راشد سمناکے،نیو ایج اسلام
انگریزی سے ترجمہ مصباح الہدیٰ،نیو
ایج اسلام
اور اسی کےنشانات (اور تصرفات)میں
سےہےآسمانوں اورزمین کاپیدا کرنااورتمہاری زبانوں اوررنگوں کا جداجداہونا۔ اہلِ دانش
کےلیےان (باتوں)میں(بہت سی)نشانیاں ہیں(30:22)
عربی زبان کی دلفریبی اور
دلکشی نے سادہ جوح مسلمانو کو اس بات پر یقین کرنے کیلئے اپنے جال میں پھانس لیا ہے
کہ کو ئی بھی زبان مقدس ہو سکتی ہے ۔مسلمانو کی اکثریت یہ مانتی ہے کہ عربی زبان مندجہ
ذیل بنیادوں مقدس ہے ۔
ا)یہ خود خدا کی زبا ن ہے
اس لئے کہ قرآن عربی میں ہے ،
ب)اس لئے کہ قرآن عرب میں
،عربی زبان میں نازل ہوا ،
ج)پیغمبر اعظم ﷺپیدائشی اعتبار
سے ایک ‘عرب ’تھے اور ان کی مادری زبان عربی تھی
مندرجہ بالا سطریں درج ذیل
وجوہات کی بنا پر اس تصور کے خلاف مدلل دلائل پیش کرتی ہیں ؛
خدا اپنی خدائی میں حاضر و
ناظر ہو نے کے ساتھ ساتھ (14-34)غیر محدود اور عالم الغیب بھی ہے ۔لہٰذا وہ کسی ایک زبان کا جاننے والا نہیں ہو سکتا ۔اس با
ت کا یقین رکھنا کہ خدا صرف ایک ہی زبان جاننے والا ہے کفر ،اسکی صفات کے انکار کے مشابہ ہے ۔اس سے خود خدا کی مخلوق کا خدا
کے بارے میں کشمکش کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسا کہ انسا نوں کے درمیا ن کچھ دو زبان جاننے
والے ہیں اور کچھ لوگ مختلف زبان جاننے والے ۔
صرف محمد ﷺ ہی خدا کے ایسے
پیغمبر نہیں تھے جو خدا کی رہنمائی انسانوں تک پہونچانے آئے تھے ،جیسا کہ ان سے پہلے(2-4) مختلف قوموں میں مختلف نبیوں کی آمد ہوئی تھی۔یہی وجہ ہے کہ سابقہ
تمام انبیائے کرام ،۱۲۵ہزار
مستند روایات کے مطابق اور ۱۴۴
ہزار بائبل کے مطابق، مؤثر انداذ میں اپنی قوم کو دعوت دینے کے لئے ،ضرور انہوں نے خدا کا پیغام خود
ان کی مادری زبان میں پہونچایا ہوگا ،قرآن کی کلاسیکی عربی میں نہیں۔
پیغام عالمگیر ہے ۔لیکن انسانوں
کے پاس کو ئی ایسی بے نظیر عالمی زبان نہیں
ہے، اسی لئے قرآن کا ترجمہ کرنے والوں کو غیر عربوں تک اس کا پیغام پہونچانے
کیلئے دوسرے مختلف زبانوں کا سہارا لینے کی ضرورت پڑی تا کہ عجمیوں کو خود ان کی زبان
میں قرآن کا پیغام سمجھایا جا سکے ۔
صرف اپنی ہی نہیں کسی بھی
زبان کی کسی بھی کتاب کو پورے طور پر سمجھنے کے لئے ، اس خاص زبان کی روز مرہ میں بولے
جانے والے الفاظ کا جاننا کا فی نہیں ہے؛ بلکہ
اسکے معمولی فرق،اور پیغام کی روح کو بھی سمجھنا ضروری ہے ۔
آج عربی زبان میں ایسے بہت
سارے الفاظ ہیں جو دوسری زبانوں کے مترادفات ہیں ۔جیسا کہ فارسی اور اردو زبان ،لیکن
ان کےمعانی ان سے بالکل مختلف ہیں جو قرآن میں بیان کئے گئے ہیں۔کتاب نے کبھی اس کا
بہت کم استعمال نہیں کیا ہے بلکہ اس کے معنیٰ میں اس قدر آفاقی وسعت رکھی گئی ہے کہ حفظ کرنے والا عربی داں طبقہ اس
کا احاطہ کرنے میں نا کامیاب ہو چکا ہے ۔
مثلا لفظ اللہ عام طور پر
عرب میں تمام بتوں کے سر دار کے لئے آتا ہے لیکن اب اس لفظ کا استعمال عالمی سطح پر اس ذات کی طرف دلالت کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا
ہے ‘‘جو تنہا حاکم اور مقتدر اعلیٰ ہے’’جس کا عربی نام اللہ ہے۔لیکن لفظ اللہ خاص طور
پرمسلمانوں کی طرف سے اس طرح لیا جاتا ہےگویا کہ وہ عالمی اتھارٹی کے شخصی ،پیدا ئش،شادی،
اورموت کے رجسٹرمیں اندراج شدہ ہے ۔
یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے اس
تعلق سے یہ بھی استدلال پیش کیا ہے کہ لفظ اللہ ایک ‘‘خاص نام ’’ہے جو قرآن میں حاکم
مطلق کے لئے بیان کیا گیا ہے ،کسی بھی شخص
کے ذریعہ کسی اور زبان میں کسی اور نام سے بالکل نہیں پکارا جانا چائے ؛ایسا کرنا کفریہ
عمل ہو گا ۔اس کے با وجودحاکم مطلق کا یہ انوکھا پن یہودیت عیسائیت اور دوسرے مذاہب
میں بھی پایا جاتا ہے ؛ایسے لوگ جنہیں قرآن ‘‘اہل کتاب ’’کی حیثیت سے قبول کرتا ہے
،اس با ت کو اچھی طرح سے جا نتے ہوئے کہ انکے اصلی نسخوں میں آمیزش کی گئی ہے ۔ در
حقیقت مسلمان ابھی بھی اس بیان کو مسترد کریں گے گویا کہ ان کے مقدس پیغمبروں کا اللہ موسیٰ اور عیسیٰ وغیرہ سے بالکل مختلف ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا عربی
میں ہونا خدا کے علم لسانیات کی حد بندی نہیں ہے ۔عربی زبان کا انتخاب صرف منطقی اعتبار
سے کیا گیا تھااس لئے کہ پیغمبر پیدائشی اعتبار سے عربی تھے اور اور عرب کے لوگ مادری
زبان کے طور پر عربی بولتے تھے ۔یہی ایک ایسی زبان تھی جسے وہ سمجھ سکتے تھے ۔اسی لئے
پیغام بھی عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں دیا جا سکتا تھا ۔بالکل اسی طرح خدا
کے دوسرے پیغمبروں نے اپنے پیغامات عربی زبان میں نہیں پہونچائے ،بلکہ اپنے مخاطبین
کی مادری زبان میں پہونچائے ۔
لہٰذا ضروری طور پر نتیجہ
یہ برآمد ہو گا کہ اگر عربی پیغمبر محمد ﷺ کی زبان ہونے کی بنیاد پر مقدس ہے تو گزشتہ
انبیائے کرام کی مختلف زبانیں بھی ضرور مقدس ہونی چاہئے ۔صدیوں سے لا علمی کے غبار اور عربی کے مقدس مذہبی زبان کے طور پر فروغ کی
وجہ سے یہ مسلمانوں کے لئےآج نا قابل فہم ہے۔یہ
ان کے ایمان کے مکمل تقابل کی وجہ سے ہے کہ اگر چہ گزشتہ تمام انبیائے کرام مقدس تھےمگر
ان کی زبانیں مقدس نہیں تھیں ۔ہزاروں سالوں
سے تقدس کا یہ بازار یقیناًکامیاب رہا ہے،اس سر زمیں کی صرف زبان ہی نہیں بلکہ ہر وہ
چیز جو وہاں سے منسوب ہے مثلاًآب ‘‘زم زم ’’لباس کا انداز ،وہا کے عطر ،کھجور اور جائے
نماز اور یہاں تک کہ تحائف ،اگر چہ ان میں سے اکثر ہندوستان ،جاپان اور چین میں بنائے
جاتے ہیں ،اور انہیں مقدس تصور کیاجاتا ہے ۔
ایک آٹھ سال کا بچہ اتوار
کے دن ایک‘ مذہبی’ درس میں شامل ہوتا ہے اوروہاں سے عربی کے کچھ عام الفاظ سیکھتا ہے
،مثلاً ‘جزاک اللہ ’اور اسے روزانہ استعمال کرتا ہے ،‘اچھے مسلمان ’اور اسکے والدین
بہت خوش ہوتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔لیکن جب اس بچے سے اس کا معنیٰ پوچھا جاتا ہے تع وہ اپنے کندھوں
کو ہلاتا ہے اور کہتا ہے ‘‘میں نہیں جانتا ’’ارو سوال کرنے والے کو حواس باختہ چھوڑکر
بھاگ جاتا ہے ۔
مندرجہ بالا سطرروں میں ایک
مذہبی زبان کے متعلق منفی ذہن سازی کے کشمکش کی وضاحت کی گئی ہے ۔علم حاصل کرنے کے
لئے کو ئی بھی زبان سیکھ نے کے بجائے اس کا استعمال رسوم و رواج کی تعمیل اور کلیسہ کی عبادت کے لئے کیا جا تا ہے
۔
جزیرۂ عرب نے پیغام انسانیت
کے حقیقی معنوں کو تقدس زبان کے پردے میں دفن کر کے پورے طور پردھندلا کر دیا ہے ،صرف ایک ملک کےاقتصادی مقصد کے پیش نظر اور کسی خاص اشراف طبقہ کے پیشے
کے دوام کی وجہ سے بھی جسے کہا جا تا ہے کہ ملا کی اذان اور مجاہد کی اذان میں فرق
ہے ۔
URL
for English article https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/the-shroud-holy-language/d/8866
URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-shroud-holy-language/d/9417