راشد سمناکے ، نیو ایج اسلام
30 جنوری 2013
اکثر 'مذاہب' میں اس حدیث کی طرح کہ "غربت میرا فخر ہے" ‘‘غریب’’ ہونے کی خوبی کو سراہنے کے لئے کو ئی کہاو ت موجود ہوتی ہے ۔ اکثر مذاہب میں غربت کو ولی صفت ہونا سمجھا جاتا ہے ،اس کی ترویج تقویٰ کے ہم سر کے طور پر کی جاتی ہے ۔ عام طور پر، بہت کم يا کچھ بھی نہیں حاصل کرنا ، کسی دنیاوی ذرائع کے بغیر ، غریب ہونا خدا سے قریب ہونا ہے۔
مثال کے طور پر،بائبل غریبی کے حوالوں سے بھرا ہوا ہے،جیمس 5 - 2
"میرے عزیز بھائیو سنو ، خدا نے اس کا انتخاب کیا ہے جو غریب ہیں ، وغیرہ ۔ دین میں اس طرح غربت کو خدا کا پسندیدہ کے طور پرحمایت حاصل ہے ، لہذا غریب منتخب لوگ ہیں۔ اوہ، واقعی؟
بہت کم کپڑے پہننا اور غیر آراستہ لمبے بال اور گندے ناخن، یہاں تک کہ عطیہ بھی مانگنا اس کے لائق توصیف ہو نی کی حیثیت سے مذہب میں اس یقین کے اعلی تصریح کا مظاہرہ ہے۔ تب یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے ، اگر اس کی بنیادی وجہ یہ ہے تو انتہائی خوش کلامی کے ساتھ یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ 'ترقی پذیر ممالک غریب گندے اور ‘ پوری طرح ترقی یافتہ ’ نہیں ہیں ؟
اسی کے مطابق ، 'صدقہ' انفرادی بنیادوں پر ایک یا دو سکہ تکبر کے ساتھ اچھال کر بھیکاری کے کاسہ میں دیا جاتا ہے اور اس سے دینے والے کی مذہبی فضیلت کے حصول کی امید کی جاتی ہے ! - موتیوں کی مالا - اس غربت زدہ مذہبیت کی علامات ہیں ، لہذا ، جیسا کہ کہا جاتا ہے ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذہبی غربت صفائی کی طرح "تقویٰ کے قریب ہے " صرف آئرستانی لغت میں ۔
بات کافی عجیب ہے ۔ اس نظریہ کا موازنہ جب چرچ اور اس کے پادریوں کے طمطراق اور پر کشش نمائش سے کیا جائے، مثال کے طور پر گرجا گھروں کی شان و شوکت ، اور پادریوں کے سونے کی کڑھائی کی ہوئی پوشاک اور ان کی تقریباتی شان و شوکت ، کوئی بھی ‘‘غریب مچھوارے ’’کے نمائندوں ، کے دولت کی زرق برق نمائش کو دیکھ کر حواس باختہ ہو جاتا ہے ، عیسیٰ مسیح ، غریب کے رب!
غربت کے اسی منطقی معنی کی وجہ سے ، یہ تصور کیا جاتا ہے کہ دین میں قابل تعریف ہونے کے لئے ، ‘‘ دینے اور لینے کی تقسیم ’’ کے دونوں جانب کو بحال رکھنا ضروری ہے ، کہ یہ معاشرے کے امیر لوگوں کا اور یہ غریب لوگوں کا طبقہ ہے ، تاکہ دونوں خدا کی رضا حاصل کر سکیں ، قلت اور بھیک مانگنے کی ذلت کے ساتھ اور عطا کرنے اور ذرائع کے حصول کے وقار کے ساتھ ۔ مذہبی قیادت اور امیری کو برقرار رکھنے کے لئے ، یقیناً یہ ایک پر امن انتظام ہے!
شاعر اقبال کے حوالہ جات اس کے بعد الفقر فخری غربت میرا فخر ہے، اور اس کی قرآنی تشریح اس مذہبی ذہنیت کا مقابلہ کرنے کے لئے انوکھا ہے: -
سماں الفقر فخری کا رہا شان عمارت میں
باب و رنگ و خال وخد و خت چہ حاجت روئے زیبارا؟
مختصر میں، تو کسی کی طاقت اور وقار میں اضافہ کرنے کے لئے تمام آرائش اور نمائش میں کیا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے؟
مسلمانوں کے درمیان اس کے مذہبی نظریے کے ساتھ ، خدا کے رسول محمد رسول اللہ نے یتیم ہونے کی حیثیت سے اس کی تشہیر کی ہے وہ ایک بے گھر غریب بچہ بے سرو ساماں ‘‘ غریب اور محتاج ’’ہے جس نے دنیا میں ایک صحرا نشینی کی اور آخرت کی زندگی میں مادی احساس کی زندگی گذاری ۔
اس کی انتہائی پیش کش ان کی غربت زدہ بڑے گھر انے کی نا قابل اعتبا ر کہانی ہے ، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اکثر بہت دنوں تک صرف چند کھجوروں پر گزارا کرتے تھے ، اور وہ اکثر بھوک کے درد کو کم کرنے کے لئے اپنے پیٹ ایک پتھر باندھ لیا کرتے تھے !
جب کہ یہ نظریہ قرآن کے بیانات کے برعکس ہے، کبھی اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا ، کتاب مقدس کے مکمل طور پر خلاف ہے۔ ان کی ذاتی زندگی کو اگرچہ سادہ اور بغیر شفقت کے بیان کیا گیا ہے ان کی غربت اور زوال کے بارے میں جو کہانی پھیلائی گئی ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے ، جس کا مفہوم عام بول چال کی زبان میں مسکین اور فقیر ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم )، خدا کے رسول ایک یتیم تھے جنہوں نے اپنی پیدائش سے پہلے ہی اپنے والد کو کھو دیا اور بالکل ابتدائی عمر میں اپنی والدہ کو’ جیسا کہ تاریخ میں مذکور ہے ، اور یہ قرآن کے مطابق ہے۔ تاہم یہ بچہ کبھی بھی محبت کرنے والے سرپرستوں، محبت، دیکھ بھال، اور انتہائی مالدار گھر کے بغیر نہیں رہا ۔ حکمران خاندان کا یہ قیمتی یتیم، کسی بھی تصور سے ، گلی میں بگڑنے کے لئے نہیں چھوڑا گیا ۔
6: 93- اے حبیب! کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزّز و مکرّم) ٹھکانا دیا ؟
بعدکی زندگی میں بھی محمد ، خدا کے رسول محروم اور اپنا دفاع کرنے کے لئے اور بہت دنوں تک صرف کھجور پر گذارا کرنے کے لئےنہیں چھوڑ دئے گئے ۔ تاریخ کے ساتھ ساتھ قرآن نے بھی ان کی خوش حالی کی تصدیق کی ہے:
8 - 93 اور اس نے آپ کو حاجت مند پایا تو اس نے بے نیاز کر دیا ۔ قرآن میں اس بارے میں بہت سارے بیانات موجود ہیں ۔ دلچسپی کے خاص طور پر یہ :
1- 108 بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے ، جسے ایک اچھا مسلمان دن میں کم از کم ایک بار نماز میں تلاوت کرتا ہے ۔
بصورت دیگر ایسا کہنا نہ صرف قرآن کے بیانات کا انکار ہے ، جسے مسلمان 'سچ' ثابت کرتے ہیں ، بلکہ محمد کی اپنی زندگی کے بارے میں متعدد تاریخی شخصیات کی ناشکری ہے ۔ لہذا مسلم کمیونٹی میں مجموعی طور پر ظاہر پرستی ہے ۔
اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غربت کی کہانی پر یقین کر لیا جائے ، تو پھر ان کی پہلی سرشار امیر بیوی خدیجہ سے لیکر ان کے دائیں ہاتھ اور دوست ابوبکر، عمر، عثمان اور علی، اور بھی بہت سارے صحابہ جنہوں نے ان کے پیغمبرانہ "مشن" کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام چیزیں قربان کر دیں ،وہ سب ایک دھبے کی طرح طفیلی ہیں! یہ ان کے تعاون اور خود ان کے ساتھ ایک عظیم ناانصافی ہو گی۔
"شکر گزاری " کو تسلیم کرنا کسی بھی زبان میں نیکی ہے اور اس وجہ سے انکار "ناشکری " ہے:
60 - 55، نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہے
اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ‘‘ مروی ’’ بیان کے ساتھ کہ'غربت میرا فخر ہے' کیا مسئلہ ہو سکتاہے ؟ کیا یہ فخر روزی روٹی اور یہاں تک کہ ان کے خاندان کے لئے اسباب کی کمی کی وجہ سے ہے ؟
مثال کے طور پر ، عربی لفظ فقر (مادہ ف ، ق، ر ) اکثر قرآن مجید میں آیا ہے: ان سرمایہ داروں کے فخر کی عکاسی کے لئے ہے ، جو کہا گیا ہے :
181-3 کہ اللہ محتاج ہے اور ہم غنی ہیں!
آج سمجھدار اور سوچنے والے شخص کو ایک ایسا بیان ضرور انہیں یہ پوچھنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ کو ئی اس طرح کا غیر منطقی بیان کیوں کر دے سکتا ہے کائنات کا رب فقیر ہو 189: 3، کیا کوئی فقیر کچھ چاہ سکتا ہے ؟
مندرجہ بالا کو جب موسیٰ کے سا تھ موازنہ کیا جاتا ہے :
24 - 28 سو انہوں نے دونوں (کے ریوڑ) کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پلٹ گئے اور عرض کیا: اے رب! میں ہر اس بھلائی کا جو تو میری طرف اتارے محتا ج ہوں ۔
یہاں فقر کا یہ معنی واضح ہونا چاہئے کہ جو دنیاوی انحصار سے مستغنی ہو ، اس کے باوجود کہ کوئی ‘ اللہ تعالی پر منحصر ہے ’۔ خدا پر منحصر ہونے فطرت ، اس کی رہنمائی سمیت ہر چیز کے لئے۔ اس کے بر عکس غنی کا مطلب دنیاوی ضروریات سے مکمل طور پر آزاد ہونا ہو گا غریب نہیں ۔ رسول کیا تھے اس کا خلاصہ یہی ہے ۔
اس وجہ سے فقر اور مسکین کا ترجمہ غریب کرنے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں ، جو صرف اللہ تعالی پر منحصر ہے۔ اس لئے کہ کوئی بھی اس کی بادشاہی پر منحصر ہونے سے آزاد نہیں ہے جو انسانی وجود کی ہر وہ ضروریات فراہم کرتا ہے جو 'خود' کی ترقی کے لئے ضروری ہیں ۔اس طرح کوئی اس آیت کے نکتہ کی فہم کے قریب ہوتا ہے :
70: 17: اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی (جو کہ تمام بنی نوع انسان ہیں )۔
مندرجہ بالا کا امریکی آزادی کے منشور کے ساتھ موازنہ کریں: -
"۔۔۔ کہ تمام انسان برابر پیدا کئے گئے ہیں ، اور انہیں ان کے خالق کی جانب سے کچھ نا قابل انتقال حقوق عطا ء کئے گئے ہیں ۔۔۔ اور وہ زندگی، آزادی اور خوشی کا حصول ہے ۔۔۔ "، اور اقوام متحدہ کے عالمی انسانی حقوق کے اعلامیہ کے ساتھ بھی ، آرٹیکل 1:
"تمام انسان آزاد اور وقار اور حقوق میں برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ انہیں عقل اور شعور دیا گیا ہے اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ پیش آنا چاہئے۔ "
لیکن دیگر دنیاوی امور میں 'وقار' کو یقینی بنانے کی ذمہ داری خود بنی نوع انسان پر ہی ڈال دی گئی ہے، جوکہ معاشرہ / ریاست ہے۔ : - اس کو مختصر متضاد باب 107 جہاں قانون الدین ان لوگوں کے لئے مذکور ہے جو اصول کو توڑ تے ہیں اور مسترد کرتے ہیں ۔
107-1 کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے ؟
عام الفاظ کے معنوں میں غربت مہذب نہیں ہے اور معاشرے میں یہ 'فخر' کا کوئی عنصر نہیں ہو سکتا۔ دراصل یہ انسانیت کے لئے رسوا کن ہے۔ کسی بھی معاشرے کو غربت کی ذلت برداشت نہیں کرنا چاہئے ، وسائل اور نظریہ حکمرانی کی کی کمی اس کے درمیان میں ہے ۔ لہذا مغرب کی طرح مسلم دنیا کے 99 فیصدافراد کو 1 فیصد ممتاز افراد کے خلاف احتجاج کرنا چاہئے ، لیکن عجیب وجوہات کی بنا پر نوجوانوں نے وہاں حصہ نہیں لیا تھا!
مسلم اس میں یقین کرنے کے مدعی ہیں ، قرآن یقیناً اس سے نفرت کرتا ہے ، زیادہ سے زیادہ وہ اسراف اور انحراف سے نفرت ظاہر کرتا ہے شاعر کا اقتباس دوبارہ نقل کیا جا رہا ہے : -
میں ایسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا
تمہارا فقر بے دولتی و رنجوری !
نیو ایج اسلام کے ایک باقاعدہ مضمون نگار ، راشد سمناکے چالیس سال سے زیادہ سے آسٹریلیا میں ایک ہند نزاد (رٹائرڈ ) انجینئر ہیں ۔
https://newageislam.com/islamic-ideology/“poverty-pride”-said-messenger-god/d/10205
URL for this article: