راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
16 مئی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
سب سے زیادہ
اہم واقعہ
قرآن کی آیت 9-40 فرماتی
ہے کہ: " اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلبۂ
اسلام کی جد و جہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بیشک اللہ نے ان کو (اس وقت
بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا..." اور ہجرت کے
تاریخی واقعہ کا حوالہ دیتی ہے جب اللہ کے رسول
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ، 'ایک'
قابل اعتماد صحابی کے ساتھ مکہ کے دشمنوں سے بچایا تھا،
ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں قتل کرنے کامنصوبہ بنایا تھا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور
آپ کے آباؤ اجداد کا شہر تھا۔
آپ کے تئیں مکہ کے لوگوں
کی دشمنی کی وجہ یہ تھی کہ آپ بے مثال خدا
کی بتائی حقیقت کی تبلیغ کرتے تھے، جو
اس عالم کا واحد خالق
اور سب کا پروردگار ہے اور تمام دوسرے خدائوں
اور اوتاروں کا انکار کرتے تھے، تاکہ انسانیت
کا اتحاد (قرآن، 10-19)قائم ہو اور اس طرح
سوائے خدا کے تما م طرح کی غلامی سے نجات کی بات کرتے تھے(21-53)۔ یہ مندر کا شہر تھا جو کئی قدیم اور ملحد خدائوں اور دیویوں کے مجسموں کی پرستش کے کاروبار پر ترقی حاصل کر رہا تھا (53-19, 20) اور یہ کارواں کاروباری
راستے پر ایک تجارتی مرکز بھی تھا۔
ہجرت مدینہ کے تناظر میں، "خدا اور اس کے فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی " تاکہ اپنے دشمنوں
کو چکمہ دے سکیں جس کا حوالہ مکمل طور پر درج
ذیل آیت 33-56 کے پہلے حصہ میں دیا گیا ہے۔ وہ
محفوظ طریقے سے دو دراز کے شہر مدینہ (17- 1, 2) میں مومنوں
کی محفوظ تحویل میں پہنچ گئے جنہوں نے اس سے
قبل مکہ کے اپنے سفر کے دوران پیغام الٰہی
کو قبول کیا تھا، وہ بڑی شدت سے آپ
کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ہجرت، کئی معنوں میں دوسرے
رسولوں کی قیادت میں اس طرح آبادی کی نقل و حرکت سے الگ تھی، مثال کے
طور پر بنی اسرائیل، جس کا حوالہ اسی باب میں دیا گیا ہے:‑
1 - عام طور پر 'پناہ' مظلوم
لوگوں کی طرف سے مانگی جاتی ہے، جن لوگوں کو ان کے اپنے گھروں سے نکال دیا جاتا ہے
اور مایوس کن حالات میں دوسروں کے دروازے پر
یہ پناہ گزینوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہونے سے قبل دستک دیتے
ہیں۔ اس کے برعکس مدینہ کے لوگ مومنوں اور مددگاروں (9-100) کے طور پر انہیں قبول کرنے کے لئے پہلے
سے تیار تھے اور ساتھ ہی اس بات کے لئے بھی تیار تھے کہ ان لوگوں کی آمد سے مجموعی طور پر
ان لوگوں کی زندگی اور قوم میں جو اہم
تبدیلی واقع ہونے والی تھی۔
2 ۔ آیت 33-56 کے دوسرے حصے میں مومنوں کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی حمایت کرنے، حوصلہ بڑھانے اور عمل کرنے کو کہا گیا تھا۔ اگلے ہی سال
جنگ بدر کے موقع پر جب مکہ کے لوگوں نے
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پناہ لئے ہوئے شہر (3:13) پر حملہ کیا تھا اور اس کے ذریعہ مدینہ کے لوگوں کو
عظیم امتحان میں ڈالا گیا۔
مومنوں نے ثابت قدمی کے ساتھ اپنے شہر
کا دفاع کیا اور زبردست مشکلات کے باوجود اپنے لوگوں کی بھی حفاظت کی (باب9)۔ جیسا کہ آیت 17-1 میں ذکر ہے، ایک نئی ریاست کی بنیاد رکھی جس کے لئے ان کا شہر
اور اس کا ماحول متبرک تھا اور
لوگوں کو " اس کی طرف سے ان کے
لئے بہت درجات ہیں "۔ (4- 95-96)
3 ۔ غیر معمولی تعاون اور لگائو
8-63، برادری / بھائی چارہ 49-10 اور اشتراک، 21-92 مدینہ میں پیدا ہوا۔ جیسا کہ آیت 59- 8-9میں کبھی آپس میں جنگ کر رہے قبیلوں کے
درمیان، اور پناہ گزینوں کو چودہ سو سال پہلے
دی گئی مدد، اس کی شاید بنی نوع انسان کی تاریخ
میں کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔ یہ دنیا کے لئے ایک مثال ہے جس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ خاص طور سے عداوت رکھنے والی اور انتہائی غریب مسلم دنیا اس کی تقلید کر سکتی ہے جہاں المیہ یہ ہے کہ سب سے امیر لوگوں میں سے کچھ اور عام طور پر بدعنوان لوگ رہتے ہیں!
4۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ، مسلمانوں کا
ہجری کیلنڈر مکہ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے
اس اہم واقعہ سے شروع ہوتا ہے اور نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش یا
انتقال کے دن سے شروع ہوتا ہے، جیسا کہ دوسروں
کے ساتھ اس مخصوص تاریخی اور اہم واقعہ کا یادگار بنانے کے لئے
معاملہ کیا جاتا ہے۔ لہذا، اس اہم واقعہ کو مسلمانوں کو آزادی، مساوات اور
ابتدائی مسلمانوں کے بھائی چارے کو منانا چاہئے جس کی
آج مسلمانوں کو شدت سے ضرورت ہے!
اس طرح مسلمانوں کی تاریخ کی میں ایک انتہائی اہم واقعہ ہوا جس نے پہلی بار ایک منفرد نظام کو قائم کیا جسے رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے پھر سے عمل کرنے کے مشن کے طور پر دیا۔ یہ ایک
ایسا نظام تھا جو تمام گزشتہ پیغمبروں
(42-3) پر بھی نازل ہوا تھا، جو پوری انسانیت کی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لئے 'سماجی اور اقتصادی
ضابطہ کی وضاحت کرتا تھا۔ (2-5)
مذہبیت میں کھو دیا
آیت33-56، اس طور پر اہم ہے، شاید ایک صدی کے بعد جب روحانیت کے لباس میں لپیٹ کر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دورود
و سلام بھیجنے کے لئے ذکر کے طور پر استعمال کیا گیا تھا! یہ ایک
ایسا عمل ہے جس کا اجر آخرت میں ملے گا اور اس کے لئے نہ تو ایک پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ ہی پسینہ بہانے کی
ضرورت ہوتی ہے!
اس دعا کے ورد کرنے سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کا اثر کراماتی ہے۔ ا یسا کہا جاتا ہے کہ 1258 میں جب منگول حکمراں ہلاکو خان اپنے مسلمان اتحادی دوستوں
کی حمایت کے ساتھ دنیا کو فتح کرنے
کے مشن پر تھا اور بغداد پر حملہ کرنے والا تھا، اس وقت شہر کے امام نے شہریوں کو مشورہ دیا کہ اس لعنت کو دور بھگانے کے
لئے اس آیت کی ہزار
بار تلاوت کریں۔ حیرت کی بات نہیں کہ ایسا
نہیں ہو سکا اور دس دنوں تک
شہر جلتا رہا اور زندگی اور جائیداد
کو بے رحمی سے تباہ کیا گیا۔ بہت حد تک ایک
دہائی کے دوران امریکہ کے اتحادی دوستوں نے
بھی اسیا ہی کیا ہے۔ عباسی حکمرانوں
کے دربار میں مذہبی چپکلش کو
ذہن میں رکھتے یہ یقین آج بھی ہے اور
ایسا ہونا ممکن لگتا ہے!
جن احکام کے لئے عملی کوشش
کی ضرورت ہوتی ہے ان کے لئے تمام عبادت خانوں کے پاس ان پر توجہہ نہ دینے کی چالاکی بھری مہارت ہوتی ہے اور وہ رسومات اور عبادت کی طرف رجوع کرتے ہیں ، اس فریاد کو
درود کہتے ہیں، جو ایک فارسی لفظ ہے
اور مندرجہ ذیل آیت کے دوسرے حصے سے نکلتا
ہے۔
مزاق کے طور پر یہ ایک مناسب
مثال ہے۔ پچاس کی دہائی میں ایک انگریزی
اخبار میں درمیانی عمر کے ایک جوڑے
پر مبنی ایک کارٹون پیش کرتا تھا،
جس کا نام اینڈی کاپ تھا جو ناامید تھااور
بھلا انسان نہیں تھا اس کی اہلیہ فلو طویل
مصائب کا شکار تھی۔ ایک دن پب سے گھر واپس
آتے وقت اینڈی نے شارٹ کٹ اپنایا اور ایک
قبرستان سے گزرا اور وہاں قبر پر پڑے پھولوں کو اٹھا لیا اور اور اسے
اپنی محبوب فلو کو پیش کیا!
فریاد کے جذبات میں بہت کچھ اسی طرح ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کا ورد آیت
کے دوسرے حصے کے جواب میں کیا جاتا ہے آیت 33- 56 کا
عام ترجمہ یہ ہے، " بیشک اللہ
اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں،
اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو"
سامعین کی جانب سے فوری طور با
آواز بلند نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درورد اور
سلام تعظیم کے ساتھ ہی ساتھ عبادت کے حصے کے طور پر بھی بھججا جاتا ہے۔ یہ کہنا گستاخانہ اور کم از کم غیر منطقی
لگتا ہے ، ان پر غور کریں:‑
مومنوں کو اس استدعا
پر عربی زبان میں جواب دیناسکھایا جاتا ہے ‑ " اللھم صل علٰی
محمد ... اے خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا فضل فرما اور ان کی حفاظت فرما ... وغیرہ۔ اس درود کے دوسرے ورژن بھی ہیں جن میں آل لفظ
بھی شامل ہے ۔، اسی طرح لفظ 'قربا ' قریبی
رشتہ دار استعمال کیا گیا ہے، جیسا کہ آیت( 42-23) میں دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس لفظ کے عام
معنی 'رشتہ داروں' سے ہے، اور نہ کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں
کی طرف کے خاندان کے لوگوں کے لقب سے ہے۔
دوسرے حصہ میں مومنوں کو آیت
33-56 کے پہلے حصہ میں مقرر مثال پر عمل کرنے کی تاکید ہے۔ لیکن جواب میں مسلمان خدا کو
اس کے فرض کی یاد دلاتے ہیں جسے خدا نے پہلے ہی ادا کر دیا ہے! یہ بہت کچھ صلاوٰۃ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرح
ہے۔ مسلمان جب بھی رسول اللہ کانام آتا ہے
تب اس کا ورد کرتے ہیں، اگرچہ خدا نے قرآن مجید میں اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ "ان سے راضی ہے9-
100" اور اس لئے ان پر اپنا فضل فرمایا
ہے۔
روایتی طور پر بات کریں تو کوئی بھی
اپنے بزرگوں اور سینئر کو سلام پیش
کرتا ہے جیسے ایک فوجی اپنے افسروں کو پیش کرتا ہے۔ پھر اگر
خدا رسول اللہ کو سلام بھیجتا ہے تو
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا رسول اللہ کو
اپنے سے سینئر کے طور پر رویہ کرتا ہے؟ اس میں بہت کم منطق ہے لیکن یہ مذہب ہے۔ (تسلیمات کئی بارقرآن مجید میں "سلامن "لگتی ہے)
اردو شاعر شکیل سے معذرت کے ساتھ ان کے شعر کی
پیروڈی (parody) اس طرح ہو سکتی ہے:‑
اے محمد تیرے اسلام پے رونا
آیا
جانے کیوں آج تیرے نام پے
رونا آیا
لہذا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ
صلی / صلو/ صلوٰۃ اور دیگر الفاظ جیسے کہ صلاۃ
وغیرہ کے معنی صرف تعظیم یا پھر عبادت نہیں ہے، ان کی جانب سے کچھ کرنے کے لئے خدا کو روحانی طور پر راضی کرنے
کے واسطے موضوعی رسوم نہیں ہیں بلکہ
ایک فرض کے طور پر کچھ عملی کارروائی
کے لئے ذمہ اٹھانا ہے جیسا کہ قرآن میں حکم
دیا گیا ہے۔
یہ 'نماز' کے مسائل اٹھانے کی جگہ
نہیں ہے۔ نماز، سلاۃ کے لئے
ایک فارسی لفظ ہے، مصلہ پر تاہم کسی کی
توجہہ سورۃ 107 پر
مرکوز کرانا کافی ہوگا، مجموعی طور پر جب اس طرح کے
موضوعی معنی دئے جاتے ہیں۔ آیات ایسے
عبادت گزاروں اور مصلیوں ل کا تمسخر کرتی ہے
جو اس لئے عبادت کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کو دیکھیں،
یعنی وہ اپنے تقویٰ کی تشہیر کرنا چاہتے ہیں
لیکن ا پنی ذمہ داریوں کو بھول گئے ہیں؛ جو فرائض ان پر
عائد کئے گئے ہیں۔ اس لئے صلاۃ/ صلو وغیرہ مصلہ
پر ورزش کرنا نہیں ہے بلکہ خاص طور پر فرائض کو انجام دینا ہے۔
آیت 33: 56 کے دوسرے حصہ میں عمل کے لئے ہدایت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی اتباع کرنے کے لئے حوصلہ افزائی ہے
(3: 146, 9- 11, 120) جیسا کہ خدا اور اس
کے فرشتوں نے کیا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیات میں تھے تو آپ نے خدا کے پیغام کو پہنچانے
کے لئے اپنے دئے ہوئے مشن کو مکمل کیا۔ لہذا
ایک مسلسل جدو جہد کی کوشش (20-15, 53-39) دانشورانہ دلائل (16-125) کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اب چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان نہیں ہیں، اس لئے ہماری
حمایت اور حوصلہ افزائی کے لئے کوئی باقی نہیں
ہے۔ قوم کو قرآن کی
پیروی کرنی چاہئے جو ہم تک مکمل دین کے طور پر پہنچی ہے 5-4۔ انسان
دوسروں کی خدمت کر خدا کے لئے اس کے فرائض
کو پورا کر سکتا ہے جیسا کہ آیت 5-59 میں
ذکر ہے،" وہ لوگ جو دوستی کے لئے خدا
، اس کے رسول اور مومنوں کی طرف بڑھتے ہیں.......
" دوسرے الفاظ میں، جیسا کہ سمجھا جاتا ہے
کہ مدر ٹریسا نے کہا ہے کہ 'دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے سے بہتر ہےدوسروں کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھائو'۔ اور آیت
59-8 اور 9 کی اتباع کریں۔ لیکن مذہب
میں اسے رسمی گیت میں تبدیل کر دیا گیا۔
ایک اور اردو شاعر دنیا میں تباہی مچانے کے لئے منظم گرجا گھروں کے لئے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے جس نے حقیقت کو
مذہبی لبادے میں چھپا رکھا ہے۔ پنڈت آنند رائے' ملا ' نے علماء سے اس طرح خطاب کیا ہے:
تجھے مذہب مٹانا ہی پڑے گا روئے ہستی سے
تیرے ہاتھوں بہت توہین آدم
ہوتی جاتی ہے
لہذا، شاعر کو احترام اور نوازنے کی یہ کسی
کی نیت ( نیت معنی ارادہ کے ہیں جو ایک عربی
لفظ ہے اور قرآن میں نہیں پایا جاتا ہے، اس کے باوجود مذہبی بے عملی کے ایک افیون کی مقدس گولی ہے) ہو سکتی ہے لیکن افسوس کہ اب اس شاعر کی قبر پر کوئی صرف گلہائے عقیدت ہی
پیش کر سکتا ہے تاکہ اینڈی جیسے لوگ اسے اپنے گھر لے جائیں اور اپنے پیاروں کو پیش کریں اور بغیر کو شش کے عملی استعمال کر سکیں۔ اس دوران ایسی بہادر روحوں
پر خدا کے فضل کے لئے استدعا کر نا ضروری ہوگا!
----------
راشد سمناکے
ہندوستانی نژاد انجینئر (ریٹائرڈ) ہیں اور چالیس سالوں سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور
نیو ایج اسلام کے لئے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
URL
for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/prophet-migration-hijrat-medina-most/d/7346
URL
for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-most-significant-event-muslim/d/9143