رشید قدوائی
11دسمبر،2019
ہمارے مدرسے قدامت پسندی میں جکڑ ہے ہوئے ہیں۔ انہیں جدید طرز تعلیم سے آشناکرنے کے ساتھ کسی بھی طرح کے ٹھپے سے بچائے جانے کی سخت ضرورت ہے۔ نیز اس کی بھی فوری ضرورت ہے کہ مدرسوں کودہشت گردی کے ٹھکانے کہے جانے جیسے کلنک سے بچا یا جائے۔ حال ہی میں شائع انگیزی کی ایک کتاب ملک میں چل رہے ان اسلامی اداروں اوران کے مسائل پر سنجیدہ غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے۔
’مدرساز دایج آف اسلاموفوبیا‘ سیج پبلیکیشن، دہلی 2019، کے مصنفین ضیاء السلام او رڈاکٹر ایم اسلم پرویز ہیں۔ کتاب میں اس کا تذکرہ ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی آواز بلند کرنے والے یہ تعلیمی ادارے کیسے ان دنوں مشکل وقت سے جوجھتے ہوئے مختلف چیلنجوں کاسامنا کررہے ہیں۔ ان میں اصلاح کے ساتھ ان کو ماڈرنائزیشن کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اسلاموفوبیاکی لہر انہیں مزید الگ تھلگ تو مدارس کے طلبہ کوآتنک وادی ٹھہرانے کی روش صورتحال کو اور خراب کررہی ہے۔
ضیاء السلام کہتے ہیں ’حقیقت یہ ہے کہ آتنک واد کے نام پر پکڑے گئے مدرسوں کے طلبہ پر آتنک واد کے الزامات کبھی ثابت نہیں ہو پائے۔عدالتوں سے انہیں باعزت رہائی نصیب ہوئی۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ انصاف ملنے کا یہ عمل کافی طویل کھینچ جاتاہے اور خود بے گناہ ثابت کرنے کی ساری تگ و دو ملزم کو خود کرنا پڑتی ہے۔ عبدالوحید شیخ کی مثال لے لیجئے،جسے ممبئی ریل دھماکوں کا ملزم بنایا گیا تھا۔ 9سال بعدوہ بری ہوپایا۔ اس سے پہلے سلمان فارسی والے معاملے کی بات کر لیجئے، جو حافظ قرآن ہے۔ اسے مالیگاؤں دھماکوں میں ملزم بنادیا گیا۔ فارسی کو اس الزام میں بری ہونے میں 8سال لگے،مگر اسے اپنی پرانی زندگی کبھی نہ مل سکی۔ وہ ایک تربیت یافتہ معالج بھی ہے، مگراس کا سب کچھ چھن گیا۔ ضروریات زندگی کے لیے اسے بکرا بکری تک پالناپڑے۔ ان تکلیف دہ اور بھیانک حالات سے بچایا جاسکتا تھا، لیکن صورتحال یہ ہے کہ الزام لگتے ہی میڈیا بھی انہیں آتنک واد ی پکارنے لگتا ہے۔ حالانکہ جب تک الزام ثابت نہ ہو جائے، میڈیا کواسے ’آروپی‘ہی کہنا چاہئے، آتنک وادی نہیں۔ جب تک الزام ثابت نہ ہوجائے ان کی شبیہ برباد کرنے سے بچناچاہیے۔ یہ بھی جزوی راحت ہے۔ حقیقت سمجھنے کے لیے میں میڈیا والوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ خود چن کر کسی اسلامی تعلیم گاہ میں جائیں اور دیکھیں کہ کسی مدرسے میں ہتھیار وں کاذخیرہ نہیں رکھا جاتا، نہ ہی وہ اپنے طلبہ کو ہتھیار چلانے کی ٹریننگ دیتے ہیں۔
مدارس کے نصاب کابغور مطالعہ کرنے پر مصنفین اس نتیجے پر پہنچے کہ وہاں پڑھائے جانے والے فقہ کااسلوب،زبان ومثالیں کافی قدیم ہو چکی ہیں۔ یہ نصاب دلائل ومذاکرات کا ماحول بنانے کے بجائے معاندانہ و مخالفانہ جذبات زیادہ پیدا کررہے ہیں۔ ان سے علمی دلائل پر قدرت حاصل ہونے کے بجائے خشک وسطحی مزاج تشکیل پارہے ہیں۔مدارس میں زیادہ تر شرحوں کی شرحیں پڑھائی جارہی ہیں۔ یقینا یہ دلچسپی پیدا کرنے کامثالی طریقہ نہیں ہے۔البتہ جنوبی ہند کے کچھ صوبوں،خاص طور سے کیرل وبنگال میں صورتحال کچھ مختلف ہے،جہاں انگریزی،سائنس و علم الحساب کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
ضیاء السلام موقر انگریزی روزنامے سے وابستہ سینئر صحافی ہیں، جب کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمداسلم پرویز باٹنی کے پروفیسر بھی ہیں۔ ملک بھرمیں پھیلے ہزاروں مدرسوں کے بارے میں گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد ان لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ مقامی مدارس سے عالم بن کر نکلنے والے طلبہ بقیہ دنیا کے بارے میں کم ہی جانتے ہیں۔ اس لیے کتاب کا اختتامیہ کہتا ہے کہ سائنس کے میدان میں قابل قدر خدما ت سرانجام دینے والی قوم کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ محض رٹنے اورروایتی انداز کے طریقہ تعلیم میں بندھ کر رہ گئی۔
ملک کے زیادہ تر مدارس میں حنفی مسلک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس میں شافعی، مالکی و حنبلی مسلکوں اصولوں کا تذکرہ کم ہی ملتاہے۔ کتاب کے مصنفین کہتے ہیں، زیادہ تر سنی مدرسے درس کی تعلیم دیتے ہیں، جو 300سال پہلے ترتیب دیا گیا تھا۔ اس کے جدید خیالات کے گزر کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے۔ شیعہ علماء نے اس میں کچھ تجربات کیے تھے،مگرانہیں کم ہی قبول کیا گیا۔ مصنفین کہتے ہیں کہ حقیقت میں تو یہ مدرسے اسلام کے بارے میں کم ہی سکھاتے ہیں۔ یہ نوجوان طلبہ کو اسلام کا ایک مخصوص خلاصہ ہی پڑھاتے ہیں۔ جب کہ دیگر خیالات و تفکرات کو نظر انداز کرنا قرآنی ہدایات کے منافی ہے۔
مدارس کے نصاب کی بابت فاضل مصنفین پاتے ہیں کہ 2019 یا 2020ء میں مدرسوں کا جو نصاب ہے، 1920بلکہ 1870میں بھی وہی تھا۔ ان کے مطابق اس میں احساس وقت کا فقدان پایا جاتا ہے،جو قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے۔ قرآن انسانوں کو تفکر،کھوج اور دلائل پر اصرار کرتا ہے، جب کہ مدارس کا اپنے طلبہ سے کہناہوتاہے کہ وہ صرف قرآن یاد کریں اور کوئی سوالات نہ کریں۔ سوالات پوچھنے والے کوایسا ماناجاتا ہے کہ اس نے روایت توڑی ہے اور اس پر وہاں سزا واجب ہے۔
اپنی سوچ کے چلتے کئی مدارس آج بھی 14ویں صدی میں لکھی گئی تفسیر ابن کثیر کواہمیت دیتے ہیں۔ مولاناابوالحسن علی ندوی یعنی مولانا علی میاں،ابولاعلیٰ مودودی، ڈاکٹر اسراراحمد، مولاناوحیدالدین خان جیسے 20ویں صدی کے علماء کے کام ان کے نظر میں زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔وقت کی رفتار سے گویا انجان ہندوستان کے مدارس میں آج بھی معیاری یہی ہے کہ ٹوپی لگائے طلبہ کتاب پر انگلی پھیرتے ہوئے قرآن رٹتے رہیں، بھلے وہ اسے سمجھ نہ پائیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آپ کسی حافظ قرآن سے پوچھیں تووہ قرآن کی ایک سورۃ کابھی مفہوم نہ بتاپائے۔
کتاب کے مصنفین کے مطابق 12ویں صدی تک مسلمان سائنس کی تحقیقات و ایجادات میں چوٹی پر تھے۔ اس دور میں کئی عظیم مسلم فلاسفرس، ماہر علم الحساب،معالجین ومورخ ہوئے۔ وہ لوگ منطقی فکر و خیال کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ جدید تعلیمات واپنے وقت کی نبض سمجھتے تھے۔ اس کے خلاف ہندوستان کے زیادہ تر مدارس اپنے طلبہ کو کمپیوٹر وانٹرینٹ تک مہیا نہیں کراتے ہیں۔
ہندوستانی مدار س کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ معاشی، انتظامات ہیں۔ تقریباً سارے مدارس عوام الناس کی امداد سے چلتے ہیں۔ جن مدارس میں طلبہ رہتے بھی ہیں، وہاں انہیں زمین پر سوناپڑتا ہے۔پھر موسم چاہے ٹھنڈا ہو یا گرم،یا برسات کا۔ مصنفین نے دیکھا کہ40ڈگری سے زیادہ ٹمپریچر میں 40سے بھی زیادہ طلبہ قرآن پاک حفظ کر رہے ہیں۔ اس شدید گرمی میں ان کے لیے وہاں صرف دو بیمار پنکھے چل رہے ہیں۔
ایسی صورت حال میں مصنفین صلاح دیتے ہیں کہ مدرسوں کی تعلیم میں سرکار کی شراکت داری ضروری ہے۔ کیونکہ مدارس اسلامیہ کے بیشتر فارغین کو کہیں ڈھنگ کا روزگار نہیں ملتا،سوائے اس کے کہ وہ کہیں مدرسہ کھول لیں یا کسی مسجد میں امام یا موذن ہوجائیں۔ اگر ٹیچرس، کتب، انٹر نیٹ اور کمپیوٹر جیسی سہولیات انہیں مہیا کرادی جائیں تو مدارس بھی جدید آلات سے آراستہ ہوکرقومی دھارے میں شامل ہوسکتے ہیں۔
11دسمبر،2019 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/madrasa-old-theology-jurisprudence-language/d/120489
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism