New Age Islam
Tue Oct 08 2024, 08:11 PM

Urdu Section ( 16 Jul 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Have a Happy Eid All: Thank You for Destroying Our Lives تمام لوگوں کو عید مبارک: ہماری زندگی کو تباہ کرنے کے لئے شکریہ

 

راشد سمناکے، نیو ایج اسلام

14 جولائی 2015

بخاری، جلد 4، کتاب 54 # 497

"ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: رمضان کے مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں’’۔

لہٰذا، اس حدیث کے مطابق رمضان کا مہینہ ہر سال پوری دنیا میں سب سے زیادہ پرامن مہینہ ہونا چاہئے۔

اللہ تعالی صرف مسلم دنیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کا خالق و مالک ہے، لہٰذا، رمضان المبارک کو تمام انسانیت کے لئے پر امن اور رحمت و برکت کا مہینہ ہونا چاہیے۔

تاہم ہمارے روز مرہ کے تجربات اور پوری دنیا سے آنے والی خبروں کی بنیاد پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ اس مہینے میں ابلیس اور اس کے ساتھی مسلم دنیا میں بھی پوری آزادی کے ساتھ انسانیت کو گمراہ کرنے کے اپنے کام میں مشغول ہیں جو اللہ نے انہیں سونپا ہے۔

لہٰذا، یہ حدیث پریشان کن ہے۔ اس حدیث میں جہنم اور جنت کا ذکر ہے۔ جیسا کہ ان کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ وہ موت کے ساتھ ہی مختص ہیں، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شیاطین کو مرنے کے بعد ماہ رمضان کے آخر تک جہنم کے دروازوں کے باہر انتظار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

لہٰذا، ضرور معاملہ ایسا ہے کہ وہ زنجیروں کو توڑ کر کسی نہ کسی طرح اس دنیا میں لوٹ آتے ہیں اور معمول کے مطابق شر و فساد کے اپنے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

تاہم اچھے لوگ اس مہینے میں آزادی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائیں گے اور انہیں اس کے لیے قیامت کے دن تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

مندرجہ بالا حدیث نبوی میں مذکور خدا کے سلامتی منصوبے میں پیدا ہونے والے اس خلل کی وضاحت تلاش کرنے پر ہمیں رمضان پر ترمذی # 618 کی مندرجہ ذیل حدیث ملتی ہے۔

صرف اس کے متعلقہ حصہ کا حوالہ پیش ہے: ‘‘ ایک منادی ندا لگاتا ہے کہ 'اے نیکی تلاش کرنے والوں قدم بڑھاؤ، اور اے برائی کے راستے پر چلنے والوں باز رہوں' اور بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں اللہ جہنم سے آزاد کرے گا، اور ہر رات یہی ندا دی جاتی ہے’’۔

تو کیا یہ لوگ زمین پر واپس ہو گئے ہیں؟

یہ عام طور پر لوگوں کو معلوم ہے کہ ایک ملک کا اصلاحی خدماتی نظام جب کوئی ایک غلط فیصلے کرتا ہے اور یہ مان کر مجرم کو آزاد کرتا ہے کہ یہ مجرم اب سدھر چکا ہے، لیکن وہ آزاد کردہ مجرم دوبارہ جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اور اب وہ گزشتہ جرائم کی طرح نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بھیانک جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہی معاملہ ابلیس اور جہنم سے آزاد کردہ اس کے ساتھیوں کا ہے۔

اللہ تعالیٰ علیم و خبیر اور بہت سے دیگر صفات الٰہیہ کا حامل ہے۔ اس کے حکم کو کبھی بھی مؤرد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ لہٰذا، مسلم علماء کے ذریعہ پھیلائی گئی مذکورہ بالا حدیثوں سے ان روایتوں کا مسئلہ حل کرنے میں کوئی مدد نہیں ملے گی۔

وہ محض ایک اعلیٰ پیمانے پر انسانیت کو جھوٹی تسلی دینے والی ہیں۔

چھوٹے موٹے جرائم کی بات چھوڑ دیں، عصر حاضر میں دنیا کے ایسے کئی حصوں میں جہاں اسلام کے سائے تلے ایک قرآنی فریضہ کے تحت ماہ رمضان میں روزوں کا اہتمام کیا جاتا ہے، وہاں سیاسی مقاصد کے حصول کےلیے ایک بڑے پیمانے پر انجام دیے جانے والے ان انسانیت سوز جرائم کے پیش نظر اس بات پر یقین کرنا مشکل نظر آتا ہے کہ اس مہینے میں تمام لوگوں کی بخشش ہو گئی ہے۔

حالیہ دنوں میں مسلم ممالک میں لاکھوں بے گناہ لوگوں کے قتل اور ان پر حملوں کے واقعات روز مرہ کے معمول کی شکل اختیار کر چکے ہیں ۔

اگر مسلمانوں سے یہ پوچھا جائے کہ انہیں روزوں سے کیا تعلیم ملی تو وہ جواب دیتے ہیں کہ روزہ ہمیں دوسرے انسانوں کے لیے اخوت و محبت اور ہمدردی و رحمدلی اور کم از کم اس مہینے کے لئے کسی بھی برے عمل کے ارتکاب سے باز رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔

تو پھر کیوں اس ماہ مبارک کے دوران بھی اس طرح کی عظیم تعلیمات بے اثر ہو جاتی ہیں، کہ ہم مساجد میں قتل و غارت گری اور اپنے تحفظ اور اپنی سلامتی کے لیے دیگر ممالک کی سرحدوں کو پار کرنے والے پناہ گزینوں کو دیکھتے ہیں ؟

بدقسمتی یہ ہے کہ پہاڑوں اور وادیوں سے نوجوان، بچے اور بوڑھے، کمزور مرد اور عورتیں ان خیموں میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں بھاگ رہی ہیں، جن کے لیے عطیہ بڑے پیمانے پر وہ "مشفق کافر" فراہم کر رہے ہیں جنہیں اس قسم کے حالات پیدا کرنے والے مسلمان کافرکہتے ہیں!

کیا یہ مجرمانہ عمل نہیں ہے؟ اس ماہ مبارک میں زنجیروں میں جکڑا جانے والا شیطانوں کا سردار ابلیس اور اس کے ساتھی بالکل آزاد ہیں۔ اگر وہ روایات قابل یقین ہیں تو پھر وہ آزاد کیوں ہیں؟

طالبان (کس چیز کے پیاسے ہیں؟ معلوم نہیں)، بوکو حرام (بالکل مناسب نام)، الشباب (سمندری ڈاکو قوم) ، اسلامی ریاست (ایک غلط نام) اور اس طرح کی ہزارہا دوسری جماعتیں جو شیطان کے حقیقی نمائندے ہیں ہر رات پوری آزادی کے ساتھ ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

آج اسلامی جمہوریہ پاکستان اور تمام اسلامی ممالک سے ہوتے ہوئے یورپ کے راستے مغرب کا سفر کرنا ماہ رمضان المبارک میں بھی خود اپنی جان کو اپنے ہاتھوں سے ہلاک کرنا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ صرف ان کافر ملکوں میں سفر کرنا آج محفوظ ہے جہاں اس مہینے میں ابلیس کو قید نہیں کیا جاتا ہے!

غیر مسلم ممالک میں کوئی پابندی نہیں ہے اور وہاں معمول کے مطابق پورے سال کاروبارجاری رہتا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماہ رمضان المبارک میں روزہ رکھنے والے مومنوں کے تمام گناہ اس مہینے میں معاف کر دیے جاتے ہیں۔ برے اعمال کا ارتکاب کرنے کے لیے یہ شیطان اور اس کے دوستوں (اچھے مسلمانوں) کے بہت سے حربوں میں سے ایک حربہ ہے تا کہ آئندہ سال پھر ان کے گناہ معاف کر دیے جائیں۔

اس طرح، اس دوران ان کے گناہوں کا تختہ صاف جاتا ہے؛ تاکہ وہ باقی سال کے لئے ایک نئے سرے سے گناہوں کا سلسلہ شروع کر سکیں؛ اور مومنوں اور غیر مومنوں دونوں کے خلاف انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کر سکیں ۔ یہ اسلام دوسرے مذہب کی ہی طرح ایک "اعترافی مذہب" ہے!

کیا اسلام اور محمد الرسول اللہ کی کتاب قرآن میں روزے کا یہی مقصد مذکور ہے کہ شیاطین کے جھنڈے بلند کر دیے جائیں، یا اس کتاب کا کوئی اور اسلام اور کوئی اور رسول ہے؟

اگر بڑے پیمانے پر جانی اور مالی تباہیاں سیاسی حکمت عملی کے تحت انجام دی جارہی ہیں تو پھر قرآن مجید پر ایمان رکھنے والا ایک مومن اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ایک مسلمان کا کوئی بھی عمل قرآنی تعلیمات کے دائرے سے خارج نہیں ہونا چاہئے۔

پھر بھی اگر ایسا ہے، تو قرآن کے مطابق وہ مسلمان مسلمان نہیں بلکہ ایک شیطان ہے؛ ایک کافر ہے۔

صرف ماہ رمضان کی بات چھوڑ دیں ، قرآن پوری زندگی انسانوں کے ساتھ محبت ، ہمدردی، مہربانی اور انصاف کا معاملہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔

بنیادی طور پر وسطی ایشیا میں دیگر مذاہب کو ہو سکتا ہے کہ سیاست اور من گھڑت مذاہب کو مخلوط کرنے کی اجازت نہ دی جائے؛ لیکن قرآن مجید کے دین یعنی دین اسلام سے بشمول سیاست کے کسی بھی سرگرمی کو الگ نہیں رکھا جا سکتا کیوں کہ یہ محض ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مستقل نظام حیات ہے۔

دین اسلام کی اس سے بہتر کوئی دوسری تشریح نہیں کی جا سکتی کہ ‘عملو الصالحات’ دوسروں کے ساتھ "بھلائی کرو" اس لیے کہ اس کا اصل مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہے۔ قرآن کی ساری تعلیم اسی پر مبنی۔

سیاسی عناصر اور ان کے شریک کاروں کو اور ان تما جھوٹی اسلامی تنظیموں کو قرآن کی بنیادی تعلیمات کی حیثیت سے اس پیغام کو ذہن میں رکھ کر دوبارہ خود قرآن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

جنگ و جدال اور مسلح تصادم کی اجازت صرف مسلح دشمنوں کے ساتھ نمٹنے کے لیے ہے۔ ورنہ قرآن کے مطابق کسی ایک بے گناہ نہتے کی جان لینا ایک پوری قوم کی نسل کشی کرنے کے مترادف ہے۔ اور یہی آج مسلم ممالک میں ہو رہا ہے۔

عید اب صرف چند دنوں کے فاصلے پر ہے۔ کیا ابلیس اور اس کے تمام ساتھیوں کے پاس جو کہ شاید اس مہینے میں روزے رکھ رہے ہیں؛ ان لوگوں سے جنہوں نے اس ماہ مبارک میں انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور لوگوں کو بے گھر کیا ہےاور انہیں پناہ گزین خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا ہے یہ کہنے کی ہمت ہوگی کہ "تمہیں عید مبارک ہو"؟

نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار راشد سمناکے ایک (رٹائرڈ) انجینئر ہیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/happy-eid-all-thank-destroying/d/103898

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/happy-eid-all-thank-destroying/d/103915

 

Loading..

Loading..