رام لعل نا بھوی
9 اگست، 2015
وطن کا تصور بہت گہرا ہے او ربہت پیچیدہ بھی ۔ وطن ایک ملک کا نام ہے ایک ریاست کا نام ہے۔ ایک قوم کا نام ہے ۔ ایک مشترکہ تہذیب اور لسانی وحدت کا نام ہے۔ وطن ہمارے آباء و اجداد کی پیدائش سےبھی عبادت ہے۔ وطن میں مختلف شکلیں ، مختلف لباس، مختلف رسم و رواج ،مختلف مذاہب، مختلف نظریات اور مختلف زبانیں ہوسکتی ہیں۔ وطن اور قوم لازم و ملزم ہیں۔ قوم ایک ایسی ملت کو کہیں گےجو تاریخ کے ارتقا سےپیداہوتی ہے ۔ جس کی اقتصادی زندگی، نفسیات ، چلن، رابطہ ، اصول اور قوانین ایک سے ہوتےہیں ۔ وطن اور قوم کے تصور کو الگ کیا ہی نہیں جاسکتا ۔
انسان جہاں پیدا ہوتاہے، پنپتا ہے ، پھلتا پھولتا ہے وہاں کی تاریخی و تہذیبی روایات سے اس کی وابستگی گہری ہے ہوجاتی ہے۔ اقتصادی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں ۔ وطن کا ہر مسئلہ ، ہرمعاملہ ، سماجی، سیاسی اور مذہبی واقعہ وطنیت کے جذبہ کی بنیاد بن جاتا ہے۔ وطن کے قدرتی مناظر ، پہاڑ ، جنگل، سمندر، ندیاں ، جزیرے ، جھرنے ، جھیلیں، پنگھٹ ، آبشار، موسم، چرند پرند، پھل پھول ، معدنیات وطن سے محبت پیدا کرتے ہیں ۔ وطن کے تہواروں ، ہولی، دیوالی، عید، بسنت یا بیساکھی پرراگ رنگ ، میلے ٹھیلے وطنیت کا جذبہ ابھارتے ہیں فنون لطیفہ ، موسیقی، نقاشی، مصوری، رقص ، سنگ تراشی ، تاریخ ، ادب ، تہذیب اور ثقافت وطنیت کے آئینہ دار ہیں۔ داستانیں عشق و محبت کی ہوں قصے کہانیاں ہوں، بیتال پچیسی ہو یا سنگھاسن بتیسی ، بچپن سے ہی کانوں میں پڑنی شروع ہوجاتی ہیں جن سے وطن سے جذباتی رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔ وطن کی کوئی نیرنگی شاعروں اور ادیبوں کی نظر سے اوجھل نہیں ہوسکتی ۔ وہ واقعات کو گرفت میں لے لیتی ہیں اور پھر وطن کے گیت گاتے ہیں۔
وطنیت کا تصور صحیح معنوں میں 1857 کے غدر سے شروع ہوتا ہے۔ یہ انقلاب ،قومیت و وطنیت کے تصور کا پہلا نقش ہے۔ وطن سے محبت کرنے والوں اور اس پر جاں نثار کرنے والوں کی ستائش کی جاتی ہے، وطن پرستی کے گیت گائے جاتےہیں، وطن کی شاندار ماضی کی روایتوں کا عقیدت سےاظہار ہوتا ہے۔ وطن اردو شاعری کا ایک اہم موضوع بن جاتا ہے۔ وطن کی خاک کو سرمۂ نظر اور سرمایۂ آسائش جان و جگر بتا یا جاتاہے ۔ وطنیت میں مذہب وملت، رنگ و نسل ، علاقائی تصورات کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ آہستہ آہستہ وطن کا تصور ایک اعتقاد بن جاتا ہے۔ یہ اعتقاد جب پختگی اختیار کرلیتا ہے تو وطن جان سے زیادہ عزیز ہوجاتاہے۔ پھر وطن پر مرمٹنا ایک کھیل بن جاتاہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ وطن پر مرمٹنے والوں کا نام و نشان کبھی نہیں مٹتا ۔ وہ دلوں پر کندہ ہوجاتاہے۔ جان عزیز دے دینا بہت مشکل کام ہے اور بغیر کسی غرض اور فائدہ کے جان کو موت سے ہمکنار کردینا کوئی بچوں کا کھیل نہیں لیکن وطن سے محبت محب وطن کو اتنا جذباتی بنا دیتی ہے کہ وہ موت کو ایک کھیل سمجھ لیتا ہے ۔ یہ کھیل نہایت مشکل ہے اور نہایت آسان بھی۔
جان پر کھیلنا مشکل ہے مگر یاد رہے
کھیلنے پر کوئی آجائے تو آسان بھی ہے
یہی وجہ ہے کہ شاعروں او رادیبوں نے وطن پر مرمٹنے والوں اور رہنماؤں کا اعتراف عظمت دل کھول کر اور نہایت عقیدت سےکیا ہے اور وطن سے غداری کرنے والوں کو قلمکاروں نے مطعون کیا ہے۔
آزاد اور حالی وطن کے گیت گانے والوں میں پیش پیش رہے ہیں۔ حب الوطنی کے جذبہ کو ابھارنے میں اسمٰعیل میرٹھی، اکبر الہ آبادی، حسرت موہانی، سرور جہاں آبادی، دتاتریہ کیفی، اقبال اور محروم وغیرہ نے نمایاں کام کیا ہے لیکن ان سب میں ابھرتا ایک ایسا شاعر اور ادیب ہے جس کی تخلیقات میں وطنیت اور حب الوطنی کا سیلاب ٹھاٹھیں مارتا نظر آرہا ہے ، وہ نام ہے برج نارائن چکبست کا۔
چکبست کی تمام شعری تخلیقات میں وطن یا قوم کا نام ملتا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وطن کا تصوران کے خون میں رچ بس گیا تھا ۔ کلام وطنی محبت کے جذبات اور قومی تصورات سے مملو ہے۔ وہ حب وطن سےبے خود و مست تھے۔ ہندوستانی قومیت کے رجز خواں کی حیثیت سے ابھرے اور اس میدان میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ انہیں وطن سےوالہانہ محبت تھی ۔ ملکی اور قومی معاملات میں وہ خالص ہندوستانی تھے۔ ہندو مسلم اتحاد کے حامی اور آزادی کی تحریک کے علمبردار تھے ۔ ان کےسامنے گنگا جمنی تہذیب تھی ۔ صلح پسند او رمعتدل مزاج تھے ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو برابر للکارتے تھے۔ مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے کوسوں دور تھے ۔
چکبست کی پہلی نظم ‘‘حب قومی’’ کے عنوان سے تھی جو 1894ء میں لکھی گئی اور جسےانہوں نے سوشل کانفرنس کشمیری پنڈتانِ لکھنؤ کے ایک پنڈت کے شادی خانہ میں بعمر 12 سال پڑھی تھی ۔ ان کی نظموں کے چند عنوان دیکھئے : خاک ہند، وطن کا راگ، آوازۂ قوم، مسزاینی بیسنٹ کی خدمت میں قوم کا پیغام وفا، فریاد قوم، قوم کے سورماؤں کو الوداع، ہمارا وطن دل سے پیارا وطن، وطن کو ہم وطن ہم کو مبارک اور قومی مسدس وغیرہ ۔
نظم ‘‘خاک ہند’’ میں مسدس کاایک بند دیکھئے :
گوتم نے آبرو دی اس معبد کہن کو
سرمد نے اس زمین پر صدقے کیا وطن کو
اکبر نے جام الفت بخشا اس انجمن کو
سینچا لہو سے اپنے رانا نے اس چمن کو
سب سوز ہنر اپنے اس خاک میں نہاں ہیں
ٹوٹے ہوئے کھنڈر ہیں یا ان کی ہڈیاں ہیں
(منقولہ از صبح وطن ، ص1)
نظم آوازہ ٔ قوم میں مسدس کا ایک بند دیکھئے:
جو آج کل ہے محبت وطن کی عالمگیر
یہی گنہ ہے، یہی جرم ہے، یہی تفصیر
زباں ہے بند قلم کو پہنائی ہے زنجیر
بیان درد کی باقی نہیں کوئی تصویر
ہے دل میں درد مگر طاقت کلام نہیں
لگے ہیں زخم تڑپنے کا انتظام نہیں
(منقولہ از صبح وطن، ص 7)
فریادِ قوم بھی مسدس میں ہے۔ ایک بند دیکھئے:
ہے آج او رہی کچھ صورتِ بیاں میری
تڑپ رہی ہے دہن میں مرے زباں میری
چھدیں گے قلب و جگر شیر ہے فغاں میری
لہو کے رنگ میں ڈوبی ہے داستاں میری
مبالغہ نہیں تمہید شاعرانہ نہیں
غریب قوم کا ہے مرثیہ فسانہ نہیں
( منقولہ از صبح وطن، ص 13)
ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو للکارتے ہیں :
بھنور میں قوم کا بیڑہ ہے ہندوؤ ہشیار
اندھیری رات ہے کالی گھٹا ہے اور منجدھار
اگر پڑے رہے غفلت کی نیند میں سرشار
تو زیر موج فناہوگا آبرو کا مزار
مٹے گی قوم یہ بیڑہ تمام ڈوبے گا
جہاں میں بھیشم وارجن کانام ڈوبے گا
(منقولہ از صبح ،ص 16)
دکھا دو جوہرِ اسلام اے مسلمانو
وقار قوم گیا قوم کے نگہبانو
ستون ملک کے ہو قدر فوقیت جانو
جفا وطن پہ ہے فرض وفا کو پہچانو
نبی کے خلق و مروت کے ورثہ دار ہو تم
عرب کی شانِ حمیت کی یادگار ہو تم
(منقولہ از صبح وطن،ص 1)
قوم کے سورماؤں کو الوداع کہتے ہیں۔ ان میں سب مذاہب کے لوگ ہیں:
ساحل ہند سے جزار وطن جاتے ہیں
کچھ نئی شان سے جاں باز کہن جاتے ہیں
رن میں باندھے ہوئے شمشیر وکفن جاتے ہیں
تیغ زن، برق فگن، قلعہ شکن جاتے ہیں
سامنے ان کے ظفر برہنہ پا چلتی ہے
ان کی تلوار کے سائے میں قضا چلتی ہے
(منقولہ از صبح وطن ، ص 18)
چھوٹے بچوں کےلئے دو نظمیں ‘‘ہمارا وطن دل سے پیارا وطن’’اور ‘‘ وطن ہم کو وطن ہم کو مبارک’’ کہیں:
یہ ہندوستاں ہے ہمارا وطن
محبت کی آنکھوں کا تارا وطن
ہمارا وطن دل سے پیارا وطن
(منقولہ از صبح وطن، ص 24)
یہ پیاری انجمن ہم کو مبارک
یہ الفت کا چمن ہم کو مبارک
وطن کو ہم وطن ہم کو مبارک
(منقولہ از صبح وطن، ص 25)
چکبست ہندوؤں او رمسلمانوں دونوں کو انگریزی کی چکی میں پیستے دیکھ رہے تھے اس لئے ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے اور آزادی کی تحریک کے علمبردار ۔ ان کا کردار خالص ہندوستانی تھا۔ صلح پسندی ، توازن اور اعتدال ان کے مزاج کے خاص جوہر تھے ۔ ہندوستان کی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی تھی ۔ بیداریٔ وطن کے ترانوں میں انہیں روحانی سرور ملتا تھا۔ وہ اپنے پیغامات میں رنگا رنگ جلوے اور اپنے دل کی گرمی اور اپنے سینے کا گداز بھردیتے تھے ۔ چکبست کا ترانہ ہمیشہ ہندی ترانہ رہا ۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ وہ وقت کے دھارے میں نہیں بہے۔
چکبست نے 1905ء میں قومی شاعری شروع کی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قومی شاعری کیا الہام چکبست نے اقبال کے کلام سے حاصل کیا۔ سید فخرالدین مسعود رقمطراز ہیں :
‘‘ چکبست نے قومی شاعری اور وطن کی محبت کا راگ گایا۔ اس میں کوئی جدت یا نئی مضمون آفرینی نہیں پائی جاتی ۔ اس ڈھنگ کی شاعری تو ارد وادب میں حالی کے دور سے شروع ہوگئی تھی اور اقبال نےاس کو پروان چڑھایا اور اعلیٰ مدارج تک پہنچایا۔ چکبست بھی اس شاعری کے نمائندہ تھے اور انہوں نے اس فرض کو بحسن و خوبی انجام دیا اور ان کے ہم عصر اُن کی شاعری کےمداح اور معترف ہیں’’۔
ڈاکٹر عبادت بریلوی کی رائے ہے:
‘‘ چکبست کی شاعری میں وطنیت کا ایک نیا تصور ابھرتا ہے۔ اب وہ محض انفرادی و جذباتی تصور ہی باقی نہیں رہتا بلکہ اس کی نوعیت اجتماعی اور سیاسی ہوتی ہے اور ایک سیاسی تصور کی حیثیت سے وہ ایک نقطۂ نظر اور نظریۂ حیات بن جاتا ہے۔ چکبست کی بیشتر نظمیں اسی صورت حال کی ترجمان ہیں۔ وہ غلامی سے نفرت کرتے ہیں، انہیں آزادی سے محبت ہے۔ وہ فرقہ پرستی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔ وہ ہندوستانی قومیت کا ایک واضح تصور ضرور رکھتے ہیں ۔ ان کے یہاں ایک سماجی او رتہذیبی شعور اپنی جھلک ضرور دکھاتا ہے اس لئے ان کی شاعری اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں زیادہ آگے بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔’’
سید احتشام حسین لکھتے ہیں:
‘‘ 1917ء تک ہندوستان برطانیہ کی محبت میں سرشار تھا ۔ اسی کے دامن سے لپٹا ہوا تھا۔ چکبست اسی دور کے شاعر تھے ۔ حب وطن سے مست و بیخود۔ ہندوستان کا بھلا چاہتے تھے ۔ پرانی روشیں ترک کرنے پراکساتے اور معاشرت میں تبدیلیاں چاہتے تھے ۔ ان کے پاس ایک اثر انگیز زبان تھی اور ایک درد مند دل ۔ اس لئے وہ اپنے پیاموں میں رنگا رنگ جلوے بھر دیتے تھے ۔ ہماری غلطی ہو گی اگر ہم ان کے یہاں کوئی سیاسی فلسفہ تلاش کریں۔ ان کے خیالات و جذبات اس ہندوستان سے وابستہ تھے جس میں گوکھلے اور ایسے ہی دیگر قائدین کی آواز گونج رہی تھی جنہوں نے حب وطن کا درس دے کر ایک اصلاح پروگرام ہندوستان کے سامنے رکھا تھا ۔’’
سید اعجاز حسین رقمطراز ہیں :‘‘ چکبست کے یہاں حسن و عشق کے افسانے بہت کم ہیں، اُن کی شاعری کا خاص مقصد وطن کو بیدار کرنا ہے چنانچہ غزلوں میں بھی اسی بات کو مد نظر رکھتے ہیں ۔’’
ڈاکٹر عبدالحق رقمطراز ہیں : ‘‘ وہ قادر الکلام شاعر ہے۔ زور بیان اور فصاحت زبان کےساتھ خلوص اور در د بھی ہے۔ وہ ملک کی بے بسی اور خستہ حالی کو دیکھ کر بےچین ہوجاتا ہے اور اس حال میں جو کچھ کہتا ہے اس کا ہر حکم اثر سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ آزادی کا دلدادہ ہے مگر بے لگامی اور کاروادار نہیں ۔ وہ سچا ہے اور اس راستے پر چلنے والا ہے جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ اثر ہے۔ جس کا دوسرا نام اعتدال ہے۔’’
9 اگست، 2015 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/chakbast-champion-hindu-muslim-unity/d/104219