New Age Islam
Mon Feb 10 2025, 06:22 AM

Urdu Section ( 7 Jan 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Biological Refutation of the Right Hand Possession and other Exemptions اصحاب الیمین اور دیگر مستثنیات کی حیاتیاتی تردید

 

راشد سمناکے، نیو ایج اسلام

بہت سے حلقوں میں یہ مانا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان آفاقی قوانین سے مستثنیٰ تھے جنہیں دوسرے لوگوں کے لیے وضع کیا گیا ۔ چنانچہ ایک عظیم مذہبی قائد کی حیثیت سے رسول اپنی دعوت و تبلیغ کے برعکس چند چیزوں پر عمل کر سکتے ہیں۔

یہ مفروضہ غیر منطقی ہے اور اس کا پروپیگنڈہ خود اپنے مفاد کے لیے کیا گیا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات پر غور کریں:

مثال کے طور پر قرآن اس کے پیغام کو سمجھنے کے لئے عقل کے استعمال کو ضروری قرار دیتا ہے:

34:46، " فرما دیجئے: میں تمہیں بس ایک ہی (بات کی) نصیحت کرتا ہوں کہ تم اﷲ کے لئے قیام کرو، دو دو اور ایک پھر تفکّر کرو....، اس سلسلے میں یہ ایسی دیگر بہت سی آیتیں ہیں جن میں انسانوں کو سوچنے، غور فکر کرنے اور سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اس تردید کی بنیاد عربی دانی پر نہیں بلکہ یہ عربی لغات کے حوالے سے قرآن مجید کی چند مختلف تراجم سے ماخوذ ہے۔ اور ان کی بنیاد قرآن کی کی تفہیم کی "روح" پر ہے؛ جس کی حیثیت ایک ایسے نظام حیات کی ہے جو محفوظ طریقے سے راستہ طئے کرنے کے لیے بغیر کسی استثناء کے ضروری ہے۔

17:77، ‘‘ان سب رسولوں (کے لئے اﷲ) کا دستور (یہی رہا ہے) جنہیں ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اور آپ ہمارے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے’’۔

مبینہ طور پر تعدد ازدواج اور باندی رکھنے کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کردہ استثناء کی یہ واضح مثال قرآن مجید کے حکم سے متضاد ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کی تعداد ایک وقت میں آٹھ سے بارہ ہے۔ تاہم ان کی بیویوں میں سے کسی ایک کا بھی نام قرآن مجید میں نہیں ہے۔

گزشتہ تمام انبیاء کرام کے حوالے سے قرآن کا پیغام یہ ہے :

48:29، ‘‘آپ انہیں کثرت سے رکوع کرتے ہوئے، سجود کرتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ (صرف) اﷲ کے فضل اور اس کی رضا کے طلب گار ہیں’’۔ قرآن میں مذکور تمام احکام کی پیروی کرتے ہیں۔

4-36:3 "بے شک تم (محمد) رسولوں میں سے ہیں۔ صحیح راستے پر؛ یقیناًکسی بھی مستثنیات کے بغیر ان سب کی پیروی کرتے ہیں۔

اکثر رسولوں کو اس بات اعلان کرنے اور کہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ انہیں اللہ کے قوانین میں کوئی استثنا حاصل نہیں ہے اس لیے کہ وہ بھی دیگر تمام انسانوں کی طرح بشر ہیں:

14:11 ‘‘ان کے رسولوں نے ان سے کہا: اگرچہ ہم تمہاری طرح انسان ہی ہیں لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے’’۔

18:110۔ ‘‘فرما دیجئے: میں تو صرف بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے’’۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام و رسولان عظام کسی استثناءکے قرآن کے احکام کی پیروی کرنے میں دوسرے انسانوں کے برابر ہیں۔

تعدد ازدواج کے خلاف حکم قرآن میں بالکل واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے؛ ایک وقت میں ایک ہی بیوی سے شادی کی اجازت ہے:

4:20 "اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو؟"

قرآن کریم کی چوتھی سورت میں شادی کے متعلق دیگر حوالہ جات بھی موجود ہیں۔ نزاعی مسائل اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب اس آیت کی ہنگامی صورت حال کا حوالہ پیش کیا جاتا ہے جس میں بیواؤں اور یتیموں کی کثرت کے نقصان دہ اثرات سے معاشرے کی حفاظت کرنا ضروری ہو جاتا ہے؛ مثال کے طور پر جنگوں کی حالت میں فوجی شوہروں کے بڑی تعداد میں مارے جانے کی صورت میں بیواؤں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھا جا سکتا ہے!

خاص طور پر یہی حال مدینہ میں ابتدائی ادوار میں چھوٹی سی مسلم کمیونٹی کا تھا، جنہیں یہاں پہنچنے کے پہلے ہی سال میں کفار مکہ نے حملہ کیا تھا۔ اگرچہ، اس حملے کو کامیابی کے ساتھ پسپا کر دیا گیا تھا۔ لیکن مسلمان سپاہیوں نے ایک بڑی تعداد میں اپنی جانیں گنواں کر اس کی قیمت ادا کی ہے۔

یہ ہنگامی صورت حال تقریباً دس سال تک تمام زندگی تک قائم رہی۔ لہٰذا، یہ دیا رکھنا چاہیے کہ یہ استثناء صرف اس طرح ہنگامی صورت حال میں ہی درست ہے، اور یہ ترجمہ نگاروں، مذہبی اداروں اور اس کے نظام کے مطابق درست نہیں۔

یقینا، قرآن کی چوتھی سورۃ کی 1 سے 6 آیتیں اور اکثر آیتیں اس سلسلے میں ایک خاص سیاق و سباق کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ عربی زبان کے علماء کرام اس کی اس سے بھی سخت تشریح پیش کرتے ہیں اور لغوی لحاذ سے یہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں اختیار مردوں کو نہیں بلکہ اختیار بیوہ ماؤں کو ہے!

ان کے اخلاقی معیار اور انسانی معاشروں کی ترقی کی روح میں اس مسئلے کی پیچیدگیوں کے نتیجے میں علماء و مفکرین کے پاس نزاع کرنے کے لیے اتنا کچھ ہے۔ ایک عام شخص کے لئے یہ ایک حقیقت پیغام حاصل کرنے کے لئے کافی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن مجید کے احکام کی پیروی کرنے کی ایک واضح تصویر پیش کرتی ہے۔

سب سے پہلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 25 سال کی عمر میں خود سے عمردراز ایک ایسی امیر عورت سے شادی کی جن کی اس سے پہلے دو مرتبہ شادیاں ہو چکی تھی؛ ان زمانے میں یہ تاخیر ایک مرد کے لئے غیر معمولی ہونی چاہیے؛

دوم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کرنے کے بعد بیس سالوں تک کوئی دوسری شادی نہیں کی یہاں تک کہ مدینہ ہجرت سے تقریبا دو سال پہلے مکہ میں ان کی وفات ہو گئی؛ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان سے چار بچے پیدا ہوئے اور کچھ نے کہا کہ ان اسے چھ بچے پیدا ہئے۔ لیکن وہ تمام بچپن میں ہی وفات پا گئے!

عرب معاشرے کے تناظر میں ایک مالدار مرد کااتنے زمانے تک ایک ہی نکاح کے ساتھ رہنا اور بھی زیادہ غیر معمولی تصور کیا جانا چاہئے۔

سوم، روایت کی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دس سے بارہ شادیاں کیں اور ان کی تمام بیویاں بیوائیں اور جنگی بیوائیں تھیں؛ سوائے آپ کے بہترین دوست اور سب سے پہلے خلیفہ ابوبکر صدیق کی بیٹی حضرت عائشہ صدیقہ کے جن کی عمر اس وقت کم تھی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ کی زوجیت میں ایک دہائی یا آپ کے انتقال تک رہیں، لیکن اس کے باوجود ان سے کوئی بچہ نہیں پیدا ہوا۔

لہٰذا، یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اس ایک اہلیہ کے علاوہ جن سے ایک بچہ پیدا ہوا، کسی سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا، اور وہ بھی ایام طفولیت میں ہی فوت ہو گئے۔

33:40، "محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں"۔ ان کا کوئی بچہ نوجوانی کی عمر تک زندہ نہ رہے، شاید اس میں وہ الٰہی منصوبہ مضمر ہے جس کا منشاء مرد اولاد کی طرف سے وراثت کا دعوی کرنے کی انسانی کمزوری سے بچنا ہے، جیسا کہ اس وقت کا رواج تھا اور یہ آج بھی جاری ہے۔

لہٰذا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے کہ وہ 10 یا 12 میں سے تمام کی تمام ازواج مطہرات بے اولاد ہی رہیں جب کہ ان کی عمر بچہ پیدا کرنے کی تھی؛ درآنحالیکہ یقینی طور پر یہ بات ثابت ہو چکی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنسی طور پر (معاذ اللہ) نامرد نہیں تھے؟

لہٰذا، سیدھی سی بات یہ ہے کہ مجبوراً یہ نتیجہ اخذ کرنا ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دس یا بارہ عورتوں میں سے صرف ایک ہی عورت سے شادی کی جن سے ان کا ایک بچہ بھی پیدا ہوا۔ اور قرآن کی چوتھی سورۃ کے مطابق باقی تمام خواتین ان کے تحفظ اور دیکھ بھال میں تھیں۔ کیا قرآن کی اصطلاح "اصحاب الیمین" سے یہی مراد ہے؛ جو کہ اس وقت کی عربی زبان میں ایک منفرد اصطلاح ہے؟

رسولوں اور نبیوں کو معاشرے کے مروجہ رسوم و رواج میں لوگوں کے کردار اور طرز حیات کو تبدیل کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا۔ لہٰذا، انہیں بھی اسی عیب پر عمل پیرا ہونے کی رعایت دینا جس پر لوگ عمل پیرا تھے کم از کم غیر منطقی ضرور ہے۔ لہٰذا، اس کا نتیجہ صرف یہ اخذا کیا جا سکتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر قدیم علماء اور مترجمین کی طرف سے لگائے گئے ایسے الزامات صرف ان کے غیر اخلاقی طرز عمل کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے ہیں۔

کسی وجہ سے آج مسلم دنیا میں علم حیاتیات میں مہارت رکھنے والے نوجوان دوسرے شعبوں میں بھی ان حقیر لوگوں کے زیر اثر محسوس کرتے ہیں۔ وہ خود کواس رسوائی سے بچانے کے لئے اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں جو اب ان کا مقدر بن چکا ہے:

3:193، "اے ہمارے رب! اور ہمیں وہ سب کچھ عطا فرما جس کا تو نے ہم سے اپنے رسولوں کے ذریعے وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، بیشک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا............"

نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار راشد سمناکے ایک (ریٹائرڈ) انجینئر ہیں

URL for English article: https://newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/prophet-exempted-normal-sexual-rules/d/105879

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/biological-refutation-right-hand-possession/d/105896

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..