راشد سمناکے ، نیو ایج اسلام
19 اپریل 2018
عورتوں کے جسم ، دل و دماغ اور ان کی زندگی پر مکمل تسلط کا استعمال کرنے میں مردوں کے شاؤنست رویہ نے دنیا کے اکثر مذاہب ، تہذیب و ثقافت میں انسانی عزت و حرمت کے حدود کو توڑا ہے۔ عورتوں کو عزت و عظمت فراہم کی جائے یا نہ کی جائے اس کا فیصلہ کرنا ہمیشہ مردوں کا ہی حق رہا ہے۔ شاید ہی کوئی مذہب ، ثقافت ، ملک یا عوام اور یہ نام نہاد ترقی یافتہ تمدن اس الزام سے بری ہو۔ لہذا ان میں سے کسی کابھی نام لینا فضول ہے۔
لیکن زمانہ بدل رہا ہے اور حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ یہ نہ تو کوئی طوفان ہے اور نہ ہی کوئی معمولی واقعہ ہے۔
ایک نوجوان ہندوستانی خاتون پرینکا تمائچیکر (Priyanka Tamaychekar) اپنی بےعزتی کے خلاف کھل کر میڈیا میں اپنا احتجاج درج کرا رہی ہے اس لئے کہ اس کی شادی کی پہلی رات کے بعد خاندان کے بڑے بزرگوں نے دلہن کے سفید بستر پر خون کے دھبے تلاش کرنے کی کوشش کی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ دلہن کنواری تھی یا نہیں۔
یہ اور اس طرح کی دیگر نوجوان خواتین اپنی جد و جہد میں ہمارے تعاون کی مستحق ہیں؛ کیونکہ یہ ایک بہادر خاتون ہے جس نے ایک ایسے ملک میں قدیم مذہبی اور ثقافتی روایت کو چیلنج کرنے کی جسارت کی ہے جہاں صدیوں پرانے ریتی رواج آج بھی مروج ہیں اور جہاں اپنی قدیم ترین تہذیب پر لوگوں کو فخر ہے۔
کچھ ملکوں میں خون کے دھبے لگے ایسے چادروں کا مظاہرہ خاندان کے 'اعزاز' کا ڈنکا بجانے کے لئے سڑکوں پر کیا جاتا ہے۔ اور اس مظاہرے کے ناطرین خون کے دھبے والے اس چادر پر پھول برساتے ہیں! خاتون کنوارپن ایک قیمتی متاعِ اعزاز ہے۔
کہا جاتا ہے کہ انگلینڈ کی ملکہ ایلزابیتھ کو بھی مردوں کی جانب سے اس کے کنوارپن کی جانچ جیسی ذلت سے دوچار ہونا پڑا تھا تاکہ اس کی پاکیزگی ثابت ہو سکے اور براعظم یورپ کے شاہی طبقے کی نظر میں انگلینڈ کا اعزاز محفوظ ہو سکے۔
یہ بے کس خواتین پر بے عزتی اور ذلت طاری کرنے کی ایک واحد مثال نہیں ہے۔ بے شمار مذاہب اور ثقافتی روایات میں خواتین کے ماہواری خون کو اس اس حد تک ناپاک سمجھا جاتا ہے کہ انہیں مکان کے علیحدہ گوشے میں سونا پڑتا ہے اور انہیں "پاک" ہونے کے بعد ہی اصل گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسے حیاتیاتی عمل کے بارے میں ناپاکی کا ایک قدیم عقیدہ ہے جو کہ عورت کے جسم کی فطری خصوصیت اور انسانوں کی افزائش نسل کا ذریعہ ہے۔ تاہم، کچھ جگہوں پر خواتین کی جانب سے اس کے خلاف بھی احتجاج درج کیے گئے ہیں۔
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ مردوں کی شاونسٹ (chauvinistic) دنیا میں دولہے اور مردوں کو اپنی جنسی پاکیزگی ثابت کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے اگر چہ وہ پہلی بار ہی شادی کر رہا ہو۔ انسانیت کے اعزاز اور اخلاقیات کا بھاری بھرکم بوجھ صرف عورتوں کے کندھوں پر ہے۔ شاید اس بوجھ کو کم ترقی یافتہ ممالک میں خواتین نے تسلیم کر لیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ تعلیم کی کمی ، مروجہ مذہبی ممانعتیں اور زندگی بسر کرنے کے لئے اقتصادی معاملات میں بڑے پیمانے پر خواتین کا مردوں پر منحصر ہونا بھی ہے۔
انسانوں کے ذریعہ تشکیل دئے گئے مذاہب اور رواجوں کے نام پر اور بھی دیگر ناقابل ذکر اور غیر قانونی مراسم و معمولات موجود ہیں۔ تاہم درج ذیل مسئلہ پر اگرچہ اکثر گفتگو کی جاتی ہے لیکن اسے واضح انداز میں بیان کیا جانا چاہے ، ا س لئے کہ یہ عمل نہ صرف مذہب اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے بلکہ ایک انتہائی غیر انسانی اور شیطانی عمل بھی ہے ، جو کسی بھی انسانی زبان میں قابل بیان نہیں ہے ، فطری طور پر مہذب انداز گفتگو کی تو بات دور کی ہے!
بعض مسلم ممالک میں حلالہ کا عمل : مختصر طور پر یہ عمل اسلام کے بنیادی ماخذ قرآن مجید کے احکام کی شدید خلاف ورزی ہے ، جس کا حکم یہ ہے کہ ایک زوجین کے درمیان مصالحت کی تمام تر کوششیں ناکام ہو جائیں تو انہیں طلاق کے ذریعہ مکمل طور پر علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ اب ان دو طلاق شدہ افراد کے درمیان دوبارہ عقد نکاح نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ عورت کسی نئے مرد سے شادی نہ کرے اور بھر ان دونوں کے درمیان بھی حسب سابق طلاق نہ ہو جائے۔ قرآن نے یہ طویل ترین مرحلہ اس لئے بیان کیا ہے کہ لوگ نکاح اور طلاق کو کھیل نہ بنا لیں۔ ویسے لفظ حلالہ قرآن میں مذکور نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی عربی لفظ ہے!
قرآن کی تعلیم ہے کہ خدا کے قوانین 'تبدیلی سے پاک' ہیں اور انہیں ‘بدلا’ بھی نہیں جا سکتا۔
17:77 دستور ان کا جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور تم ہمارا قانون بدلتا نہ پاؤ گے۔
33:62 ‘‘اللہ کا دستور چلا آتا ہے ان لوگوں میں جو پہلے گزر گئے اور تم اللہ کا دستور ہرگز بدلتا نہ پاؤ گے’’۔ اور اس ضمن میں بہت سی آیات ایسی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی ایک سیاق و سباق میں بیان کیا گیا قرآن کا قانون اسی تناظر میں کسی دوسرے کے لئے نہ تو بدلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوجود پوری بے شرمی اور فخر سے حلالہ کے اس عمل کے ساتھ یہ رویہ اپنایا جا رہا ہے۔
شادی کے قوانین شادی کے قوانین ہیں، خواہ وہ پہلی ہو دوسری ہو یا تیسری۔ خواہ وہ پہلے شوہر کے ساتھ ہو خواہ ساتویں خواہ نوویں شوہر کے ساتھ۔ زسا زسا گیبر (Zsa Zsa Gabor) اور ایلزابیتھ ٹیلر (Elizabeth Taylor) سے دریافت کیا جائے جو کہ اس کام میں ماہر تھیں۔ ان کے تمام شوہروں نے انہیں ہدیہ /مہر یا دلہن کے تحفے کے طور پر ڈھیرو ہیرے دئے لیکن طلاق ہونے پر انہوں نے ان میں ایک بھی اپنے شوہروں کو واپس نہیں کئے۔ ان تمام شوہروں کو معلوم ہوا کہ شادی ایک مذاق نہیں ہے!
جن مسلم معاشروں میں حلالہ کا معمول ہے ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ: ایک بے بس خاتون کو اس کا پہلا شوہر طلاق ثلاثہ دیتا ہے ، اس کے بعد سابق شوہر سے دوبارہ شادی کرنے کے لئے اسے شام کو ایک مکمل اجنبی مرد سے (مہر / فیس کے بدلے) نکاح کرنا پڑتا ہے۔ پھر اسے اس اجنبی کے ساتھ رات گزارنا پڑتا ہے اور دوسرے دن صبح اسے طلاق مغلظہ دے دیا جاتا ہے! اس کے بعد اس کا حلالہ مکمل ہو جاتا ہے –اب وہ اپنے سابق شوہر کے لئے حلال ہو جاتی ہے۔ یہ بہت آسان ہے ، اس پر نہ تو کوئی سوال پوچھا جاتا ہے اور نہ ہی کسی پر کوئی ذمہ داری بنتی ہے۔
کسی ایسی عورت کے لئے جو کہ اپنے سابق شوہر سے چند بچوں کی ماں بن چکی ہو -ایسی ذلت اور بے عزتی کا تصور کسی بھی حساس انسان کے لئے جگر چیر دینے والا ہے۔ لیکن مذہبی لیڈروں نے جاہل زوجین کے دل و دماغ میں ایسا خوف بیٹھا دیا ہے کہ وہ ایسی ذلت اور بے عزتی کو معمول کے طور پر تسلیم کر نے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔
حلالہ انجام دینے والے ایسے 'کمینہ' مولویوں یا پیشہ ور زناکاروں کو اپنی ایک رات کی شب باشی کے لئے قرآن کریم کے حکم کا غلط استعمال کرنے پر ‘‘حرامی’’ قرار دیا جانا چاہئے ، اور اس کام سے انہوں نے جو رقم حاصل کی ہے وہ بھی پاک نہیں بلکہ حرام ہے۔ لیکن کیا ان پر یہ عقیدہ رکھنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے کہ وہ در حقیقت جو کچھ کرتے ہیں اس سے انہیں آخرت میں ثواب حاصل ہو گا اور اس کے ساتھ ہی یہ ان کے لئے اس دنیا میں حلال آمدنی کا ایک ذریعہ بھی ہے؟
اوپر لفظ 'کمینہ' کا استعمال بے معنیٰ نہیں ہے۔ اس لئے کہ رات میں بے بس عورت کے ساتھ شب باشی کرنے کے بعد اگلے صبح طلاق کے وقت بچے جیسے اہم مسئلے پر کوئی گفتگو نہیں کی جاتی ہے۔ کیا ہوگا اگر وہ عورت اس سے حاملہ ہو جائے؟ اس سے پیدا ہونے والے بچے کے لئے کون ذمہ دار ہے؟ کیا منع حمل کا استعمال اس میں لازم ہے؟
قرآن اور مہذب معاشرتی معیار کے مطابق شادی ایک سنجیدہ معاملہ ہے، قرآن میں شادی سے متعلق ایسے بہت سے دیگر مسائل پر زور دیا گیا ہے جن سے اس کی سنجیدگی ثابت ہوتی ہے :
اس شادی سے پیدا ہونے والے "مسئلہ" کے امکان کو ثابت کرنے کے لئے انتظار کی مدت / عدت۔
شادی سے پہلے عورت کو مہر ادا کیا جانا
معاشرے کے اندر شادی کے ثبوت کے طور پر گواہوں کی ضرورت
حکم کے مطابق مصالحت اور نکاح نوکی ضرورت۔
دوسرے شوہر سے طلاق مغلظہ۔
دوسرے شوہر کی طرف سے طلاق اور نان و نفقہ کی رعایت کی شرط۔
دوسری بار نکاح کو بہتر بنانے کے لئے پہلے شوہر کے ساتھ نکاح نو کے ترمیم شدہ شرائط۔
ان کے علاوہ بھی کئی باتیں ہیں۔ شادی ایک خوشگوار انداز میں عزت، احترام اور مساوات کے ساتھ رہنے کے لئے دو رضامند عاقل و بالغ افراد کے درمیان ایک معاہدہ ، ایک عزم اور ایک وعدہ ہے۔ حلالہ میں جو کہ اب ایک حرامی کاروبار ثابت ہو چکا ہے-مذہب کے نام پر ان تمام اہم معاملات کو قربان کر دیا جاتا ہے۔
قرآن میں عطا کردہ عظمت انسانی اور عورتوں کی عزت و عصمت کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم مذہب کے اندر کوئی مقام نہیں رکھتا ، اور شاؤنسٹ مردوں کے ذریعہ انجام دئے جانے والے حلالہ کے عمل میں خواتین کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے ، اور اپنے سابق شوہر یا اپنے بچوں کی محبت میں یا اقتصادی مجبوریوں کی بنا پر انہیں طوائف بنا دیا جاتا ہے، نیز اس کے پیچھے دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔
ایسے مسلم معاشروں میں عورتوں کی حالت اس قدر دردناک ہے۔ کیا یہ وہی فرد بشر ہے جسے اللہ کے رسول محمد ﷺ نے اتنا اعلیٰ مقام ، عطا کیا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے ، جو کہ ایک ایسی جگہ جہاں دودھ اور شہد کی ندیاں جاری ہیں اور وہاں شاید مرد حوروں کے علاوہ ان کے لئے باقی ضروریات کی تمام چیزیں بکثرت دستیاب ہیں؟
اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری بہادر پرینکا تمائچیکر کی ضرورت ہے تاکہ اس دنیا میں خواتین کی حفاظت ہو سکے اور ہم مردوں کو بھی ان کے عزت و وقار اور تحفظ کو بحال کرنے میں ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو تمام انبیاء و رسل نے انہیں عطا کیا ہے۔
URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/man-inflicts-indignities-woman-all/d/114978
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism