راشد سمناکے، نیو ایج اسلام
06 جولائی، 2013
(انگیریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
گرجا گھروں کے دائرے میں انسان مختلف مذاہب میں روحانیت اور اس میں ذہنی سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ انفرادی بنیادوں پر کچھ لوگوں نے اسے حاصل بھی کر لیا ہوگا ، یا اسے حاصل کر لینے کے مغالطہ میں خود کو رکھا، لیکن اجتماعی بنیاد پر روحانیت کی یہ قسم بے فائدہ ہے ۔
مسلمان مردوں کے لئے مذہبیت کے معمولات میں سے ایک ماہ (رمصان ) کے دوران اعتکاف کی رسم ادا کرنے کے لئے سرگرم دنیا سے علیحدگی اختیار کرنا ہے۔ اسے خدا کی 'قربت' حاصل کرنا کہا جاتا ہے ۔
خواتین کو عصمت کی بنا پر مسجد میں اس عبادت کو ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن وہ گھر میں اس پر عمل کر سکتی ہیں ۔
اس کا عربی کا نام اعتکاف ہے جو کہ عام عربی لغات میں نہیں پایا جاتا ہے۔ تاہم اس کا ذکر حدیث کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ دنیا سے علیحدہ ہونے کے اس دو مقصدی معمول پر روزے کے مہینے رمضان کے دوران مسلمانوں کے ذریعہ عمل کیا جاتا ہے۔
مذہبیت کے علاوہ یہ رسم اس مقدس رات میں اچانک ظاہر ہونے والے اس لمحے کو حاصل کرنے کا ایک جوا ہے ،جس میں اس رسم کو ادا کرنے والے کی دعا کا جواب دیا جاتا ہے اور تمام دنیاوی خواہشات کو بھی پورا کئے جانے کی ضمانت دی گئی ہے ۔ بشرطیکہ انسان اس ماہ کے ان آخری دس دنوں کے دوران اس لمحے کو حاصل کرنے کے لئے 'خوش قسمت' ہو ۔
لہذا یہ مذہبی لاٹری کی ایک شکل ہے، لیکن ٹکٹ خریدنے کے لئے ایک فیصد خرچ کرنے کی صلاحیت کے بغیر یہ ایک معمول ہے ، اس طرح ایک بڑا فائدہ حاصل کرنے کے لئے فعال مشقت کے ساتھ پسینہ کا ایک قطرہ بہانہ تو جھوڑ دیں ۔
کتاب مقدس قرآن مجید میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ لہذا یہ قرآنی اصول سےخارج ہے اور ایک اختیاری اضافی مذہبی رسم ہے۔
اس بات کو سمجھ لینے کے بعد اس کی وجہ یہ ظاہر ہوتی ہے کہ یہ متفکر لوگوں کی ایک جماعت کو جمع کرنا ہے؛ جیسا کہ ابراہیمی مذاہب کی خانقاہوں میں ہوتا ہے جہاں لوگ "عبادت" میں مشغول ہوتے ہیں ۔ لیکن اس کے بر خلاف ہر دوسری طرح سے محنت مشقت خود کو فراہم کرنے کے لئے اور خوراک، کپڑے، کپڑے، دھونے اور مخلوق کے دیگر سامان تسکین کی فراہمی دوسروں پر مسلط کئے بغیر۔ اس کے علاوہ وہ مختلف طریقوں سے ارد گردکی کمیونٹی کی مدد کرتے ہیں۔ تاہم اعتکاف کی صورت میں مذکورہ بالا چیزیں منطبق نہیں ہوتیں۔
اس عمل کے جواز میں جو بھی روحانی دلیلیں پیش کی گئی ہیں وہ قرآن مجید میں پیش کردہ چند اصولوں کی بنیاد پر قابل اعتراض ہیں اور جب اس کا اس کے بنیادی اصولوں کے ساتھ تقابل کیا جائے تو یہ قابل بحث ہیں ۔
پہلا یہ ہے کہ عارضی خانقاہ کا عنصر، ایک عوامی ہال میں جگہ پر قابض ہونا ، مسجد جیسی بغیر کرائے کی جگہ جہاں نماز جمعہ جیسے خاص مواقع پر باہر سڑکیں نمازیوں سے بھر جاتی ہیں جو عام لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث ہے ، خاص طور پر غیر مسلم ممالک میں۔
یہ کم از کم دوسروں کا خیال رکھنے کی عام اخلاقی ذمہ داری سے خالی ہے۔ یہ عوامی نماز کی قیمت پر تقوی کے تماشہ کا مزہ دیتا ہے ۔ 6 : 107میں اس کی مذمت کی گئی ہے " وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں ۔"
یہ مختصر باب ماعون 107 لاحاصل مذہبی تقوی کے خیال کو مسترد کرتا ہے اور اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کیا عملی، فائدہ مند اور نتیجہ خیز اعمال ہیں اور کون الدین ، نظام کو مسترد کرتا ہے ۔
دوسرا یہ کہ "جوا" کا فطری عنصر رسم و رواج کی تائید کرتاہے قدر کی دس راتوں میں! اس مدت کے دوران جب کچھ دھندھلا پن ظاہر ہوتا ہے اور ان کی ساری دعا کو خدا کے ذریعہ قبول کئے جانے کی ضمانت دی گئی ہے ۔ اسی اتھارٹی سے جس نے اعمال کے تمام نتائج کا معیار مقررہ کر دیا ہے۔
موقع کے کھیل، حرام ہیں جیسا کہ 93 : 5 وغیرہ میں دیا گیا ہے ۔
تیسرا یہ ہے کہ ، ان ایام اعتکاف کے دوران دوسروں کی خدمت اور خاندان کے دیکھ بھال کی ذمہ داریاں منسوخ ہیں ۔ مذہبی طور دلیل دی جا سکتی ہے کہ اس طرح خاندان اور دوستوں کی صحبت کو ترک کرنا اور "مقدس خلوت " اختیار کرنا ایک قابل تعریف عمل ہے جسکا صلہ اس کے خاندان والوں کو بھی حاصل ہوتا ہے ۔
کسی کے نیک عمل کے جزا کو کسی اور کو ایصال کرنے کا تصور مسلمانوں کے درمیان ایک انتہائی عام عقیدہ ہے، قرآن کی آیت 6:164 "۔۔۔ اور ہر شخص جو بھی (گناہ) کرتا ہے (اس کا وبال) اسی پر ہوتا ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔۔۔ "کے برعکس، اپنے پیاروں کے بدلے میں فریضہ حج ادا کرنے کی طرح ۔
چہارم، یہ نظریہ کہ مصلے پر بیٹھ کر 'عبادت' کرنے کا ثواب خدا کی "قربت" کے حصول کے لئے مصلیین بننے کا ذریعہ ہے، بالکل غلط ہے۔ مثال کے طور پر جیسا کہ اس کی وضاحت، کون سی چیز انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے 34:37 میں کی گئی ہے ۔
پنجم، جیساکہ ‘‘پوری کائنات میں صرف اللہ کی حکم رانی ہے 3:189 ’’ اور جیساکہ ‘‘ وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو 57:4’’ اسی لئے عوامی مقام میں ذاتی جگہ کو غصب کرنا خود غرضی ہے ۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ عمل دنیاوی لالچ کے خلاف مزاحمت کرنے کی ایک تربیت ہے ،اس بات کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس پر اپنے گھر کے پر کشش ماحول میں کیوں عمل نہیں کر نا چاہئے، جیساکہ عورتیں کرتی ہیں ، یا عبادت گھر کے بجائے برگد کے درخت کے نیچے بیٹھے کر ؟
اور آخر میں زیادہ عملی پہلو ،‘‘ معیار یا طاقت کی رات 44:3’’ ، میں اس بات کا بیان ہے کہ، " یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے 97:3" ۔ جو کہ انسانی اعداد و شمار کے مطابق تراسی اور تیسرا سال ہے ۔ لہٰذا اسے صرف دس راتوں میں گھٹا دینا کچھ نہیں کے مقابلے میں کچھ حاصل کرنا ہے جو کہ اتفاق کے کھیل میں بھی ممکن نہیں ہے، اور مذہب کے نام پر صفر کوشش ہے جس میں کچھ بھی نہیں کے لئے کچھ حاصل کرنا ہے۔ جب کہ آیت 5 ،94:4، صرف محنت اور جانفشانی کے بعد آسانی کا یقین دلاتی ہے !
کتاب کے مطابق، کسی کےعمل کا ردعمل ‘‘ہر جان کو اس (عمل) کا بدلہ دیا جائے جس کے لئے وہ کوشاں ہے’’ 20:15 پر مبنی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کوشش ، جانفشانی اور جد و جہد عمل اور رد عمل کے عالمی قانون کی پیروی کر تے ہیں جیسا کہ اس کی پیمائش نیوٹن نے بھی کی ہے ۔
ہر عمل ایک رد عمل کو جنم دیتا ہے اسی لئے مثبت اعمال "اعمال الصالحات " کے لئے کتاب میں با ر بار تاکید ان اعمال سے فرق پیدا کرنے کے لئے ہےجو خود میں منفی رد عمل پیدا کرتے ہیں معاشرے میں اس کے بڑھتے اثرات کے ساتھ ۔
مثبت اور منفی عوامل کے اس بنیادی فرق کو مذہب میں رسمی اعمال کو ‘اعمال صالح’ کے مساوی قرار دے کر مٹا دیا گیا ہے ؛ ادا کرنے والے کے لئے اور معاشرے کے لئے کسی بھی حقیقت پسندانہ، ٹھوس اور عملی فوائد سے خالی ، آخرت میں انفرادی طور ایک دھندلے ثواب کے سواء ۔ جو اس کے بعد انہیں جنت میں سب سے زیادہ پر لطف رفاقت کا مستحق بنا دیتا ہے !
یہ تصور کتاب مقدس کی تعلیم کی نفی کرتا ہے اس لئے کہ قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ تمام اعمال خواہ وہ اچھے ہوں یا برے ، سب کے لئے آخرت میں اس کا بدلہ ہے 77 :28 ۔ بے شمار آیات ایسی ہیں جو اس بات پر زور دیتی ہیں لیکن اختصار کے لئے مثال کے طور پر صرف چند پیش کئے جا رہے ہیں :
16:97 - " جو کوئی نیک عمل کرے (خواہ) مرد ہو یا عورت جبکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے ضرور پاکیزہ زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے، اور انہیں ضرور ان کا اجر (بھی) عطا فرمائیں گے ان اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے تھے "۔
21:105 - " اور بلا شبہ ہم نے زبور میں نصیحت کے (بیان کے) بعد یہ لکھ دیا تھا کہ (عالمِ آخرت کی) زمین کے وارث صرف میرے نیکو کار بندے ہوں گے ۔"
34:4 – ‘‘تاکہ اﷲ ان لوگوں کو پورا بدلہ عطا فرمائے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے بخشِش اور بزرگی والا (اخروی) رِزق ہے’’ ۔
اس قانون کی عالمگیریت، عمل اور رد عمل کا قانون مندرجہ بالا پرمنطبق ہوتا ہے جیسا کہ 5:69 میں ہے - "۔۔۔ بیشک (خود کو) مسلمان (کہنے والے) اور یہودی اور صابی (یعنی ستارہ پرست) اور نصرانی جو بھی (سچے دل سے تعلیماتِ محمدی کے مطابق) اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے"۔
کتاب یہ بتاتی ہے کہ ، رسمی مذہبی معمول خود میں کوئی بڑا معاملہ –برّ-نہیں ہے ، مثال کے طور پر 2:177 میں - " نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لو بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ ۔۔۔ ہے "اور اس کے بعد انسانیت کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کے تمام عملی فرائض کا ذکر ہے ، اور جیسا کہ اسی دلیل کے دوسرے پہلو کی وضاحت 107 میں کی گئی ہے کہ کیا ‘‘ دین سے انحراف ہے’’ !
قرآن کا نظام - الدین- اسی لئے عملی اقدامات پر مبنی ہے، جس کا نتیجہ حقیقت پسندانہ اور فائدہ مند نتائج میں ہے " اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے 18 - 13:17’’ نیکی کے لئے نیکی کا اصول بیان کرتے ہوئے جو اسی دنیا میں انجام دیا جا نا چاہئے ۔
اردو شاعر حالی اور سنت مدر ٹریسا سابق نے مناسب طور پر اس نظام کا ترجمہ کیا تھا جہاں سابق الذکر نے کہا تھا ،: - درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
جبکہ دوسرے نے اپنے اس قول کے ساتھ اس میں اضافہ کیا کہ ، ‘‘مدد کے لئے بڑھا یاگیا ہاتھ عبادت میں اٹھاے گئے ہاتھ سے بہتر ہے’’۔ اور اپنے اعمال کا عملی طور پر مظاہرہ کیا ۔
اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ اس کا ایک خانقاہ کے مقولہ کے ذریعہ اظہار کیا گیا ہے: - " ائے رب ہم دوسروں کی خدمت میں تیری عبادت کرتے ہیں"۔ فعال خدمت کی روحانیات کی مناسب طریقے سے وضاحت کی گئی جیسا کہ 31:33 میں ہے ، "ائے ابن ادم اپنے رب کے لئے اپنی ذمہ داری نبھاؤ ۔۔۔"!
افسوس کی بات ہے کہ اکثریت افراد کی طرح منفی معمولات میں مشغول ہونے میں یقین رکھتی ہے، قانونی طور پر اور ریاستوں کی حمایت حاصل شدہ سرگرمیوں میں، وہ بزدلانہ طریقہ سے خوف اور تکلیف بیٹھا رہا ہے ، یہ مذہبی اصول کے نام پر بھیانک اور غیر انسانی رد عمل ہے ، ایجنڈے اور حکمت عملی ہیں اور مثبت اعمال کے اصول کے برعکس، اسے مذہبی جنگ یا جہاد کا نام دیا جا رہا ہے!
نیو ایج اسلام کےباقاعدہ کالم نگار راشد سمناکے ایک آسٹریلائی ہندوستانی ریٹائرڈ انجینئر ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-spiritualism/passive-religiosity-active-spirituality-service/d/12458
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/passive-religiosity-active-spirituality-service/d/12868