New Age Islam
Thu Mar 23 2023, 04:42 AM

Urdu Section ( 16 Aug 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Marching To Makkah In Search Of My Iconoclast Aba Ibrahim the Haneef اپنے بت شکن ابراہیم حنیف کی تلاش میں مکہ کاعزم سفر


راشد سمناکے، نیو ایج اسلام

09اگست 2016

مروجہ مذہبی عقائد کے برعکس اس مضمون میں قرآن کی رو سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مکہ میں مشہور و معروف عبادت گاہ خانہ کعبہ کی تعمیر جنہیں مسلمان تعظیم و توقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جنہیں قرآن میں حنیف کہا گیا ہے نہیں کی ہے۔جیسا کہ مندرجہ ذیل آیتوں سے ثابت ہے وہ کبھی بھی مکہ گئے ہی نہیں تھے۔اور یہ کہ اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدیم کافرانہ رسم کا احیاء نہیں کیا ہے جو آج تک قوم مسلم کے قبلہ کی حیثیت سے جاری ہے۔

6:74-اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر سے کہا: کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں (مبتلا) دیکھتا ہوں۔

تمام رسول موحد اور دانشورانہ بت شکن تھے۔ لیکن پرانی خصلتیں اور عادتیں بہت مشکل سے ختم ہوتی ہیں۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کچھ عرصہ کے بعد ایام جاہلیت کی رسمیں لوٹ آئیں۔ابراہیم کی نام نہاد 'اولاد ' پھر سے بت پرست اور خانہ کعبہ کی متولی بن گئی اور اس نے قدیم رسومات کو دوبارہ زندہ کر دیا۔

تمام رسولوں کےاس مشترکہ پیغام کو کہ: ’’عبادت کے لئے اپنی مورتیں مت تراشو‘‘لوگوں نے نظرانداز کر دیا۔جیسا کہ ڈاکٹر راشد شاز نے کہا کہ 'پوشیدہ چرچ' کے قصے کہانیوں نے امت مسلمہ کو ان رسومات کی طرف متوجہ کیا کہ جن کے احیا کا جھوٹا الزام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا گیا تھا۔

یہودی وعیسائی تاریخ بھی اس طرح کی تبد یلیوں سے بھری پڑی ہے۔آٹھویں صدی میں رومن اور بازنطینی عیسائیت کی فرقہ بندیسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ بت شکن اور بت پرست کے نظریہ سازوں میں ایک طویل زمانے سے موجود رہا ہے۔یہ بہت سے دوسرے بین فرقہ اور بین المذاہب تنازعات میں بھی موجود رہا ہےجن میں سے اکثر انتہائ یخون آشام ہیں !

اس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مندرجہ بالا دو پیغمبروں کے نام پران کی دانشورانہ بت شکنی کو جس چیز سے بدل دیا گیا ہے اس کی وجہ سے وہ آج اپنی قبروں میں پریشان ہوں گے! عرب اور ان کی شہنشاہیت "حرمین شریفین"پر اپنی اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہے۔

قرآن 25:73 میں پوری انسانیت کے لیے اللہ کا یہ حکم کہ اندھے اور بہرے ہو کر کسی چیز کی پیروی نہ کی جائے، گزشتہ دور کے ان رسومات کو دانشورنہ بہراپن اور اندھا پن بنادیتا ہے۔لہٰذآ، قرآن مجید کی روشنی میں پوری عقل مندی کے ساتھ فقہ کی تحقیق و تفتیش کرنا بہت ضروری ہے جو کہ ہدایت کا بنیادی مصدر و سرچشمہ ہے2:2۔

6:161-فرمادیجئے: بیشک مجھےمیرےرب نےسیدھےراستےکی ہدایت فرمادی ہے، (یہ) مضبوط دین (کیراہہےاوریہی) اﷲ کی طرف یکسواورہرباطل سےجداابراہیم (علیہ السلام) کی ملت ہے،اورو ہ مشرکوں میں سےنہ تھے۔۔۔

 اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قرآن میں حج کا حکم نازل کیا گیا ہے۔ بکہ3-96 میں سب سے پہلے گھر کو پوری کائنات میں امن و سلامتی کا گھر ہونےکا درجہ دیا گیا ہے۔ مکہ کے جن مقامات کا ذکر کیا ہے وہ انسانوں کی بنائی ہوئی ان نشانیوں کی مثالیں ہیں جنہیں صحرا عرب کے مشرک پوجتے تھے؛اور اس کا مقصد لوگوں کو ان کا حامی بنانا نہیں بلکہ لوگوں کو ان تبدیلیوں سے روشناس کیا جانا تھاجو توحید کے نظریہ اور ابراہیم علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان دونوں کے درمیان مبعوث ہونے والے تمام پیغمبروں کی بت شکنی سے پیدا ہوئی تھی۔

اس نظریے کے لوازم رسولوں کی امت، عام وحی اور الہامات اور دولت کی تقسیم ہے جسے کتاب کے شروع میں4 اور 2:3 اور دیگر کئی مقامات پر بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ لہذا، ان سب کے لئے عام حکم اگر خدا کے گھرمکہ کے اندرکعبہ میں خراج عقیدت پیش کرنا اور حج ادا کرنا تھا تواس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے حکم کی پیروی نہ کر کے کفر کاارتکاب کیا تھا جو کہ ناقابل تصور ہے!

ابراہیم علیہ السلام کے متنازعہ مسئلہ کے علاوہ جنہوں نے"خدا کی خدمت کے لئے بنیادبلند کی" 2:127، جو کہ ایک ایسا کام ہےجو پتھر اور مسالہ سے انجام نہیں دیا جا سکتا ہے؛مکہ کا سفر کرنے کے سلسلے میں کسی دوسرے نبی اور رسول کا کوئی حوالہ قرآن میں موجود نہیں ہے۔نہ تو مصر سے موسی اور نہ ہی ناسرت سے عیسی علہ السلام جغرافیائی اعتبار سے شہر مکہ سے قریب ہیں۔لہٰذا، شہر مکہ جسے امن کا شہر[حرم] ہونے کا شرف حاصل ہے، جہاں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے (17-1)،اور جوان کے لئے اتنا خطرناک اور ناہموار بن گیا تھا، اس کے باوجود کیا ابراہیم علیہ السلام اپنے خاندان کے ساتھ صدیوں پہلے مسوپتامیہ سےشہر مکہ کا سفر کرنے کے قابل تھے؟

32:3۔بلکہ وہ آپ کےرب کی طرف سےحق ہےتاکہ آپ اس قوم کوسنائیں جن کےپاس آپ سےپہلےکوئی سنانےوالانہیں  آیا تاکہ وہ ہدایت پائیں!

34:44۔ اور ہم نے ان (اہلِ مکہّ) کو نہ آسمانی کتابیں عطا کی تھیں جنہیں یہ لوگ پڑھتے ہوں اور نہ ہی آپ سے پہلے ان کی طرف کوئی  سنانے والا بھیجا تھا۔

36:6- "تاکہ آپ اس قوم کوڈرسنائیں جنکےباپ داداکو (بھی) نہیں ڈرایاگیا سووہ غافل ہیں،" (62:2 بھی دیکھیں)۔ مندرجہ بالا تمام آیتیں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نہ تو ابراہیم علیہ السلام مکہ آئے تھے اور نہ ہی کوئی دوسرے نبی۔

کہا جاتا ہے کہ: "تمام مذاہب کی بنیادبہت سے لوگوں کے خوف اور چند لوگوں کی چالاکی اور ہوشیاری پر ہوتی ہے"۔ اپنے بت پرست اور سب سے بڑےکاہن باپ آزر کے ماحول میں، ابراہیم نے ایسا کرنے کے لیے بنی نوع انسان کی فطرت کا حامل ایک مادی'خدا' تلاش کیا۔کسی ایک کا بھی تعین نہ کرتے ہوئےمایوسی میں وہ کہتے ہیں، ’’بیشک میں نےاپنارُخ (ہرسمت سےہٹاکر) یکسوئ سےاس (ذات) کی طرف پھیرلیاہےجس نےآسمانوں اورزمین کوبےمثال پیدافرمایاہےاور (جان لوکہ) میں مشرکوں میں سےنہیں ہوں ‘‘6:79۔اور اس طرح ’خالق حقیقی‘ کا وہ علمی تصور قائم کیا جسے انسان ’’خدا‘‘ کہتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ مسلمان ایک دن میں پانچ مرتبہ قبلہ کی جانب چہرہ پھیر کر اپنی نمازوں میں پانچ مرتبہ اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں اور اس کائنات کے خالق حقیقی کوزمین پر خانہ کعبہ کی سمت میں محدود کرتے ہیں!

ایک عظیم صوفی اور شاعر سید بھلے شاہ نے ابراہیم کی مایوسی کا اظہار اس طرح کیا ہے۔ 2:115 :

 ربنہ تو تیرتھ میں اور نہ ہی مکہ میں ہے

بلکہ اس کا نور تمام اطراف کائنات میں پھیلا ہوا ہے!

62:1۔ کائنات کی ہر شئی اللہ تسبیح و تہلیل کرتی ہے۔لہذا، کیا اب بھی خالق حقیقی کا تصور قائم کرنے کے لیے 45:5انسانوں کو قبلہ کے لیے انسانوں کی بنائی ہوئی شبیہ2-142, 3, 4, 5کی طرف چہرہ پھیرنا ضروری ہے؟اور خالق کائنات یروشلیم میں انسانوں کے بنائے ہوئے قبلہ کو بدل کر مکہ میں انسانوں کے بنائے ہوئے قبلہ کو اختیار کرنے کا حکم کیوں دے گا ، جیسا کہ تفسیروں اور حدیثوں میں موجود ہے؟

اس سلسلے میں ایسے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں جن کا منطقی سوچ کے ساتھ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے ۔جو کہ قرآن کی ایک شرط اولین ہے۔ اسلام اعمال کا حکم صرف عرب ہی نہیں بلکہ عام افراداورمجموعی طور پر تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے دیتا ہے۔

مثال کے طور پر حج ادا کرنے کاعملی فائدہ زمین کی سیر و سیاحت کرنا اور گزشہ اقوام و ملل کے انجام سے عبرت حاصل کرنا ہے، جو کہ اب مکہ میں عبادت کی شکل اختیار کر کے مکمل طور پر مفقود ہو چکا ہے 22:28؛

22:46۔ توکیاانہوں نےزمین میں سیروسیاحت نہیں کی کہ (شاید ان کھنڈرات کودیکھ کر) انکےدل (ایسے) ہوجاتےجن سےوہ سمجھ سکتےیاکان (ایسے) ہوجاتےجنسےوہ (حق کی بات) سن سکتے؟ اور 20-114 .......اورآپ (رب کےحضوریہ) عرض کیاکریں کہ اےمیرےرب! مجھےعلم میں اوربڑھادے۔اس طرح کے بے شمار مقامات اور بھی ہیں! نہ کہ زمین کا صرف ایک ہی خطہ۔اسی لیے سیر و سیاحت اسلامی عقیدے کاتقریبا ایک لازمی حصہ ہے۔

لہٰذا، حج اگر مختلف ممالک میں ادا کی جائے توکیا "علم حاصل کرنے" اور "دولت کی تقسیم" کا قرآنی پورا نہیں ہوگا؟ لاکھوں لوگ ان مقامات کا سفر کریں گے اورجغرافیائی، تاریخی، آثار قدیمہ، ثقافتی اور یہاں تک طباخی کا بھی علم حاصل کریں گے اور وہاں اپنی گاڑھی کمائی خرچ کریں گے جس سے ملک کی معیشت کو فروغ حاصل ہوگا اور وسیع پیمانے پر حج کی افادیت عام ہوگی۔یہ عملی روحانیت کی حقیقی شکل ہوگی! کیا یہ تجویزپیش کرنا  کوئی پاگل پن ہے؟

ارسطو نے کہا تھا، "کوئی بھی کامل انسان جنون کا مرکب ہونے سے مستثنیٰ نہیں ہے"؟ دنیا میں ایسے بہت کامل انسان ہیں جو مجنونانہ سوالات پوچھتے ہیں۔ روایت حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) نے جسمانی طور کعبہ میں موجود بتوں کو تو تباہ کر دیا تھا؛لیکن انہوں نے بعد میں پیدا ہونے والے بت پرستوں کے لیے اس عبادت گاہ کو کیوں چھوڑ دیا؟ اگرچہ اس طرح کے سوالات اور بھی بہت زیادہ ہیں! لیکن اگرکھلے ذہن کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو اس کا جواب حاصل کیاجا سکتا ہے۔

توہم پرست، ثقافتی، تاریخی، مذہبی، سیاسی وغیرہ تمام قسم کےبت،فرقے اور اثرات جنہیں بنی نوع انسان نے ان کے سامنے جھکنے کے لیےبنایا ہے یا ڈھالا ہے’’مجسمے ‘‘17:22 ہیں کیونکہ وہ بنی نوع انسان انہیں وہ عزت ووقار عطا کرتے ہیں جو خالق کائنات اپنے لیے چاہتا ہے 17:70۔جبکہ، تمام رسولوں کے مشن کی بنیاد یہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبودنہیں ہے۔

اقبال نے بالکل بجا کہا تھا:

یہ دَوراپنےابراھیم کی تلاش میں ہے—صنم کد ہ ہےجہاں،لَااِلاہَاِلااللہ

اہل علم اور اہل حکم علماءؑ کو "مجسمہ" کی عبادت جو کہ شرک ہے اور "بنی نوع انسان کی خدمت" جو کہ خالق کائنات کی حقیقی عبادت ہے ان دونوں کے درمیان فرق کو واضح کرنے کےلیے خالق کائنات کی رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے، اور انہیں اللہ سے جاہل عوام کی ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لیے ہمت طلب کرنا چاہیے تاکہ حرمین شریفین کے والی ان کا استحصال نہ کر سکیں۔ ورنہ ان پر آیت2:79 ’’پس ایسے لوگوں کے لئے بڑی خرابی ہے جو اپنے ہی ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے عوض تھوڑے سے دام کما لیں ‘‘کی لعنت ہے۔

موجودہ وقت میں لگتا ہے مسلم دنیا پہلے سے ہی کسی لعنت میں مبتلاء ہے!

 

English URL: https://newageislam.com/islamic-society/marching-makkah-search-iconoclast-aba/d/108223

URL: https://newageislam.com/urdu-section/marching-makkah-search-iconoclast-aba/d/108283

Loading..

Loading..