راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
24ستمبر، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
نوجوان مسلمانوں کے لئے،
'دوسرے'لوگوں یعنی غیر مسلموں کے ذریعہ بول
کر، تحریری طور پر، خاکے یا فلم بنانا کر رسول اللہ کی اہانت کا عمل توہین رسالت ہے۔
انہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ افسوسناک عمل ہے
اور اس کی سزا موت ہے۔ منبر سے یہ خطبہ دیا
جاتا ہے کہ کافروں کے سر دھڑ سے الگ کر دو اور اس کے نتیجے میں سڑکوں پر ' ان کے سر
قلم کر دو' لکھی ہوئی تختیاں سامنے آتی ہیں!
یہاں دو مسائل ہیں۔ ایک توہین
رسالت کی تعریف ہے اور دوسرا اس کے لئے سزا ہے۔
اگراوّل مسئلے کا مطلب تضحیک
اور رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی توہین ہے
تو، کیا کسی نے انہیں کبھی بتایا گیا
کہ ان کی قابل احترام
کتابوں کی کئی جلدیں ان تضاد سے بھری ہیں
کہ کس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کی توہین کی گئی، ذہنی اذیت دی گئی،
برا بھلا کہا گیا، چوٹ پہنچائی گئی اور ان کا بائیکاٹ کیا گیا اور آخر میں مکہ شہر
جس میں آپ پیدا ہوئے تھے اس سے باہر نکالنے
میں آپ کا تعاقب کیا گیا اور آ پ کو ایک
دور کے شہر مدینہ میں پناہ لینی پڑی تھی۔
وہ اس کہانی پر فخر محسوس کرتے ہیں جس میں ایک ایسی عورت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتہائی رحم دلی بھرا برتائو کیا تھا جو اآپ سے
اس قدر نفرت کرتی تھی کہ آپ جب بھی اس کے
گھر کے قریب سے گزرتے تھے تو وہ آپ پر کوڑا
کرکٹ پھینکا کرتی تھی، ایک دن جب نبی کریم صلیہ اللہ علیہ وسلم اس عورت کے گھر کے قریب سے گزر رہے تھے تو وہ عورت
اپنے اس عمل میں ناکام رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے دریافت کیا کہ اس عورت آج بھی ویسا ہی کام کیوں نہیں کیا ...... باقی روایات کا حصہ ہیں۔
یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس وقت آپ کے پاس لوگوں کو سزا دینے کے وسائل نہیں تھے۔ یہ سچ ہےاور قابل
قبول ہے.
موخّر ذکر یعنی توہین رسالے کے لئے سزا دینے کے لئے اشتعال تھا جس کی تصدیق
قرآن کی آیت 34:7-8 سے ہوتا ہے، اور
یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخر کار ایک
انسان تھے جیسا کہ آیت 18: 110 بیان کرتی
ہے، لیکن اگر سزا کا حکم ہوتا
جیسا کہ انہیں یقین کرنے کے لئے کہا
جاتا ہے تو کیا ایک ریاست اور فاتح فوج کے سربراہ کے طور پر محمد صلی اللہ
علیہ وسلم نے ان ہدایات پر عمل نہیں کیا ہوتا؟
لیکن ثبوت اس کے برعکس اشارہ کرتے ہیں۔ ان سزائوں پر نوجوان لوگ اس
طرح یقین کرتے ہیں جیسے قرآنی احکام اس وحی کا حصہ نہیں ہیں جو آپ پر نازل ہوئیں اور قرآن میں مرتب کی گئیں۔ اس لحاظ سے آپ کو صرف ان پر عمل کرنے کی ہدایت
دی گئی اور اسی کے مطابق لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے کہا گیا 21-45 ۔
تقریباً ایک دہائی بعداللہ
کے اسی رسول نے اپنے
پیدائش کے شہر کو فتح کر لیا، اور سب کو عام معافی دے دی اور
فتح مندی کے ساتھ اس شہر کو واپس ہو
گئے جہاں آپ نے پناہ لی تھی۔ کیونکہ معاف
کرنا خدا کو بہت پسند ہے۔
اس لئے یہ تجویز دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دئے
گئے پیغامات اور آپ کی سنت سے
برعکس عمل ، جسے وہ لوگ کہتے ہیں کہ
وہ اسے اپنے ایمان کے حصے کے طور پر بہت عزیز
مانتے ہیں، لیکن جب اس پر عمل کی بات آتی ہے تو وہ اس کو نظر انداز کر دیتے
ہیں، تب وہ لوگ جو عمل کرنے میں ناکام رہتے
ہیں وہ اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک اور توہین کر رہے ہیں اور
اہانت رسول کا ارتکاب کر رہے ہیں!
دوسروں کی طرف سے خاص طور
پر مسلح قسم کی اشتعال انگیزیوں پر رد عمل کا اظہار کرنے سے جو چوٹ، تباہی، لوٹ کھسوٹ اور قومی اور بین الاقوامی
بحران اور نقصان کا باعث ہوتا ہے وہ نہ صرف افراد بلکہ کسی کے رشتہ ناطے داروں کا فطری
انسانی ردعمل ہوتا ہے۔ لیکن اسے غور و فکر کے ذریعہ ختم کیا جانا چاہئے،
جو فساد پیدا کرتا ہے ، لوگوں کو چوٹ پہنچاتا
ہے اور بدلے میں تباہی اور معصوم لوگوں کی
جان لینا بھی اس مقدس شخصیت کی ہتک ہے جس کے اخترام کا وہ دعوی
کرتے ہیں۔ اس طرح کا عمل اور فساد برپا کرنا بھی
قابل سزا جرم ہے۔
تجزیہ کار ہمیں بتائیں گے کہ آج مسلمانوں کا یہ ردعمل مغرب کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
صرف بے شمار توہین کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ ان کے خلاف کئی برسوں سے دبے ہوئے جذبات اور غصہ ہیں۔
قومی حکمت عملی کے لئے مسلم دنیا
میں حملوں اور مسلح تنازعات اور مصیبت کے مراکز
کو پیدا کرنے کے ذرائع جو ثابت ہو چکے ہیں اور ان میں سے بعض جھوٹے بہانے کے سبب ہیں
اور یہی غصے کے باہر آنے کی اصل وجہ ہیں۔
لیکن یہ بہت واضح ہے کہ مسلمان
نوجوانوں کا ردعمل اسلام کے نام پر گمراہ کن
ہے۔ یہ برعکس ہدایت
کہاں سے آتی ہے؟ کیا کوئی اندازہ نہیں
ل؛گا سکتا ہے کہ یہ منبر سے آتا ہے؟
اپنے خود کے استعمال ، مسلم
حکومت سے لے کر غیر ملکی طاقت اور ثقیف
سیاسی، فوجی اور ایماندار قیادت کی کمی
ایک مشکل ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ
یہ آج سڑکوں پر غصہ ظاہر
کرنے کی اضافی وجہ ہے۔ اور اس کا اظہار صرف مسلم دنیا میں ہی نہیں بلکہ ان ممالک میں بھی جہاں مسلمانوں نے پناہ لے رکھی
ہے اور جسے اپنا گھر کہتے ہیں۔ لہذا جیسا ان کے اپنے ملک میں ہے ویسا ہی مغرب میں بھی ہے اور یہ لوگ اپنے مفاد کے خلاف ہی کام کر رہے ہیں!
عدم اتحاد اور خاص طور پر تارکین وطن میں سیاسی بےغرض قیادت کی
بالکل کمی نے برے حالات کو پیدا کیا ہے اور اس طرح پیدا خلا کو مذہبی لوگوں نے پر کر دیا۔۔۔ تمام مکتب فکر کے چرچ نادر اتحاد کو پیش کرتے ہوئے مسلم طبقے کی نام نہاد ہدایت کے لئے
آگے آگئے۔
اگر یہ ان کی طرف سے شورش کو
ختم کرنے کی حقیقی کوشش
ہے اور جیسا کہ بہت سے لوگ امید کر
سکتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ان کے لئے نہایت اہم ہے کہ وہ اپنے مکمل نقطہ نظر کے ساتھ میدان میں آئیں
اور ان مذہبی لوگوں اور تنظیموں
کی عوامی طور پر مذمت کریں جو مساجد
میں گول مول باتیں کرتے ہیں اور عوام و میڈیا
کے درمیان الگ انداز میں بات کرتے ہیں۔ یہ با معنی ہدایات منبرپر
بھی لاگو ہونی چاہیئے اور اسے امن کے
حقیقی پیغام کو فراہم کرنا چاہئے۔
آج کے بھولے بھالے مسلم نوجوان تارکین وطن برادری میں سب سے زیادہ الجھن میں ہیں اور کوئی بھی ان کی کشمکش پر صرف
ہمدردی کا اظہار کر سکتا ہے۔ ایک طرف یہ لوگ
مکمل طور پر ایک دوسرے کا لحاظ نہ کرنے والی دو ثقافتوں کے درمیان پھنس گئے ہیں تو دوسری طرف
ان کو اشتعال دلانے کے لئے مسلح جہاد کی طرف
ان کو بلایا جا رہا ہے۔
کوئی بھی ایسی کئی مثالیں دے سکتا
ہے کہ خاص طور سے عیسائی برادری اس طرح کے
اشتعال دلانے پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرتی ہے۔ اسی طرح کہ ایک مثال کے طور پر عیسیٰ مسیح کی
پینٹنگ ہے جس میں عیسیٰ مسیح کو پیشاب میں ڈوبے صلیب پر پیش کیا گیا ہے۔ کیا ہم مسلم دنیا
میں اس
فتنہ پر کوئی تماشہ سنتے یا دیکھتے ہیں، خاص طور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عیسیٰ مسیح بھی ان کے رسول ہیں؟ پوری عیسائی دنیا میں مونٹی پائتھن جیسی فلمیں اور چرچوں میں انبیاء
کے برہنہ مجسمے بکھرے ہوئے ہیں۔ ان
کی طرف سے اس پر پرتشدد ردعمل کہاں ہے؟ شکر ہے خدا کا، کہ کوئی
بھی کہے گا کہ وہاں ایسا نہیں ہے!
مغرب میں یہ روایت تسلیم شدہ ہے کہ کچھ بھی
اور کسی کی بھی تضحیک کی جا سکتی ہے، جس میں مسلمانوں نے ان ملکوں
میں قانون کو ماننے والے شہری کے طور پر
رہنے کو منتخب کیا ہے، ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ملک کے قانون کا احترام کریں جو ثقافت کو آرٹ یا آزادی اظہارے رائے کے طور پر نشو نما کی اجازت
دیتا ہے۔ اسے اس لئے قبول کریں اور ہم آہنگی اور بھلائی کے لئے اپنی زندگی کے ساتھ
دور ہو جائیں۔ اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ 'دوسرا گال
سامنے کر دیں' کی رائے دی جا رہی ہے۔ بالکل بھی نہیں، قرآن نے دفاع میں کبھی اس طرح کی کمزوری کی وکالت نہیں کی ہے۔
جائز اور قانونی
طور پر احتجاج کے طریقے اور ذرائع ان کے اپنے
اختیار میں ہیں۔ تاہم ، یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ قانونی کتابوں میں درج ان اختیارات پر پوری طرح عمل در آمد نہیں ہو رہا ہے یا
جن پر بعض حالات میں عمل کی اجازت نہیں ہوتی ہے، لیکن اس کے برخلاف عمل اس کاز کو نقصان پہنچاتا ہے جس کے لئے
احتجاج کر رہے ہیں اور یہ جس شخصیت کے احترام کا دعویی کرتے ہیں یہ اس کی ہتک ہے۔
نوجوانوں نے جو بری تشہیر پیدا کی ہے
اس کے باوجود کسی کو صرف مختلف ذرائع ابلاغ اورادارتی کالم اور ویب سائٹ کو دیکھنا ہوگا جو بتاتے ہیں
کہ مسلمانوں کے اتنے مشتعل ہونے کے لئے ہمدردی پائی جا رہی ہے۔
یہ ان لوگوں کے لئے مشورہ ہوگا جو
مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ اس سے فائدہ حاصل کریں اور قانونی طور پر احتجاج درج کرنے کے لئے حمایت حاصل کریں۔
---------
راشد سمناکے ہندوستانی نژاد
انجینئر (ریٹائرڈ) ہیں اور چالیس سالوں سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور نیو ایج اسلام
کے لئے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/radical-islamism-and-jihad/violence-in-his-name-blasphemes-the-rasool?/d/8775
URL
for this article: https://newageislam.com/urdu-section/violence-name-prophet-(saw)-his/d/8893