانا ضروری ہے ۔ ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے کبھی عالم طبیعات کو کسی عالم منطق کے معاملے میں ٹانگ اڑاتے نہیں دیکھا اور کسی عالم ریاضی کو عالم معالجہ کےمسائل سلجھاتے نہیں دیکھا لیکن یہ ایک عالم دین سب سے جدا ، سب سے مختلف ہے۔ علم سیاست میں جس ذوق و شوق سے دخل دیتا ہے وہ سمجھ سے باہر ہے۔
جس نے تاریخ پڑھی ہے وہ جانتا ہے کہ سیاست نہیں ، وہ جہاں بانی ہے جس میں دین سے متعلق حضرات شریک ہوا کرتے تھے ۔ ان کا وہ دخل بھی معاملے کے اخلاقی پہلوؤں تک ہوا کرتاتھا ۔ سیاست میں چانکیہ سے لے کر میکاولی تک سب ہی برابر کے حصے دار ہیں ، وہاں بعض علوم کے پر جلتے ہیں۔ وہاں اسی مسئلے پر بحث ہوسکتی ہے کہ سوئی کے ناکے سے بیک وقت کتنے فرشتے گزرسکتے ہیں ۔ باقی سب دخل اندازی ہے اور مداخلت بے جا۔ مجھے خوب یاد ہے ، سنہ پچپن کا زمانہ تھا ، کراچی کے علاقے گولی مار میں ہر صبح ایک دینی جماعت کا موبائل شفاخانہ لگا کرتا تھا اور علاقے کے غریب غربا علاج کے لئے وہاں قطار بنائے کھڑے نظر آتے تھے ۔ ہم سب اس جماعت کو بہت سراہتے تھے اور ہر سال قربانی کی کھال اسی کو دیتے تھے ۔ پھر بڑا غضب ہوا۔ وہ دینی جماعت ایک لخت سیاسی جماعت ہوگئی اور دوسرے ہی دھندوں میں لگ گئی ۔ ہم سب کو دکھ ہوا۔ ہاں تو بات یہ ہورہی تھی کہ کوئی شخص علم کےکس منصب تک پہنچے کہ عالم کہلائے ۔ اس پر مجھے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی پہلی اور آخری رشوت یاد آتی ہے ۔ سقوط ڈھاکہ کے دن تھے ۔ اردو اخبار محرم کی مجالس کی خبریں چھاپتے تھے ۔ رپورٹر جاکر مولوی سے واقعہ کربلا کی پوری تقریر سن کر آتا تھا ، فوٹو گرافر مولوی صاحب اور حاضرین کی تصویریں اتار کر لاتا تھا جو روز صبح کے شمارے میں شائع ہوتی تھیں ۔ ان ہی دنوں ایک مولوی نے کراچی میں مجالس پڑھنی شروع کیں ۔ رپورٹر ان کے نام کے ساتھ لفظ ‘ مولانا’ لکھا کرتا تھا۔ ایک روز مولانا نے مجھے فون کیا اور اصرار کیا کہ وہ میرے گھر آنا چاہتے ہیں ۔ میرے گھر کے نصیب جاگے۔ میں نے چائے کا اہتمام کیا۔ وہ تشریف لائے اور انہوں چلتے وقت میرے تین بچوں کو دس دس روپے کا ایک ایک نوٹ دیا اور رخصت کے وقت میرے قریب آکر فرمایا کہ اپنے اخبار میں میرے نام کے ساتھ مولانا کی بجائے علاّمہ لکھا کیجئے ۔
ان باریکیوں کو ہم نے نہ اُس وقت جانا او رنہ اب تک سمجھ سکے ہیں۔ سمجھ تو گئے ہیں لیکن ظاہریوں ہی کرتے ہیں جیسے نہیں سمجھے ۔
جہاں تک ایک دوسرے کے علم میں دخل دینے اور نہ دینے کامعاملہ ہے، ایک تازہ واقعہ ایسا ہے کہ بیان ہوجائے تو شاید بہتوں کا بھلا ہو۔ پاکستان کے کسی چینل پر کوئی عالمِ دین فرمارہے تھے کہ لفظ نقصان کے اوپر پیش لگانا غلط ہے۔ اس کا صحیح تلفظ زبر کے ساتھ نقصان ہے۔ جواب میں عرض ہے کہ مولانا آپ کے بیان میں نقص ہے۔ نقصان کا نقص سے کوئی تعلق نہیں ۔
پچھلے دنوں کراچی کی ایک اردو کانفرنس میں کسی نے تقریر کے دوران لفظ زبان پیش کے ساتھ ادا کیا۔ اس پر ایک سرکردہ اسکالر نے انہیں ٹوکا اور اصرار کے ساتھ یہی لفظ زبر کے ساتھ ادا کیا ۔ ‘زَبان’ اس کا معاملہ سیدھا سادہ ہے ۔ یہ لفظ ہمیں ایران سے ملا ہے اور اہل ایران اسے دونوں طرح ادا کرتے ہیں۔ ہماری لغات میں بھی اس پر بیک وقت زبر اور پیش دونوں لگے ہوئے ہیں۔ میری تحقیق کے مطابق فارسی میں پیش لگاتے ہیں، اردو میں آکر اس پر زبر لگ گیا ۔ اب یہ ہمارا لفظ ہے اور زبر ہی کےساتھ ہے۔
مجھے اس طرح کی بحث پسند نہیں ۔ چھوٹے چھوٹے معاملوں پر الجھنا کوئی اچھی بات تو نہیں ۔ زبان کوئی سی بھی ہو، عموماً ماں کا عطیہ ہوتی ہے اور اس کے دودھ کی طرح احترام کی مستحق ہوتی ہے ۔ اسے سنبھا ل کر رکھناچاہئے ۔ وقت کے ساتھ اس کا ناک نقشہ بدل سکتا ہے لیکن اس کا حلیہ نہیں بدلتا۔ اسے بُری صحبت سے بچانا چاہئے ۔ اس کے قدرتی حسن میں ملاوت نہیں کرنی چاہئے ۔ اب اگر کوئی پوچھے کہ زبان پر بُرے اثرات کا علم کیسے ہو۔ اس کا جواب آسان ہے۔ جو بات کانوں کو بھلی نہ لگے سمجھئے کہ وہ اور کچھ نہیں ، ہمارے صاف ستھرے اور نفیس دودھ میں پڑی ہوئی وہ شے ہے جس کا نام شاید یہاں کانوں کو بھلانہ لگے۔
27 دسمبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/a-scholar-mean-maulvi-/d/100706