راشد سمناکے ، نیو ایج اسلام
8 فروری، 2013
(مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام )
آفت و مصیبت پر صبر کے ساتھ قائم رہنا ،عام طور پر ایک مذہبی فضیلت تصور کیا جاتا ہے اور اس وجہ سے یہ 'خدا کی قربت' کا باعث ہے ، ایسا تصور اپنی قسمت پر صابر و شاکر ہونا اور قدرت کو اس کی رفتار پر چھوڑڑدینا ہے ۔
ایک طرف ،بدبختی کے نقصان دہ اثرات کو دور کرنےیا کم کرنے کے لئے قدم اٹھانے کے عناصر ، پرہیز گاری ،خدا کی قربت کے اس اصول میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ اسی لئے بدبختی سے پیچھا چھڑانے کے لئے کوئی بھی جدوجہد کئے بغیر ، مصائب کا سامنا کرنا تقویٰ کے زیادہ قریب ہے ۔
لہذا مثال کے طورپر ، اگر کوئی بدبختی کے حالات میں پیدا ہوتا ہے، تو اس سے اسے اپنی قسمت کے طور پر قبول کرنے کی توقع کی جاتی ہے اس لئے کہ تمام قسم کی بدبختی کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کے لئے مقدر کیا جا چکا ہے ۔ آہ بھرنا اس کی قسمت ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ خدا تعالی ہی ایسے حالات نافذ کرتا ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا اس کی مرضی کو چاروناچار طور پر قبول کرنے میں خدا کی قدرت سے انکار ہے۔
دوسری طرف، انجام دئے گئے جبر اور تشدد کے بارے میں، مذہبی نقطۂ نظر سے بھی عملی کارروائی پر مبنی جدوجہد کے اصول ہیں ، اور غلط کا جواب دینا اور ردعمل ظاہر کرنا دوسروں کے نقصان سے قطع نظر ۔ آنکھ کے بدلے آنکھ اور ایک دانت کے بدلے دانت سے مطابقت کا اصول نہیں پیدا کرتا۔
اب انتہا پسندی کا اطلاق تشدد تمام پہلوؤں پر ہوتا ہے۔
دوہری دہشت ، سیاسی اثر و رسوخ اور اقتصادی فوائد کے لئے ریاست کی جانب سے حمایت یافتہ قیادت، اور اس کے ردعمل نےمذہبی اصول کے شامیانے میں دہشت گردی کی روایت کی بےقدری کی ہے۔ ان دونوں پہلوؤں میں مصالحت کرنے والے ، اسلحہ فروخت کرنے والے اصل فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاہم دونوں میں سے ایک مصالحت کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں۔
اس انڈسٹری کے دونوں فریقوں میں سے کوئی بھی اس با ت پر غور نہیں کرتا کہ تشدد ،تشدد کو ہی جنم دیتا ہے ۔ تاریخی مثال یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کی بیج ، پہلی جنگ عظیم کے عارضی صلح کے درمیان جرمنی کی ہاری ہوئی قوم پر عائد شرائط کے ذریعہ بوئی گئی ۔ فتح کرنے والوں نے یہ امید کی کہ سر کیا ہوا عیسائی ملک خود ان کی طرح ،‘‘دوسروں کے چہروں کو پھیر دے گا ’’ اوروہ صبر کے ساتھ شرائط قبول کر لیں گے ۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔
مسلمانوں کے درمیان سیاسی طور پر زیادہ ہوشیار مبلغین ان ممالک کی مثال دیتے ہیں جو کہ جنگ کے بعد تباہ ہو گئے تھے لیکن چند دہائیوں کے مختصر سے عرصے میں ہی اقتصادی طاقت بن کر ترقی یافتہ ممالک کے طور پر، ابھر گئے ، کیونکہ ایسا کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دو ایٹم بموں اور ٹنوں آتش افزوں حملوں کا سامنا کیا اور صبر کے ساتھ قائم رہے ۔
تاہم ، یہ ایسا نہیں تھا جیسا کہ دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے۔ مستحکم اور عمل پر مبنی قوم کی نشانی ، مثال کے طور پر جاپان نے بدھ اور تاو مذہب کے پیروکاروں کی خانقاہوں کے ایک چوتھائی کو واپس نہیں کیا۔
تقریبا دو دہائیوں تک ويتنامیوں کی ، بھاری مشکلات کے خلاف ، اولوالعزم جدوجہد اور صبر و تحمل کو مثال کو مثا ل کی حیثیت سے پیش نہیں کیا گیا ۔
در اصل یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید تنازعات کا بیج خاص طور پر مسلم دنیا میں بھی ، منصوبہ بند طریقے سے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر بو یا گیا تھا۔ جیتنے والوں نے ، ‘‘یک رنگی اور اب اس گلوبلائزیشن ’’ کے نافذکرنے کا اصول ،اس دنیا میں ہر انسان کی سرگرمیوں پر ؛ شاید انہوں نے بھی اسکندریوں کی غارت گری کی ہمسری کرتے ہوئے دنیا کے قدیم تاریخی اصول کی ترغیب دی ہے۔
اس اصول کے ردعمل کے لئے، مسلمانوں کے درمیان اس "اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر کرتے ہیں" کے استعمال کے ذریعہ دو تشریحات ہیں ۔ گرجا گھر اور ان کے پیشواءصابر ہونے کی فضیلت کی تعریف کرتےہیں- جو شخص مصیبتوں میں صبر کرتا ہے ‘‘واللہ مع الصا برین’’" 2-249 اور 66-8 اس لئے کہ ایسا کہا جاتا ہے کہ یہ اس کتاب قرآن کے مطابق ہے جس پر وہ یقین رکھتے ہیں ۔
یہ وضاحت کی گئی ہے کہ صرف نماز اور خدا کی عبادت ہی حالت کا علاج ہے، اور ایسا کرنے پر انسان کو آخرت میں اس کا اجر ملتا ہے۔ لہذا ، ایک اچھے مسلمان کو اس طرح کے حالات میں اپنی مساجد اور خانقاہوں کو واپس کر دینا چاہئے۔
دوسری چوتھائی میں یہ دلیل پش کی گئی ہےکہ صبر خود بدقسمتی ، سختی اور تکلیف سے آزاد کرنے کے لئے عمل پر مبنی ایک جہاد ہے ، اور وہ پر تشدد کارروائی کی دعوت دیتا ہے ، ایک نام نہاد 'تلوار' کا اثر،اور اب کلاشنکوف سے لیس اور خودکش جیکٹس میں ملبوس!
لیکن ایمان کی اسی کتاب میں، برداشت صبر عمل اور جدوجہدکا عنصر ، زندگی کی حرمت کے ساتھ ہم پلہ ہے۔ یہ ایک مخصوص حالت کے تحت زیادہ سے زیادہ کارکردگی ہے،اگر ضرورت ہو تو وسیع وقت پر جاری ہے، مثبت انداز میں 13-11 حالت کو تبدیل کرنےکے لئے ۔ وہ ، فطرت کے قوانین میں انصاف کے مطابق انعام کے فطری قانون میں یقین اور مثبت کوشش اور عمل کے ساتھ ہے ،جو صورت حال کا تدارک کرتا ہے ۔ بہت سی جگہوں پر اس کی وضاحت ہے۔
ایک عام انسان جو زندگی کے ہر پہلو میں اچھائی کے لئے ، نیک عمل کے متعلق ، قرآن کے اصول اور اور نیک عمل پر اس کے زور دینے سے واقف ہو ، اسے اس دلیل کی اصل کو قبول کرنے میں کوئی مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر ایک سادہ آیت:
39-53 اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہوگی ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ، یہ مطلوبہ ردعمل حاصل کرنے کے لئے منصفانہ اور مثبت کارروائی کرنے کا عہد خود کرنا بہت اہم ہے ، اس بات کو یاد رکھتے ہوئے کہ ہر اچھا یا برا کام کا ایک متناسب ردعمل ہوتا ہے ۔
اس کے ساتھ منسلک کرنے میں ایک عظم مصمم ہے جو کہ ایک ضروری عنصر 159-3 کے طور پر مطلوب ہے - تو پھر، جب آپ نے ایک پختہ عہد کرلیا ، اس کے بعد خدا کے(عمل اور رد عمل کی) کے قوانین فطرت، پر اپنا اعتماد رکھیں ۔
یہ یا تو اس تقوی "بزرگانہ خود سپردگی " سے دور ہے ، جس کی تشہیر آج بھی کچھ عالم ،منبروں اور اور ویب سائٹ کے ذریعہ قسمت ہونے کے طور پر کر رہے ہیں جسے ختم کرنا ضروری ہے ،یا نا انصافی ، متعصب اور سخت رد عمل اور نقصانات سے قطع نظر ،سیاسی طور پر متأثر ہے ، بھائی بھائی کا معصوم، غیر مسلح، مرد، عورت، اور بچوںمیں فرق کئے بغیر قتل کررہا ہے ،جو کہ مکمل طور پر اس کتاب کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یہ صبر کے سب سے اہم اصول کو نظر انداز کرنا ہے ۔
یہ تمام جماعتوں کا ایک مشغلہ ہے، یا منصوبہ بند طریقے سے ،یا معصومیت کی وجہ سے ،اور زیادہ امکان منصوبہ بند طریقے سے ہونے کا ہے ، پر تشدد انڈسٹری کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے پیروکاروں کو جھوٹے عقائد کی تسکین دلانا ہے ۔ 11-2 اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں،"۔
اس کے نتیجےمیں خاص طور پر مسلم نوجوان ان کے معنی میں دن بہ رجعت پسندانہ رویہ اختیا ر کرتے جا رہے ہیں ، جہاں آج یہ ان کے ‘‘مذہبی جنگل’’ کے قانون کی پیروی کے امر پر تقریباً زیادہ ہے ، یا درست طریقے سے لفظ جنۃ آسمانی باغ کی کامل تصویر کا وعدہ ہے !
تاہم، کتاب بائبل کے ‘‘صرف جنگ’’ کے اصول کو برداشت نہیں کرتا ،جس کا صدور صلیبی جنگوں کو جواز فراہم کرنے کے لئے ہوا ہے۔ انصاف اور جنگ، یہ دو الفاظ متضاد اصطلاحات ہیں اور کسی بھی قدرتی قانون میں ایک ساتھ نہیں ہو سکتے ۔
یہاں یقینی طور پر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ ، پھر ریاستوں کی جانب سے اسپانسر شدہ تشدد، خاص طور پر آج کے یک طرفہ بغیر کسی نام اور پائلٹ کے بزدلانہ ڈرون حملے اور ان کے ذریعہ اس ردعمل کے درمیان جن پر یہ مظالم ڈھائے گئے کیا فرق ہے؟
یہ صرف چوسٹھ ہزار ڈالر کا ایک سوال نہیں ہے ،بلکہ کھربوں ڈالر کا معمہ ہے، اور صرف وہ لوگ جن کے پاس خرچ کرنے کے لئے اتنی رقم ہے ،اور وہ اتنے سنگ دل ہیں کہ لاکھوں کی زندگی کو برباد کر دیں اور جو اپنے مقصد اور حکمت عملی کے لئے ممالک کو تباہ کرتے ہیں وہی ، کسی بھی صورت میں ، جواب دے سکتے ہیں۔
یہ جہالت کا ایک تَمَسخرانہ رُوپ ہے۔ مسلم قوم نے مجموعی طور پر دوستوں اور خاص طور پر منافقوں کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت کو کھو دیا ہے، جو ان میں سب سے بد ترین ہیں۔
وہ برے ہیں کیونکہ وہ دوستوں کی طرح ملتے ہیں لیکن اندر سےدشمن ہیں ۔ ایک کھلے دشمن کو منافق کہا گیا ہے ، جو "۔۔۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں ۔۔۔ 67-9"!
اگر اہل علم افراد نوجوانوں کو بچاناچاہتے ہیں، تو ان کے لئے ضروری ہےکہ وہ ان کو کجرو اصولی علم سے تعلیم کے مرکزی دھارے کی طرف موڑنے کے لئے فوری کارروائی کریں ، کتاب کے مطابق ان کو پیش کریں " ۔۔۔۔۔ 28-35 ، اس کے بندوں کے درمیان جن کے پاس علم ۔۔۔ "۔ حقیقی علم، اسی لئے وہ سمجھتے ہیں "۔۔۔ اچھا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے صبر پر قائم رہتے ہیں – جب تک خدا کے قوانین ہمارے درمیان فیصلہ کر دیں ۔۔۔"
یہ ایک واضح مشاہدے کی طرف رہنمائی کرتا ہے!
یہ یقیناً حکومت کی ذمہ داری ہے جو بہت سے مسلم ریاستوں نے منسوخ کر دیا ہے اوریہ بوجھ دوسروں کو اٹھانے کے لئے چھوڑدیا ہے ، جیسا کہ 15-17 میں ،کوئی کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔ اس طرح اب سیکھنے کے دو یا تین چشمے ہیں ۔
سب سے پہلے وہ ہے جو نام نہاد سرکاری اسکولوں کا رہ گیا ہے۔ دوسرا خودکش بمبار کی فیکٹریوں سمیت مذہبی اسکول ، اور اور تیسرا، شاید اتنا ہی مہلک اگر چہ اتنا بھی برا نہیں ، کسی بھی غیرت مند قوم کا فرماں روا کو قبول کر لینا ، ذاتی پیسہ بنانے کی تعلیم کی انڈسٹری بنیادی طور پر غیر ملکی کاروباری انٹرپرائز کے ذریعہ چلائی جاتی ہے ۔ انہوں نے اپنے ممالک کے میزبان ملک کے ہی خلاف ہتھیار تیز کر لئے ہیں ،اور منافقوں کی اہم خصوصیات میں سے ایک میں اپنی دلچسپی لگا دی ہے ۔
اس پر کوئی تعجب ہے کہ سہ گنا خطرے کے ساتھ مسلم دنیا اندر ، باہر، جڑ سے اور اوپر آسمان سے بھی تباہ کی جا رہی ہے! اگر اس صورت حال کو انہوں نے ان مسخ شدہ حکمت عملی کے اصول صبر اور جہاد کے طور پر قبول کر لیا ، تو ان کے ساتھ وہ سب کچھ ہوگا جس کے وہ مستحق ہیں، اور یہ بالیقینی طور پر اس وقت تک ہو گا جب تک کہ وہ دوستوں اور منافقوں کے درمیان فرق کرنا نہ جان جائیں اور "تبدیلی" نہ لائیں جیسا کہ اکثر حوالہ دیا گیا ہے ، اور کتاب کے بارے میں 13 11اچھی طرح جانا جاتا ہے !
URL for English article
https://newageislam.com/islamic-ideology/‘god-with-those-endure-patiently/d/10331
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/god-with-those-endure-patiently/d/11060