راشد سمناکے ، نیو ایج اسلام
7اگست، 2012
(انگریزی سے ترجمہ سمیع الرحمٰن،
نیو ایج اسلام)
شاعر مشرق ، ڈاکٹر محمد اقبال
نے، ایک یا دو صدی پہلے مسلم دنیا میں بے چینی کی علامت کو سمجھ لیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ یہ شاید
صدیوں کی خماری سے مسلمانوں کو باہر لے آئے گا۔ اور یہ بے چینی اس بحران کی وجہ سے تھی جو یوروپ کو
اپنی ذد میں لئے ہوئے تھا۔ انہیں امید تھی
کہ یہ آنے والا طوفان مسلمانوں کو
نئی توانائی بخشے گا۔ لیکن ان کا یہ
احساس ان کے دوسرے بہت سے خوابوں کی طرح ہی صرف ایک خواب ثابت ہوا! انہوں سادگی سے
سوچا:
مسلمانوں کو مسلمان کر دیا
طوفان مغرب نے،
تلاطم ہے دریا ہی سے ہوتی ہے گوہر کی سیرابی
ان کے بعد دنیا میں جو واقعات
رو نما ہوئے ان کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ وہ برادری جس پر انہوں نے اپنی امیدوں
کو بہت ہی مثبت انداز میں ٹکایا تھا وہ مزید پستی کی طرف گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ رونما ہوئے واقعات نے ان کو جگایا، لیکن ان کے افعال انہیں
شاعر مشرق کے اسلام کے وژن سے بہت دور لے جا رہے ہیں۔
دانشورانہ صلاحیت
جو ان کو دنیا کی نظروں میں عزیز بناتی
اس کے بجائے سب سے ناقص قسم کی منفیت یعنی انتہا پسندی اور تشدد کو وہ اختیار کر رہے ہیں، جو صحیح اور غلط، معصوم اور
مجرم، غیر مسلح اور مسلح، دوست اور دشمن سمجھے جانے والوں اور قرآن کی تعلیمات اور ان کے
مختلف مذاہب اور دھڑوں کی غیر مستند کتب کے درمیان تمیز بھی نہیں کرتا ہے۔ لہٰذا، دنیاان
سے خائف ہے اور انہیں ناپسند کر رہی
ہے اور برا کہہ رہی ہے۔ ان کی شناخت‑ طالبان
کی طرح وضع قطع، لمبی داڑھی، یہاں تک
کہ اگر غیر مسلم بھی اسے رکھتے ہیں تو یہ نسلوں اور قومیتوں کے درمیان نفرت کو بڑھاوا دیتا ہے، جیسا کہ
حال ہی میں وسکانسن ، امریکہ میں معصوم
غیر مسلموں جیسے سکھوں کا ان کے گرودوارے میں ہی خوفناک قتل کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ یہ سکھوں کے ساتھ ہی ہونا چاہئے جو
عام طور پر سب سے زیادہ پسندیدہ لوگوں میں سے ہوتے ہیں اور خدا کی وحدانیت میں
یقین رکھتے ہیں، جو کہ اسلام کے قریب ہے۔ دنیا میں مسلم تشخص کی یہ سب سے زیادہ قابل نفرت عکاسی ہے! مجموعی طور پر مسلم ممالک کو کم از کم اس پر فوری
طور پر اپنی تعزیت
کا اظہار کرنا چاہیئے۔
اقبال کی امیدیں کسی بھی طرح
سے بیجا نہیں تھیں ، جیسا کہ انہوں نے اس زمانے
کی ریل پیل کو دیکھا تھا جو کہ آج کے وسیع پیمانے پر ہجرت کے جیسی نہیں تھی لیکن ان کے وقت میں نو آبادیاتی
دانشوروں کی جماعت عام طور پر یورپ اور مغربی ممالک میں داخل ہوئی، جن میں سے بہت سے اپنے ملک واپس گئے
تاکہ جو علم یہاں حاصل کیا اس سے اپنی قوم کی خدمت کر سکیں۔
بدقسمتی سے اس طبقے کے لئے
خاص طور سے دوسری جنگ عظیم کے بعد رونما
ہوئے واقعات نے سب کچھ تبدیل کر دیا، کیونکہ علم حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والےمشرق کے نوآبادیاتی
علاقوں کے لوگ زیادہ تر مظلوم، ستائے ہوئے،
کم تعلیم یافتہ مہاجرین کی افراط میں تبدیل ہو گئے جو اپنے ساتھ قوائد، ثقافت اور مذہبی روایات
ساتھ لائے، جسے انہیں نئے ماحول میں
نئی شروعات کرنے کے لئے پیچھے چھوڑ دینا چاہئے
تھا۔ وہ ماحول جس نے انہیں دل کھول کر ایسی
تمام تر سہولیات فراہم کیں جن کے بارے میں
وہ جہاں سے آئے تھے، وہاں پر تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہاں ان کے لئے موقع تھا
کہ وہ جس ملک کو اپنا رہے ہیں اس کی ثقافت
اور معیار کے خراب پہلو کو ترک کر سکیں اور اسے قبول کریں جو اچھا تھا اور اس طرح ہم آہنگی اور مشرق کی حکمت کے ساتھ جو کچھ اچھا تھا اس میں تعاون کر ترقی کی رفتار
کو بڑھا سکتے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ شاعر مشرق نے اپنے مشہور شعر میں قرآن کے الفاظ کو پیش کیا‑ ... بیشک اﷲ کسی قوم
کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں(13:11)!
اس کے بجائے ہم یہاں 'شریعت
قانون' کے لیے مطالبات کر رہے ہیں، اس کا مطلب ہے جو بھی ہو، اور فریب دینے والے جنونی لوگوں کی طرح سڑکوں پر مارچ کر رہے ہیں اور
میز بان ملک سے خیر خواہی کے ساتھ تحفظ، وسائل
اور یہاں تک کہ ملک کو کافر کہنے کی آزادی
کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ناشکری اور نفرت انگیز رویہ ہے!
کوئی تعجب نہیں کہ ان لوگوں کا اب استقبال بھی نہ ہوتا ہو؟
یہی لوگ جو مسجدوں میں
جمعہ کی اپنی عبادت کے حصے کے طور پر قرآن کی آیت 55 کو سنیں گے یا تلاوت
کریں گے اور اسی قرآن کی آیت 60 ان سےسوال کرتی ہے کہ، " کیا خیر خواہی کا
اجر خیر خواہی کے سوا کچھ اور ہے؟"
جیسا کہ شاعر مشرق نے کہا ہے کہ
جو مناسب موقع ملا تھا وہ نہ صرف اسلام کے مذہبی خیالات کی تعمیر نو کے لئے
تھا بلکہ شائستگی کے ساتھ پوری قوم کے نظام
حیات کی بہتری کے لئے بھی تھا جسے
ہم نے شاید ناقابل بازیافت طور پر کھو دیا ہے۔
اس کی وجہ صرف خراب معیار
نہیں بلکہ تعداد بھی ہے اور بڑی تعداد میں غیر روشن خیال تارکین وطنوں کی
آمد نے پورے ملک کی اصل آبادی کو نفرت کے جزبات سے مغلوب کر دیا۔ جو کچھ بھی علم کے متلاشی اپنے آبائی ملک سے اچھا
لائے تھے اور جو وہ لوگ چھوڑ گئے تھے، اب اکثریت
ان کے اس تعاون کو تباہ کرنے کے لئے
پر عزم ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ جو بھی غیر
مسلم ، مسلمانوں کے جیسے نظر آتے ہیں ان کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال
نے پریشان حال دنیا کی اس صورتحال کا بھی خاکہ پیش کیا تھا اور کہا ہے:‑
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا
ہے یہ معلوم
فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا
بیزار
تاہم، تمام الزام وہاں پہنچنے والے
تمام بدقسمت اور جاہل لوگوں پر نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ اکثر اپنے آبائی وطنوں سے نام نہاد مذہبی علما،
اماموں، کو غیر روحانی نئی دنیا میں
روحانی رہنمائی کے لئے درآمد کرنے
کی ان کی ضرورت کے نتیجہ میں اور بھی زیادہ
نا اہل لوگوں کی درآمد عمل میں آئی ہے ، جو عربی وضع قطع کی نقل کرتے ہیں، اس طرح کے پیشہ واروں کے جیسے لوگوں نے اس موقع کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا ہے۔ یہ حقیقیت بھی شاعر مشرق پر ضرورظاہر ہوئی ہوگی، جنہوں نے اسے اس طرح پیش کیا ہے:‑
قوم کیا چیز ہے، قوموں کی
حقیقت کیا ہے؟
اس کو کیا سمجھیں، 'بیچارے'
دو رکعت کے امام
ان لوگوں کے آبائی وطن میں بھی
حالات مختلف بالکل نہیں ہیں ۔ وہاں بھی
اقتدار میں رہنے والے گروپوں کی قومی
حکمت عملی کے نتیجے میں اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر جہالت نے
ستم رسیدہ ہونے کے احساس کو اور بھی بھڑکایا ہے اور مذاہب صرف
معاشرے میں ہلچل پیدا کرنے کے اوزار
بن گئے ہیں۔ اس مدہوشی میں ملک نے اپنا توازن کھو دیا ہے اور ساتھ ہی جو
سنہرا موقع پروردگار نے خدمت کا عطا
کیا تھا وہ بھی کھو دیا ہے۔ جیسا کہ شاعر مشرق نے خواب دیکھاتھا لیکن یہ موقع خماری میں کھو دیا ہے:‑
زندگی جس کو کہتے ہیں، فراموشی
ہے یہ
خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی
ہے، بے ہوشی ہے یہ!
اس لئے مغرب میں رہنے والے
تارکین وطنوں کو بیداری اور ایک اسلامی شناخت کوقائم
کرنے کی ضرورت ہے۔
-------
راشد سمناکے ہندوستانی نژاد
انجینئر (ریٹائرڈ) ہیں اور چالیس سالوں سے آسٹریلیا میں مقیم ہیں اور نیو ایج اسلام
کے لئے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-society/identity-crises-of-muslim-diaspora/d/8185
URL
for this article: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslim-immigrants-identity-crisis-/d/8948