راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
19 اگست 2015
سب سے بڑے مسلم فرقے کی قبرستان میں ایک دوست کی تدفین کے دوران، میری زندگی میں پہلی بار ایک چونکا دینے والا تجربہ پیش آیا۔
میت ایک پیشہ ور شخص اور ایک ایسے خاندان کا سربراہ تھا جس کا خیال ایک ایسے اقلیت "مسلم فرقے" کے خاندان نے پیار و محبت کے ساتھ رکھا تھا جو اپنی سخاوت و فیاضی کے لیے مشہور تھا۔
میت کو قبر میں اتارتے وقت راقم الحروف نے تدفین کی آخری رسم انجام دینے کے لئے ان کے خاندان کے ایک یا دو اراکین کی تلاش میں اپنی نگاہیں دوڑائیں؛ اس لیے کہ ایسا کرنا ایک اعزاز اور مستحسن کام سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ مین نے یہ بھی محسوس کیا کہ یہ ان کا حق ہے کہ ہم سب مرحوم کے خاندان کے لیے ان کی برسوں کی حدمات کو تسلیم کریں۔
تاہم، اس چھوٹے سے قبرستان میں ان کے سرپرستوں میں سے کوئی اور نہیں تھا۔ ان کے اہل خانہ اور ان کی بیوہ اجنبیوں کی طرح قبرستان کے باہر انتظار کر رہے تھے!
جب میں نے ان سے تدفین کی آخری رسم میں شامل ہونے کے لیے کہا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ "وہ ہمیں باہر نکال دیں گے اور شاید آپ کو بھی"۔
مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ "انہوں نے" مردوں کے درمیان قبرستان میں بیوہ کو آنے کی اجازت نہیں دیا ہو گا۔
رسومات کی ادائیگی میں رہنمائی کرنے والے عالم نے فوراًموقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میت کو قبر میں اتارنے کا حکم دیا۔ قبر پر مٹی ڈالی گئی اور اس کے بعد رسم کی ادائیگی پوری ہو گئی!
آج مسلم ممالک میں اقلیتوں سے زندگی کے ہر شعبے علیحدگی کا ان کی حالت زار میں بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ ان کا جرم یہ ہے کہ ان کا تعلق ایک مختلف مذہب یا کسی مختلف فرقے یا اسی فرقے کے کسی دوسرے مسلک سے ہے۔ اور ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ ان کا تعلق ایک دوسری نسل سے ہے۔
مختلف مذاہب کے انسانوں کو زمین کے کسی ایک ہی قبرستان میں دفن نہیں کیا جا تا۔ بلکہ جب پناہ گزینوں کی ٹوٹی ہوئی کشتی پتھروں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہے تو انہیں وہیں پانی میں دفن کر دیا جاتا ہے۔
اس معاملے میں مذاہب کا قبرستانوں میں بھی اتنا ہی اہم کردار ہوتا ہے جتنا زندگی میں!
چودہ صدیاں سے زیادہ گزر گئیں جب اللہ نے اپنے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر وحی نازل کر کے یہ اعلان کرنے کا حکم دیا کہ ؛
10:18 - اور سارے لوگ (ابتداء) میں ایک ہی جماعت تھے...........
49:10 - بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
تمام مومنوں کی کتاب قرآن میں صرف یہیں آیات نہیں ہیں جن میں زمین پر امن و امان قائم رکھنے کے لیے انسانوں کے درمیان اتحاد کو بحال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مزید یہ کہ قرآن کے مطابق، اور گزشتہ تمام پیغمبروں کے پیغامات کی توسیع میں، قرآن کا یہ حکم عام ہے؛ اس لیے کہ قرآن ہمیں اس بات کی یقین دہانی کرتا ہے کہ تمام رسولوں کو خواہ ان کا ذکر قرآن میں ہو یا نہ ہو ایک ہی پیغام دیکر بھیجا گیا تھا اور انہیں روئے زمین کی تمام اقوام کی طرف بھیجا گیا تھا۔
لہذا، بنی نوع انسان اور مومنوں کے درمیان اخوت اور اتحاد تمام رسولوں اور تمام قوموں کے لیے سب سے بنیادی پیغام ہے۔
اس کی تائید آیت 42:13 میں کی گئی ہے جس میں رسولوں کا ذکر ان کے ناموں کے ساتھ ہے:....اُس نے تمہارے لئے دین کا وہی راستہ مقرّر فرمایا جس کا حکم اُس نے نُوح (علیہ السلام) کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی اور جس کا حکم ہم نے ابراھیم اور موسٰی و عیسٰی (علیھم السلام) کو دیا تھا (وہ یہی ہے) کہ تم (اِسی) دین پر قائم رہو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔
آیت 3:76 میں ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ: ہاں جو اپنا وعدہ پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے (اس پر واقعی کوئی مؤاخذہ نہیں) سو بیشک اﷲ پرہیز گاروں سے محبت فرماتا ہے۔
لیکن 6:159 میں ہمیں تنبیہ کی گئی ہے کہ: بیشک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں، بس ان کا معاملہ اﷲ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔
اور آیت 3:77 میں بھی سخت انتباہ ہے کہ - بیشک جو لوگ اﷲ کے عہد اور اپنی قَسموں کا تھوڑی سی قیمت کے عوض سودا کر دیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور نہ قیامت کے دن اﷲ ان سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی ان کی طرف نگاہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاکیزگی دے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہو گا۔
مذکورہ بالا آیت نے ہی ایک اردو شاعر کو یہ کہنے کی حوصلہ افزائی کی ہوگی:
ان کے مندر يہ ان کی مسجد زر فروشوں کی جگہ ہے اگر يہ انکے خدا کا گھر ہے وہ ميرا خدا نہيں ہے
صرف ان چند آیات کے تناظر میں مجموعی طور پر بنی نوع انسان کو دئے گئے پیغام کا مقصد اتحاد، بھائی چارے اور امن کو برقرار رکھنا ہے۔
تاہم، قرآن میں مذکور انسان کی قومیت کے وسیع تر فریم ورک کو نظر انداز کر کے مومنوں کے درمیان اخوت و بھائی چارگی پر غور کیا گیا ہے۔
قرآن میں اس بات کا کوئی فرق مذکور نہیں ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و تقسیم کا مجرم بڑا یا چھوٹا کون فرقہ ہے۔ لہذا، یہ بات معقول نظر آتی ہے کہ قرآن کے مطابق اور جیسا کہ اس کی وضاحت ایک شاعر اقبال نے کی ہے ، تمام لوگ کافرہیں: -
تو ميری نظر ميں ہے کافر ميں تيری نظر ميں ہوں کافر
لہٰذا، وہ تمام مذہبی فرقے یا مسلک جو اپنے ساتھ کوئی اضافی صفت منسلک کرتے ہیں وہ اسلامی اخوت سے خارج ہیں۔
شاعر کے مطابق فرقہ وارانہ اور طبقاتی تقسیم بڑی حد تک اپنے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لئے ہے : تيرا دين نفس شماری ميرا دين نفس گدازی۔
اس کے مطابق بڑے فرقے صرف اس وجہ سے مومن نہیں ہو سکتے کہ ان کے پیروکاروں کی اکثریت ہے، اور یہاں تک کہ چھوٹے فرقے بھی اس بات کا دعوی نہیں کر سکتے کہ صرف وہی سچے ایمان والے ہیں!
قرآن میں مومن کے ساتھ کوئی اور اضافی لفظ منسلک نہیں ہے۔ لہٰذا، اگر قرآن پر پوری ایمانداری کے ساتھ ایمان رکھا جائے تو نتیجہ یہ حاصل ہو گا کہ تمام لوگ کافر ہیں۔
لیکن خالق کائنات کا وقت کا پیمانہ انسان کے لئے بہت مختلف ہے، اس معاملے میں جو غلطیاں کافروں نے کی ہیں، اور سخت ترین فرقہ واریت نے اللہ کے نام پر جن باتوں کا اطلاق کیا ہے جس کی وجہ سے بے حساب تباہی اور ہنگامہ آرائی ہوئی ہے اس کی تلافی کی رفتار ضرورت سے بھی زیادہ سست معلوم ہوتی ہے۔ یہ اس انسانیت کے لئے وضع کی گئی صراط مستقیم کے خلاف ہے۔
قدیم اور جدید تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ انتہائی ظالم حکمرانوں نے ہمیشہ اقتدار پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لئے اپنے مذاہب اور مذہبی کارکنوں کی اپنی فوج کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔
ایسا کیسے ہوا؟
2:79- پس ایسے لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں۔
وہ کیوں ایسا کرتے ہیں؟ جواب، معمولی فوائد کے لئے وہ ایسا کرتے ہیں!
اللہ نے ان پر اور ان کے نفع پر لعنت بھیجی ہے؛ بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں۔
اور اس سے وہ جو فوائد کماتے ہیں!
لیکن کافروں کی تربیت کرنے والوں نے ان کے اندر یہ ذہنیت پیدا کی ہے 2:80- اور وہ کہتے ہیں "اور وہ (یہود) یہ (بھی) کہتے ہیں کہ ہمیں (دوزخ کی) آگ ہرگز نہیں چھوئے گی سوائے گنتی کے چند دنوں کے"!
دوسروں کے ساتھ تعاون میں اپنی حکمت عملی اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے یہ ذہنیت تقریبا تمام مسلم ممالک میں رائج ہے۔ مسلمانوں کا ہر فریق مخالف آج اپنے اسلام کے نام پر اپنے اعمال کا جواز پیش کرنے کے لیے قرآن کا سہارا لے رہا ہے۔ جن کا اسلام کتابوں کے اعتبار سے مختلف ہے!
لہٰذا، اپنے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لئے!
اس دروغ گوئی میں اس بات کو فراموش کر دیا گیا کہ دوسری طرف انہیں جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو پوری سرگرمی کے ساتھ اس اخوت کی تقسیم کو فروغ دے رہے ہیں ، اس کے لیے وہ اکثر خفیہ طور پر تفرقہ سے متعلق ایک فریق یا دونوں اطراف کی حمایت کرتے ہیں۔
لہٰذا، اس کے بعد اخوت و بھائی چارگی کے لیے جو بچ جاتا ہے وہ اتنی شدید تباہی ہے جس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جس کی تلافی کے لیے دوسرے لوگ کئی دہائیوں تک قوموں کو غلامی میں جھونک کر اس کی قیمت ادا کرتے ہیں۔
اس کے بعد بے تحاشہ معصوم جانوں کی تباہی و بربادی کو صرف 'ثانوی' نقصان کے طور پر شمار کیا جاتا ہے!
آج بھی یہاں یہ تصور رائج ہے کہ میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے۔ جب مخالفت کرنے والے بھائیوں کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے تو موقع دوست یعنی سنت باقی بچے ہوئے لوگوں کو بھی ختم کرنے کے لیے قدم اٹھا لیتے ہیں۔
اسامہ بن لادن اور القاعدہ جیسے اسلامی ریاست کے حامیوں کو امریکہ نے پیدا کیا ہے: جس کی تصدیق امریکی دفاعی انٹیلی جنس ایجنسی کے خفیہ دستاویزات کی اشاعت سے ہوتی ہے:-
لیکن، کیوں غیر دوستانہ موقع پرستوں کی طرف پر انگلی اٹھائی جاتی ہے؟
جب مسلمان مسلمانوں کے درمیان اخوت و بھائی چارگی کی قابل افسوس حالت پر غور و فکر کرتے ہیں تو وہ دوسروں پر انگشت نمائی کرتے ہیں، انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ جب کوئی دوسروں کی طرف انگشت نمائی کرتا ہے تو باقی تمام انگلیاں خود اس کی طرف ہوتی ہیں، جیسا کہ کہاوت ہے!
تيرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب ــ گِرہ کُشا ہے نہ رازؔی نہ صاحبِ کشؔاف
عورتوں اور بچوں پر مشتمل تیسری دنیا کے سینکڑوں اور ہزاروں پناہ گزین، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، سمندروں میں ہلاک ہو رہے ہیں اور سمندر میں ہی ان کی قبر بن رہی ہے، اور لاکھوں پناہ گزین کیمپوں میں تباہ و برباد ہو رہے ہیں۔
ان ممالک کی حکومتوں، حکمرانوں، حکماء، خلفاء اور اشرافیہ کے سر شرم جھک جانے چاہیے جہاں غریب پناہ گزین جمع ہیں۔
ان ممالک کی یہ تصاویر دنیا کے سامنے بالکل عیاں ہیں۔ یہ تصاویر ان ممالک کو زوال یافتہ، تیسری دنیا،انسانیت سوز اور ناکام ریاستوں کے طور پر پیش کر رہی ہیں۔
یہ تمام صورت حال میزبان ممالک میں پناہ گزینوں کو درپیش نفرت انگیزی کی تکلیف دہ حالت میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔
لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکمران اور اشرافیہ طبقے کا ضمیر واقعی مر چکا ہے اور انہیں ان کے الگ الگ قبرستانوں میں دفن کر دیا گیا ہے جہاں ایک دن انہیں ان کے مخملی تابوت میں دفن کر دیا جائے گا۔
نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار راشد سمناکے ایک (ریٹائرڈ) انجینئر ہیں
URL for English article: https://newageislam.com/spiritual-meditations/the-common-shame-humanity’s-watery/d/104317
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/the-common-shame-humanity’s-watery/d/104374