راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
10 اگست 2015
یہ ہفتہ دوسری جنگ عظیم کے انتہائی خوفناک انجام کی سترویں سالگرہ کا ہے۔
'لٹل بوائے' اور 'فیٹ مین' دو ایٹم بم دو جنوبی جاپانی شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے تھے۔ اس کی وجہ سے کتنے معصوم لوگوں آن واحد میں ہلاک ہوئے تھے اس کا اب تک کوئی ایک تخمینہ نہیں پیش کیا جاسکا ہے۔
لیکن کسی نے بھی ان ہولناکیوں کی شدت پر سوال نہیں اٹھایا جو 6 اور 9 اگست 1945 کو ان دونوں شہروں پر نازل ہوئیں، کہ جس نے مشرقی ایشیا میں جنگ کا بھی خاتمہ کر دیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ایٹمی حملے سے قبل پانچ سال کی مدت کے دوران فضائی حملوں میں لاکھوں عام شہری مارے گئے تھے، اور ساحل سمندر شہروں کو تباہ کرنے کے لیے بڑے بڑے ڈیم بنا دیئے گئے تھے(حوالہ۔ Britain’s Dam Buster Heroes) اور اس دوران یوروپ کے تمام شہروں پر، دور مشرقی علاقوں اور جاپان پر کارپیٹ فائر بمباری اور کچھ متحارب ملکوں کی جانب سے جنگی قیدیوں پر ظلم و زیادتی کی خبریں بھی ملی۔ بحریہ لڑائیوں کے دوران سمندر میں ایک بڑی تعداد میں جانوں کے ضیاع کو نہیں بھولا جا سکتا۔
لیکن ان دو دنوں کے دوران آن واحد میں سینکڑوں ہزاروں افراد کی ہلاکت انسانوں کے اوپر ظلم و ستم اور حیوانیت کی انتہاتھی جو متحدہ ریاستہائے امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر انجام دیا تھا۔
تاہم دوسری جنگ عظیم ہی ایک واحد ایسی جنگ نہیں ہے جسے نسل انسانی نے ماضی میں یکساں جوش و جذبے کے ساتھ لڑی ہو یا اس جنگ کا خاتمہ 'تمام جنگوں کا خاتمہ کے لیے ہو'۔ بلکہ ویت نام، کمبوڈیا اور اب مشرق وسطی میں قتل عام، تباہ کاریاں اور ظلم و ستم چند ایسی مثالیں ہیں جہاں انسانوں اور جانوروں کی زندگی تباہ کر دی گئی ہے اور قومی اور جنگی مصلحتوں کو قربان کر کے قوموں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ اکثر جنگیں دین اور مذہب کے سائے تلے چھیڑی گئی ہیں جو کہ ابھی عالم اسلام کی صورت حال ہے۔
ایک ایسی دنیا جو کہ دین کے اس اصول سے اچھی طرح واقف ہے کہ‘‘جس نے ایک معصوم زندگی کو ضائع کیا گو کہ اس نے پوری قوم کو ہلاک کیا گویا اس نے پوری قوم کو ہلاک کر دیا’’۔
کیا دوسری عالمی جنگ نے بعد کی جنگوں کو روک دیا ہے؟
یہ بھی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ جب جنگ کی اخلاقیات و معنویات اور اس کے مذہبی جواز پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ انسانی عروج و ارتقا کی اتنی طویل تاریخ میں انسان ذہنی طور پر اتنی ترقی کیوں نہیں کر سکا کہ وہ ایسے ذرائع دریافت کرے کہ جس سے اس طرح کے تنازعات سے بچا جا سکے اور جنگوں کا خاتمہ کیا جا سکے؟ یا انسانوں نے اب تک ایسا کوئی متبادل ذریعہ تلاش کیوں نہیں کیا جس سے ان تنازعات کو حل کیا جا سکے جس کا نتیجہ ہمیشہ جنگوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
البتہ اس کی سائنسی اور تکنیکی ترقی نے زیادہ سے زیادہ موثر ہتھیار پیدا کر دئے ہیں اور ان کا نام "کلین بم" (clean bombs) رکھا ہے، جس سے انسان تو ختم ہو جاتے ہیں لیکن عمارتیں اور بنیادی ڈھانچے اسی طرح باقی رہتے ہیں۔ ان "کلین بموں" (clean bombs) کو "کیمیائی ہتھیار" بھی کہا جاتا ہے!
ان تمام تباہیوں اور بربادیوں پر منصفانہ جنگ کے عنوان کے تحت گفتگو کی گئی ہے۔ تعجب کی باتو یہ ہے کہ عظیم (noble) جیسے الفاظ جو کہ صرف جانبداری، مساوات، عدل و انصاف اور یہاں تک کہ امن پر دلالت کرتے ہیں انہیں مکمل طور پر بر عکس معنیٰ یعنی جنگ کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے جو کہ بنیادی طور پر ایک ایسی انسانی سرگرمی ہے جسے قتل و غاگری اور تباہی و بربادی کے لیے انجام دیا جاتا ہے!
جنگوں کا جواز پیش کرنے کے لئے پیش کیے گئے گنجلک اخلاقی اور معنوی دلائل کے علاوہ جنگوں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مختلف پیمانوں اور معیار کے ساتھ مذہبی دلائل بھی پیش کیے جاتے ہیں۔
آسان لفظوں میں منصفانہ جنگ کی تعریف یہ پیش کی جاتی ہے ‘‘ایک ایسی جنگ جو اخلاقی، معنوی یا مذہبی طور پر جائز مانی جاتی ہو’’۔ اس کے علاوہ اس کے پیمانے اور قیود شرائط اس طرح بیان کیے جاتے :
جنگ صرف ریاست کی طرف سے شروع کی جا سکتی ہے۔ ریاست کو ایک ادارہ ہونے کی وجہ سے خدائی اختیارات حاصل ہیں۔
جنگ کا صرف قوم کے مفاد میں شروع کیا جانا ضروری ہے۔
جنگ کی بنیادی وجہ قیام امن ہونا چاہیے۔
جنگ صرف قوم اور ملک کے دفاع میں شروع کی جا سکتی ہے۔
جنگ اتنی ہی قوت اور شدت کے ساتھ شروع کی جانی چاہیے جتنی قوت اور شدت دشمن کے حملے میں ہو........... یا اس سے کچھ زیادہ۔
مندرجہ بالا کی بنیاد پر، یہ کہا جا سکتا ہے کہ تین دنوں کے بعد، ایک نہیں بلکہ دو ایٹم بم گرانا، جبکہ پہلے بم کا اثر واضح طور پر ظاہر ہو چکا تھا اور اسے محفوظ بھی کر لیا گیا تھا، متناسب نہیں تھا، اس لیے کہ جاپان کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیار نہیں تھے اور مزید یہ بھی کہا گیا کہ جاپان جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کے بعد ایٹم بم گرائے جانے سے پہلے ہی ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار تھا!
کچھ حلقوں میں مبینہ طور پر یہ بھی مانا جاتا ہے کہ جرمنی (اصل جنگجو ملک جس نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیا تھا) کے پاس ایٹم بم جیسا بم پہلے سے ہی دستیاب تھا۔ تو اس نے بم سے حملہ کیوں نہیں کیا؟ کیا اس نے جاپان کو ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں کہا ہو گا؛ لیکن یہ کسے معلوم ہے؟
کیا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ چند دیگر اسٹریٹجک وجوہات کے علاوہ: مثلاً روس کے سامنے اتحادیوں کے زبر دست طاقت کا مظاہرہ کرنا؛ یہ حملہ "لائیو ٹارگیٹ" پر ہتھیاروں کو آزمانے کے لئے ضروری تھا۔ تا کہ اس ہتھیار کی حوصلہ شکن طاقت کو ثابت کیا جا سکے؟
اسے تیار کرنے میں دو ارب ڈالر خرچ کرنے کے بعد کیا یہ ضروری ہو سکتا تھا؟
ایسا لگتا ہے کہ جنگ میں دو ارب ڈالر کی قدر و قیمت انسانی زندگی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جو کہ ایک منصفانہ جنگ کا جواز پیش کرنے کے لیے ایک اور جواز کے طور پر موجود ہے ۔ اس لیے کہ منصفانہ جنگ کا نظریہ اس بات کی طرف غماز ہے کہ جب تک فتح کا یقین ہو تب تک جنگ کا جواز پیش کرنے کے لیے روایات، اخلاقیات، معنویت اور دین و مذہب کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس تعلق سے دلائل میں "زندگی" کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہوتا۔
جنگ کی سد راہ کے طور پر جوہری ہتھیار آج بھی ان ملکوں میں بنائے جا رہے ہیں جہاں پہلے سے ہی جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ایسے دوسرے ممالک بھی جوہری ہتھیار تیار کرنا چاہتے ہیں جو یہی دلائل پیش کریں گے۔ اس کے باوجود وہ ممالک جن کے پاس جوہری ہتھیار پہلے سے ہی موجود ہیں اعلی اخلاقی موقف رکھتے ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ عالمی امن کی خاطر دوسرے ملکوں کو جوہری ہتھیار تیار نہیں کرنا چاہیے۔
اور حد تو یہ ہے کہ یہ تمام باتیں جوہری ہتھیاروں کے نام نہاد عدم پھیلاؤ کے معاہدے (Non-proliferation Treaty of Nuclear Weapons) کے باوجود پیدا ہو رہی ہیں۔
ایک حوصلہ افزا علامت جو کہ 1968 میں ایک تاریخی اقدام تھا جو کہ اس بات کی طرف غماز تھا کہ انسانیت کو کم از کم امن کا شعور ہو گیا ہے اور یہ دانشورانہ ترقی کی راہ پر چلنے کے لئے تیار ہے، جو اگر چہ جنگ کا خاتمہ تو نہیں کر سکتا، لیکن شاید مستقبل کے لئے اسے کچھ اہمیت دیکر کم از کم انسانی زندگی کی تباہی و بربادی کا دائرہ کم کرے گا۔
1968 میں اسے تیار کیا گیا اور 1970 میں عالمی ممالک کی تائید و توثیق کے لیے پیش کیا گیا تھا۔1995 میں ایک غیر معینہ مدت تک کے لیے اس میں توسیع کر دی گئی۔ اس کے بعد نام نہاد جوہری کلب Nuclear Club کے ارکان سمیت دنیا کے اکثر ممالک معاہدے پر دستخط کر چکے تھے۔
بظاہر یہ معاہدہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہے۔ اور خاص طور پر اسلحہ کی مکمل تخفیف کے لیے دنیا کے ممالک کا تعاون حاصل کرنا اور اس کے بعد شاید جنگوں کے اختتام کی امید پیدا کرنا جیسا کہ ایک عقلمند انسان کو ہونا چاہئے، اور آخر کار دنیا میں امن اور ہم آہنگی کا حصول اس کا نصب العین ہے۔
مذکورہ بنیاد پر بمشکل ایک سال کے اندر ہی جنگی مشین تیار کرنے والے ایک سب سے بڑے ملک نے ایک ایسے ملک کے لیڈر کو نوبل امن انعام سے نوازا تھا، جس نے سب سے پہلی مرتبہ جاپان پر دو جوہری بموں سے حملہ کیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ ایوارڈ حاصل کرنے والے خود اس عزت و افزائی پر حیرت زدہ تھے۔ اور اسی طرح پوری دنیا بھی حیرت و استعجاب میں ڈوبی ہوئی تھی۔
معاہدے کی دو دہائیوں کے اندر ہی دنیا اب اتنی محفوظ نہیں ہے جتنی یہ ستر سال پہلے جوہری بم گرائے جانے کے وقت محفوظ تھی۔
اور اسلحہ کی تخفیف کا سلسلہ اب تک شروع بھی نہیں ہوا ہے۔
اور اب اس دنیا میں پہلے سے زیادہ موثر اور جدید ہتھیار موجود ہیں۔ نوبل امن انعام یافتہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے پاس اس اوارڈ کا جواز پیش کرنے کےلیے صرف ایک سال کی مدت بچی ہے۔
انسانوں نے یہ تمام ترقی سائنس، ٹیکنالوجی اور اور غور و فکر کی صلاحیت کی بنیاد پر حاصل کیا ہے جسے قدرت نے انسانوں کو تحفے کے طور پر نوازا ہے۔ یہ صلاحیت اور خوبی جانوروں میں مفقود ہے۔
کیا جنگ انسانوں کی ایک ناقص جین کا نتیجہ ہے، اور کیا جنگ ایک ایسی سرگرمی ہے جس کی بنیاد انسانوں کی جینیاتی خرابی پر ہے؟ یا پھر "حیوانوں" کے طور پر بنی نوع انسان کی عمومی درجہ بندی بجا طور پر اسی وجہ سے ہے؟
جنوبی افریقہ کی "Animals are beautiful people" (ترجمہ:جانور خوبصورت انسان ہیں) نامی ایک پرانی مزاحیہ فلم نے لوگوں کو ہنسا کر ان کے پیٹ میں درد پیدا کر دیا۔ اس فلم میں ایسے کچھ جانوروں کے رویوں کو پیش کیا گیا ہے جو انسانوں سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ امید ہے کہ وہ دن بھی آئے گا جب دنیا سے جنگوں کا خاتمہ ہو جائےگا اور ایک فلم بنائی جائے گی جس کا نام ہو گا ‘‘Human beings are Beautiful People too’’ (ترجمہ: انسان بھی خوبصورت لوگ ہیں)!
نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار راشد سمناکے ایک (ریٹائرڈ) انجینئر ہیں
URL for English article: https://newageislam.com/spiritual-meditations/the-injustices-just-wars-human/d/104226
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-injustices-just-wars-human/d/104249